عطاء الحق قاسمی صاحب کہتے ہیں
عطاء الحق قاسمی صاحب کہتے ہیں کہ کنوارے بندے کو یہ بڑا فائدہ
ہے کہ وہ بیڈ کے دونوں طرف سے اتر سکتا ہے‘
میں جب بھی کسی کنوارے کو دیکھتا ہوں
حسد میں مبتلا ہوجاتا ہوں‘
شادی شدہ بندے کی یہ بڑی پرابلم ہے کہ
وہ کنوارہ نہیں ہوسکتا‘ البتہ کنوارہ بندہ جب چاہے شادی شدہ ہوسکتاہے۔
ہمارے ہاں کنوارہ اُسے کہتے ہیں جس کی زندگی میں کوئی عورت
نہیں ہوتی‘ حالانکہ یہ بات شادی شدہ بندے پر زیادہ فٹ بیٹھتی ہے‘ کنوارے تو اِس
دولت سے مالا مال ہوتے ہیں۔
فی زمانہ جو کنوارہ ہے وہ زندگی کی
تمام رعنائیوں سے لطف اندوز ہونے کا حق رکھتا ہے‘
وہ کسی بھی شادی میں سلامی دینے کا
مستحق نہیں ہوتا‘
اُس کا کوئی سُسرال نہیں ہوتا‘
اُسے کبھی تنخواہ کا حساب نہیں دینا
پڑتا‘
اُسے دوستوں میں بیٹھے ہوئے کبھی فون
نہیں آتا کہ ’’آتے ہوئے چھ انڈے اور ڈبل روٹی لیتے آئیے گا‘‘۔
اُسے کبھی دوپٹہ رنگوانے نہیں جانا
پڑتا‘
اُس کا کوئی سالا نہیں ہوتا لہذا اُس
کی موٹر سائیکل میں پٹرول ہمیشہ پورا رہتا ہے‘
اُسے کبھی روٹیاں لینے کے لیے تندور
کے چکر نہیں لگانے پڑتے‘
اُسے کبھی فکر نہیں ہوتی کہ کوئی اُس
کا چینل تبدیل کرکے ’’میرا سلطان‘‘ لگا دے گا‘
اُس کے ٹی وی کا ریموٹ کبھی اِدھر
اُدھر نہیں ہوتا‘
اسے کبھی پردوں سے میچ کرتی ہوئی بیڈ
شیٹ نہیں لینی پڑتی‘
اسے کبھی کہیں جانے سے پہلے اجازت
نہیں لینی پڑتی‘
اسے کبھی کپڑوں کی الماری میں سے اپنی
شرٹ نہیں ڈھونڈنی پڑتی‘
اسے کبھی بیڈ روم کے دروازے کا لاک
ٹھیک کروانے کی ضرورت پیش نہیں آتی‘
اسے کبھی دو جوتیاں نہیں خریدنی
پڑتیں‘
اسے کبھی بیوٹی پارلر کے باہر گھنٹوں
انتظار میں نہیں کھڑا ہونا پڑتا‘
اسے کبھی دیگچی کو ہینڈل نہیں لگوانے
جانا پڑتا‘
اسے کبھی کسی کو منانا نہیں پڑتا‘
اسے کبھی کسی کی منتیں نہیں کرنی
پڑتیں
اسے کبھی آٹے دال کے بھاؤ معلوم کرنے
کی ضرورت نہیں پیش آتی‘
اسے کبھی نہیں پتا چلتا کہ اس کا کون
سا رشتہ دار کمینہ ہے‘
اسے کبھی بہنوں بھائیوں سے ملنے میں
جھجک محسوس نہیں ہوتی‘
اسے کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں جوڑنے
پڑتے‘
اس کی کنگھی اور صابن پر کبھی لمبے
لمبے بال نہیں ملتے‘
اسے کبھی بدمزہ کھانے کو اچھا نہیں
کہنا پڑتا‘
اسے کبھی میٹھی نیند کے لیے ترسنا
نہیں پڑتا‘
اسے کبھی سردیوں کی سخت بارش میں
نہاری لینے نہیں نکلنا پڑتا‘
اسے کبھی پیمپرزنہیں خریدنے پڑتے
اسے کبھی صبح ساڑھے سات بجے اٹھ کر
کسی کو سکول چھوڑنے نہیں جاتا
اسے کبھی سستے آلو خریدنے کے لیے چار
کلومیٹر دور کا سفر طے نہیں کرنا پڑتا
اسے کبھی سبزی والے سے بحث نہیں کرنا
پڑتی‘
اسے کبھی فیڈر اور چوسنی نہیں خریدنی
پڑتی‘
اسے کبھی سالگرہ کی تاریخ یاد نہیں
رکھنی پڑتی‘
اسے کبھی پیٹی کھول کر رضائیوں کو
دھوپ نہیں لگوانی پڑتی‘
اسے کبھی دال ماش اور کالے ماش میں
فرق کرنے کی ضرورت نہیں پیش آتی‘
اسے کبھی نیل پالش ریموور نہیں خریدنا
پڑتا‘
اسے کبھی اپنی فیس بک کا پاس ورڈ کسی
کو بتانے کی ضرورت پیش نہیں آتی‘
اسے کبھی اچھی کوالٹی کے تولیے لانے
کی ٹینشن نہیں ہوتی‘
اسے کبھی کسی کے خراٹے نہیں سننے
پڑتے‘
اسے کبھی نیند کی گولیاں نہیں خریدنی
پڑتیں ‘
اسے کبھی سکول کی فیس ادا کرنے کا
کارڈ نہیں موصول ہوتا‘
اسے کبھی کرکٹ میچ کے دوران یہ سننے
کو نہیں ملتا کہ ’’آفریدی اتنے گول کیسے کرلیتا ہے؟‘‘ ۔۔۔
کسی سینئر کنوارے کا شعر ہے کہ۔۔۔!!!
’’ہم سے بیوی کے تقاضے
نہ نبھائے جاتےورنہ ہم کوبھی تمنا تھی کہ بیاہے جاتے
Comments
Post a Comment