Posts

Showing posts from January, 2017

The Mist (2007)

For the students of SBBU   Director:  Frank Darabont Cast:  Thomas Jane, Marcia Gay Harden, Toby Jones Situation normal: all fogged up A mysterious fog which swamps a small town, forcing the inhabitants to take shelter inthe local supermarket. . Director Frank Darabont made his first out-and-out horror movie  named THE MIST with this bleak, pointed adaptation of King’s novella about a mysterious fog which swamps a small town, forcing the inhabitants to take shelter in the local supermarket. It’s a ferociously modern drama, picking apart the political and social threads which just about held America together under the Bush administration. Religious dogma, political division and – finally and devastatingly – military intervention all go under Darabont’s shakeycam microscope, resulting in perhaps the most intelligent, compelling and heartbreaking horror movie of the century so far. Having tackled Stephen King twice already – in ‘ The Shawshank Redemption ’ and its infer

The Babadook (2014)

For students of SBBU Introduction to horror movies Horror cinema is a monster. Mistreated, misunderstood and subjected to vicious critical attacks, somehow it keeps lumbering forward, leaving a trail of destruction in its wake. Horror movies are focused purely on evoking a reaction – be it terror, disquiet or disgust – with little thought for 'higher' aspirations. For others, they're just a bit of fun: a chance to shriek and snigger at someone's second-hand nightmare. But look again, and the story of horror is also the story of innovation and non-conformity in cinema, a place where dangerous ideas can be expressed, radical techniques can be explored, and filmmakers outside the mainstream can still make a big cultural splash. If cinema itself has an unconscious, a dark little corner from which new ideas emerge, blinking and malformed, it must be horror. The question is – which are the best horror films?     The Babadook (2014) Director : Jennifer Kent

Plot_ an important part of everything from advertising and political campaigns to the realms of business and sports.

For the English dept of SBBU Definition of Plot The plot of a story consists of the events that occur during the course of that story and the way in which they are presented to the reader. The plot is also sometimes referred to as the storyline. Aristotle posited that plots must have a beginning, middle, and end, and that each event in the plot causes the next event to happen.   Storyline: ˈis the plot of a novel, play, film, or other narrative form. Every story we tell contains an element of plot. “I got sick yesterday afternoon” is a fact, not a story. However, “Mick Jagger and I had shellfish for lunch yesterday—I must have been allergic to one or the other—and so I got sick yesterday afternoon” is an intriguing story indeed. The listener is interested in the causal relationship between the lunch and why the narrator got sick. Plot is moved forward by the linking word or concept of “so.” Plot is an important part of everything from advertising and political campaigns

یہ اسیرانِ اُمت، یہ گمنام ہیرو

ایس احمد پیرزادہ ۶۵برس کی عمر کا محمد لطیف خان ضلع راجوری کے ایک دُور دراز علاقے کا رہنا والا شخص ہے۔ اس کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ ۱۰ کنال اراضی اور ایک مکان اُن کی ملکیت ہے۔  مال مویشیوں کو پہاڑوں پر گھاس چارا کھلا کر اپنی کمائی کا ذریعہ بناتے اور اس طرح گھر کی گزربسر کرتے آرہے تھے۔ محمد لطیف اپنے بچوں کی پڑھائی کے بارے میں لاپروا نہیں تھے ۔ اُن کا بڑا بیٹا لکھنؤ یونی ورسٹی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کررہا تھا۔ ایک بیٹا اور تین بیٹیاں گجرات کے دینی مدارس میں قرآن حفظ کررہے تھے۔ ۲۰۰۶ء میں اس گھر پر آزمایشوں کا سلسلہ اُس وقت شروع ہوگیا، جب محمد لطیف خان کے بڑے بیٹے محمد اسلم خان کو دہلی پولیس کے خصوصی سیل نے لکھنؤ سے گرفتار کرلیا۔ اُنھیں ’دہشت گردی‘ کے متعدد واقعات میں ملوث قرار دے کر تہاڑ جیل میں بند کردیا گیا۔ دہلی میں اُن کے مقدمے کی شنوائی کچھوے کی چال چلتی رہی، تاریخ پہ تاریخ اور یوں برسوں بیت گئے۔ محمد لطیف جس نے کبھی ریاست کشمیر سے باہر قدم نہیں رکھا تھا۔ انھیں اپنے بیٹے تک پہنچنے اور اُن کا مقدمہ لڑنے میں کافی سختیاں جھیلنا پڑیں۔ابھی وہ دلی میں اپنے بڑے بیٹے

یہ اسیرانِ اُمت، یہ گمنام ہیرو

ایس احمد پیرزادہ ۶۵برس کی عمر کا محمد لطیف خان ضلع راجوری کے ایک دُور دراز علاقے کا رہنا والا شخص ہے۔ اس کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ ۱۰ کنال اراضی اور ایک مکان اُن کی ملکیت ہے۔  مال مویشیوں کو پہاڑوں پر گھاس چارا کھلا کر اپنی کمائی کا ذریعہ بناتے اور اس طرح گھر کی گزربسر کرتے آرہے تھے۔ محمد لطیف اپنے بچوں کی پڑھائی کے بارے میں لاپروا نہیں تھے ۔ اُن کا بڑا بیٹا لکھنؤ یونی ورسٹی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کررہا تھا۔ ایک بیٹا اور تین بیٹیاں گجرات کے دینی مدارس میں قرآن حفظ کررہے تھے۔ ۲۰۰۶ء میں اس گھر پر آزمایشوں کا سلسلہ اُس وقت شروع ہوگیا، جب محمد لطیف خان کے بڑے بیٹے محمد اسلم خان کو دہلی پولیس کے خصوصی سیل نے لکھنؤ سے گرفتار کرلیا۔ اُنھیں ’دہشت گردی‘ کے متعدد واقعات میں ملوث قرار دے کر تہاڑ جیل میں بند کردیا گیا۔ دہلی میں اُن کے مقدمے کی شنوائی کچھوے کی چال چلتی رہی، تاریخ پہ تاریخ اور یوں برسوں بیت گئے۔ محمد لطیف جس نے کبھی ریاست کشمیر سے باہر قدم نہیں رکھا تھا۔ انھیں اپنے بیٹے تک پہنچنے اور اُن کا مقدمہ لڑنے میں کافی سختیاں جھیلنا پڑیں۔ابھی وہ دلی میں اپنے بڑے بیٹے

جنات کی حقیقت

سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ قُلْ اُوحِیَ اِلیَّ اَنَّہٗ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوْٓا اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًا o یَّھْدِیْٓ اِلَی الرُّشْدِ فَاٰمَنَّا بِہٖ ط وَلَنْ نُّشْرِکَ بِرَبِّنَآ اَحَدًا o (الجن۷۲ :۱-۲) اے نبیؐ ، کہو، میری طرف وحی بھیجی گئی ہے کہ   ِجنوں کے ایک گروہ نے غور سے سنا پھر (جاکر اپنی قوم کے لوگوں سے) کہا: ’’ہم نے ایک بڑا عجیب قرآن سنا ہے جو      راہِ راست کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ اس لیے ہم اُس پر ایمان لے آئے ہیں اور  اب ہم ہرگز اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے‘‘۔ سورۂ جِن کے متعلق جہاں تک مَیں تحقیق کرسکا ہوں یہ سورت غالباً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفرِطائف کے بعد نازل ہوئی ہے۔ حضوؐر کا سفرِ طائف سنہ ۱۰ نبویؐ میں ہوا تھا، یعنی ہجرت سے تین سال پہلے۔ سورئہ قٓ میں یہ آتا ہے کہ یہ پہلا موقع تھا کہ جنوں نے نبی کریمؐ کی زبان سے کلامِ مجید سنا۔ اہلِ طائف کے ظلم و ستم کے رویے کی وجہ سے جب حضوؐر واپس ہوئے تو راستے میں ایک مقام پر جہاں نخلستان تھا ٹھیرے تھے۔وہاں آپؐ رات کی نماز اور فجر کی نماز

مذہب کی تبدیلی کیوں؟

ڈاکٹر بی آر امبیدکر ۱۹۳۵ء میں مہاراشٹر (بھارت) کے ضلع ناسک میں خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر بی آر امبیدکر     نے اعلان کیا تھا کہ : ’’میں ہندو گھر میں پیدا ہوا ہوں، مگر ہندو کی حیثیت سے مرنا نہیں چاہتا‘‘۔     پھر ۳۱مئی ۱۹۳۶ء کو ممبئی میں مہار کانفرنس کا انعقاد کیا، جہاں انھوں نے اپنی ہم نسل دلت [شودر] برادری کے ہزاروں شرکا سے خطاب کرتے ہوئے، ہندو مذہب سے عملاً ب غاوت کا اعلان کیا۔ یہاں اس تقریر Why Go for Conversion? کا اُردو ترجمہ پیش ہے۔ اس خطبے میں ڈاکٹر امبیدکر نے شرفِ انسانی ک ے خلاف ہندو قوم پرستانہ رویوں کو بڑی خوبی سے بیان کیا ہے۔ گذشتہ دنوں صوبہ سندھ اسمبلی نے یہ قانون بنایا ہے کہ : ’’۱۸سال سے کم عمر ہندو مذہب تبدیل نہیں کرسکیں گے‘‘۔ مراد یہ ہے کہ صوبہ سندھ میں اگر کوئی ہندو اپنا مذہب چھوڑنا چاہے تو ، اس کے بچے یا پھر کوئی جواں عمر مذکورہ سن و سال تک پہنچنے سے پہلے مذہب تبدیل نہ کرسکے گا۔ اس متنازعہ اور بے جواز فیصلے کے پس منظر میں یہ مضمون پڑھنا مفید ہوگا۔ (س    م    خ)  تبدیلیِ مذہب کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے اور نہ یہ تفریح طبع کا موضوع ہے۔ میرے نزدیک تبدیلیِ مذہب کا