جنات کی حقیقت


سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

قُلْ اُوحِیَ اِلیَّ اَنَّہٗ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوْٓا اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًا o یَّھْدِیْٓ اِلَی الرُّشْدِ فَاٰمَنَّا بِہٖ ط وَلَنْ نُّشْرِکَ
بِرَبِّنَآ اَحَدًا o (الجن۷۲ :۱-۲) اے نبیؐ ، کہو، میری طرف وحی بھیجی گئی ہے کہ   ِجنوں کے ایک گروہ نے غور سے سنا پھر (جاکر اپنی قوم کے لوگوں سے) کہا: ’’ہم نے ایک بڑا عجیب قرآن سنا ہے جو      راہِ راست کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ اس لیے ہم اُس پر ایمان لے آئے ہیں اور  اب ہم ہرگز اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے‘‘۔
سورۂ جِن کے متعلق جہاں تک مَیں تحقیق کرسکا ہوں یہ سورت غالباً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفرِطائف کے بعد نازل ہوئی ہے۔ حضوؐر کا سفرِ طائف سنہ ۱۰ نبویؐ میں ہوا تھا، یعنی ہجرت سے تین سال پہلے۔ سورئہ قٓ میں یہ آتا ہے کہ یہ پہلا موقع تھا کہ جنوں نے نبی کریمؐ کی زبان سے کلامِ مجید سنا۔ اہلِ طائف کے ظلم و ستم کے رویے کی وجہ سے جب حضوؐر واپس ہوئے تو راستے میں ایک مقام پر جہاں نخلستان تھا ٹھیرے تھے۔وہاں آپؐ رات کی نماز اور فجر کی نماز میں تلاوتِ قرآن فرما رہے تھے تو جنوں کا ایک گروہ وہاں سے گزرا اور آپؐ کی آواز سن کر وہ ٹھیرا اور غور سے قرآنِ مجید کو سنتا رہا۔ تفاسیر اور احادیث کی کتب سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ طائف کے سفر سے واپسی کے موقع پر پیش آیا تھا۔ انھی کتابوں میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے اور اس قصے میں ایک روایت یہ بھی ملتی ہے کہ جنوں نے حضوؐر سے قرآنِ مجید سنا۔ بعد میں یہ واقعات بہ کثرت احادیث میں ملتے ہیں لیکن سفرِطائف سے پہلے کوئی روایت نہیں ملتی۔ اس لیے غالباً یہ سورہ سفرِطائف کے بعد نازل ہوئی ہے۔
یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس طرح معلوم ہوئی؟ اس سفر میں آپؐ نے جنوں کو نہیں دیکھا نہ آپ کو یہ محسوس ہوا کہ جن سن رہے ہیں۔ بعد میں بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جِن انسانی شکل میں بھی حضوؐر کے پاس آئے تھے۔ لیکن اس موقعے پر آپ نے جنوں کو نہیں دیکھا تھا بلکہ وحی کے ذریعے آپ کو اطلاع دی گئی
تھی کہ جنوں نے آپؐ کی زبان سے قرآنِ مجید سنا ہے۔
اس چیز کو بیان کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ اہلِ عرب جنوں کے بہت زیادہ معتقد تھے۔ وہ جنوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ ان کے نزدیک زمین کا ہرخطہ جنوں سے بسا ہوا تھا۔ ایک ایک خطے کا مالک گویا ایک جن تھا
۔ سفر میں اگر کہیں جاتے تھے اور جس وادی میں ٹھیرتے تھے اور اگر وہاں رات گزارنی ہو تو وہ کہتے تھے کہ اعوذ بہ رب ھذا الوادی،میں پناہ مانگتا ہوں اس وادی کے مالک کی۔ یعنی ان کے نزدیک ہروادی کا مالک کوئی جن ہوتا ہے اور اس کی پناہ مانگا کرتے تھے۔ ان کا یہ خیال تھا کہ بیماری اور تندرستی اور بہت سی مصیبتیں جنوں کی وجہ سے حاوی ہوتی ہیں۔ ان کے خیال میں جن ہی ایمان کی خبریں پہنچاتے تھے، حتیٰ کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ اگر کوئی شاعر اعلیٰ درجے کا کلام کہتا ہے تو گویا کہ اس کے قبضے میں ایک جِن ہے جو اس کو آکر یہ کلام سناتا ہے۔ اگر کوئی شاعر اعلیٰ درجے کا شاعر ہے اور بہترین کلام کہتا ہے اور اس کے بعد ایک مدت تک وہ شعر نہیں کہہ سکا، یا اس نے کوئی ایسا شعر کہہ دیا جو اس کے مرتبے سے گرا ہوا ہوتا تو کہتے تھے کہ اس کا جِن فرار ہوگیا ہے۔ اس نے اپنا جِن چھوڑ دیا ہے جس کی وجہ سے اس پر شعر کا نزول نہیں ہوتا ہے، یا اس کی شعر کہنے کی قابلیت اس سے نکل گئی ہے۔ یہ ان کے تصورات تھے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مبعوث ہوئے اور آپؐ نے اپنے آپ کو اللہ کے آخری نبی کی حیثیت سے پیش کیا اور قرآنِ مجید سنانا شروع کیا تو قرآنِ مجید کی بہترین بلاغت و فصاحت اور  اس کے اعلیٰ درجے کے مضامین کو سن کر قریش کے بہت سے لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ یہ بھی  جِن القا کرتے ہیں۔ وہ جنوں کو خدا کی اولاد قرار دیتے تھے۔ اس لیے حضوؐر کے بارے میں ان کا یہ کہنا تھا کہ اگر یہ ہمارے خدائوں کی اسی طرح توہین کرتے رہے تو ہمارے دیوتا اور معبود اِن کا  تختہ اُلٹ دیں گے ۔ ان کی یہ بات کہ قرآنِ مجید کو جِن القا کرتے ہیں اگرچہ اس بات کی تردید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھل کر کرتے تھے، تاہم ایک طرف وہ جنوں کو خدائی میں شریک قرار دے رہے تھے اور انھیں خدا کی اولاد بھی قرار دیتے تھے ، اور دوسری طرف وہ شرک کی بھرپور تردید رسولؐ اللہ کی زبان سے سنتے تھے۔ اس پر ان کے معقول آدمی یہ کہتے تھے کہ اگر یہ کلام جِن لاتے ہیں تو وہ اپنی ہی تردید کیسے کرسکتے ہیں؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ جِن اپنے ہی خلاف تردید کرنا شروع کردیں؟ تاہم، عام لوگوں کے لیے یہ بہت بڑا دھوکا اور فریب تھا کہ جِن یہ کلام لے کر آتے ہیں۔
اس وجہ سے یہ کہا گیا ہے کہ وہ جِن جن کے متعلق تم سمجھتے ہو کہ قرآن بھی نازل کرتے ہیں، یہ جِن اس قرآن کو سن کر خود اس پر ایمان لے آئے۔ پھر آگے چل کر ان جنوں کے بارے میں بیان کیا گیا ہے کہ انھوں نے آپس میں کیا گفتگو کی۔ اس سے خود بخود اس بات کی تردید ہوگئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جِن قرآن لے کر آتے ہیں۔ جِن خود اس کلام کو کیسے نازل کرسکتے ہیں، جب کہ وہ اس پر ایمان لائے ہیں۔ پھر انھوں نے اس بات کا اقرار بھی کیا کہ ہم اس کے منکر نہیں ہیں اور ہم آخرت پر ایمان لے آئے ہیں۔
یہ ساری چیزیں اس وجہ سے سنائی گئی ہیں کہ کفارِ مکہ کے اس غلط عقیدے کی تردید ہوجائے اور انھیں یہ معلوم ہوجائے کہ جِن بھی اسی طرح سے مخلوق ہیں جیسے انسان ہیں۔ ان کے اندر بھی کافر اور مومن ہیں۔ ان کے اندر بھی راہِ راست پر چلنے والے اور گمراہ جِن ہیں اور یہ بھی اسی طرح سے قرآنِ مجید کے مخاطب ہیں جس طرح انسان ہیں اور قرآنِ مجید سن کر جس طرح انسان ایمان لائے ہیں اسی طرح سے بعض جِن بھی ایمان لاتے ہیں۔
اس لیے فرمایا گیا کہ:
قُلْ اُوحِیَ اِلَیَّ اَنَّہٗ اسْتَمَعَ سننا ہے۔ ایک سننا ہوتا ہے اور ایک غور سے سننا، یا کان لگا کر سننا، یا یہ کہ سن گن لینا۔ اس کے لیے سمعنا کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ فرمایا جا رہا ہے کہ جنوںمیں سے ایک گروہ نے قرآنِ مجید کو کان
نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ (۷۲:۱) اے نبیؐ، ان لوگوں کو خبر دو کہ مجھے وحی کے ذریعے اطلاع دی گئی ہے کہ جنوں میں سے ایک گروہ نے اس قرآن کو کان لگا کر سنا۔
سمعنا کے معنی توجہ سے
لگا کر سنا اور پھر اپنے گروہ میں واپس جاکر انھیں یہ خبر دی کہ اِنَّاسَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًا، ہم ایک عجیب چیز سن کر آئے ہیں جو تم نہیں جانتے۔ یَّھْدِیْٓ اِلَی الرُّشْدِ، یہ ایسی چیز ہے جو راہِ راست کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ فَاٰمَنَّا بِہٖ ،اور ہم اس پر ایمان لے آئے۔ وَلَنْ نُّشْرِکَ بِرَبِّنَآ اَحَدًا،اور اب ہم اپنے رب کے ساتھ ہرگز کسی کو شریک نہیں کریں گے۔
’قرآن‘ کا لفظ یہاں پڑھی جانے والی کتاب کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ یہاں  قرآنِ مجید کے معنی کے لحاظ سے یہ لفظ استعمال نہیں ہوا بلکہ ایک ایسی چیز مراد ہے جو پڑھی جارہی ہو۔
معلوم ہوا کہ انسان تو جنوں کو خدا کی اولاد بنا رہے تھے لیکن جِن خود کسی اور کو خدا بنارہے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور مخلوق کو شریک نہ کرنا، اس سے خودبخود کفار اور تمام مشرکین مکہ کے عقیدۂ شرک کی تردید ہوگئی کہ جن کو تم معبود اور خدا کی خدائی میں شریک اور خدا کی اولاد قرار دے رہے تھے وہ خود کسی دوسری ہستی کو خدا بنائے بیٹھے ہیں اور اس پر ایمان لاچکے ہیں۔
وَّاَنَّہٗ تَعٰلٰی جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَۃً وَّلاَ وَلَدًاo  (۷۲:۳) اور یہ کہ ’’ہمارے رب کی شان بہت اعلیٰ و ارفع ہے، اُس نے کسی کو بیوی یا بیٹا نہیں بنایا ہے‘‘۔
یہاں پھر کفارِ مکہ کے اس عقیدے کی تردید آگئی کہ جِن خود اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نہ کوئی بیوی ہے اور نہ کوئی اولاد۔ تم ان کا نسب خدا سے ملاتے ہو، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔
وَّاَنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ سَفِیْہُنَا عَلَی اللّٰہِ شَطَطًاo  (۷۲:۴)
اور یہ کہ ’’ہمارے نادان لوگ اللہ کے بارے میں بہت خلافِ حق باتیں کہتے رہے ہیں‘‘۔
سَفِیْہُنَاکا لفظ اگر واحد کے طور پر آئے تو اس کا مطلب شیطان ہے۔ اگر یہ لفظ اسمِ جنس کے طور پر استعمال کیا گیا ہے تو اس کا مطلب ہوگا کہ ہم میں سے جو جو بھی بے وقوف، احمق اور نادان ہے، اور جو اللہ تعالیٰ کی طرف غلط باتوں کو منسوب کرتا ہے اور خلافِ حق بات کرتا ہے۔ یہ دونوں ہی باتیں صحیح ہیں۔ اس لیے کہ جنوں کا وہ گروہ جو انھیں گمراہ کرتا ہے یا ابلیس جس نے انسانوں کو گمراہ کیا اور اس نے جنوں کو بھی گمراہ کیا ہے۔ وہ اللہ کی طرف غلط باتیں منسوب کرتا ہے،  ہم اس سے پناہ مانگتے ہیں۔
وَّاَنَّا ظَنَنَّآ اَنْ لَّنْ تَقُوْلَ الْاِنْسُ وَالْجِنُ عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا o  (۷۲:۵)اور یہ کہ ’’ہم نے سمجھا تھا کہ انسان اور جِن کبھی خدا کے بارے میں جھوٹ نہیں بول سکتے‘‘۔

یعنی ایمان لانے کے واقعے سے پہلے جن گمراہیوں میں جِن مبتلا تھے اس کی توجیہہ وہ یہ کرتے ہیں کہ اب تک جن غلط فہمیوں میں جِن مبتلا ہوئے یا گمراہیوں میں پھنسے ہمارا یہ گمان تھا کہ انسان اور جِن اتنی جرأت نہیں کرسکتے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں غلط بات بیان کریں اور منسوب کریں۔ ہم نے یہ خیال کیا کہ ہمارا رب جواتنی بلند تر ہستی ہے، اور جس کی اتنی بلندشان ہے، اور اتنی زبردست اس کی سلطنت ہے اگر کوئی انسان یا جِن اس کی طرف غلط بات منسوب کرے یا جھوٹ بولے گا تو اللہ تعالیٰ کی مار اس پر پڑے گی اور اس کو عذاب ہوگا۔ اس وجہ سے ہم نے یہ خیال کیا کہ اگر یہ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں اور پھر ان کی گرفت نہیں ہوتی تو ضرور یہ باتیں سچ ہوں گی۔ اس غلط فہمی میں آکر ہم نے یہ غلط باتیں مان لیں۔ اب ان کا یہ کہنا تھا کہ  قرآنِ مجید کو سن کر ہماری یہ غلط فہمیاں رفع ہوگئیں، اور یہ پتا چل گیا کہ یہ کس قسم کی غلط فہمیاں ہیں۔ اس لیے ہم اس قرآن پر ایمان لے آئے ورنہ پہلے ہم اس غلط فہمی میں پڑے ہوئے تھے یا ہمارا یہ خیال تھا کہ انسان اور جِن یہ جرأت نہیں کرسکتے کہ خدا کی طرف غلط باتوں کو منسوب کریں۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان کے ایک قول پر اضافہ کرتا ہے۔ یہ گویا جملۂ معترضہ ہے جو ان کے کلام کے بیچ میں آگیا ہے۔
وَاَنَّہٗ کَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاِنْسِ یَعُوْذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوْھُمْ رَہَقًا o وَّاَنَّھُمْ ظَنُّوْا کَمَا ظَنَنْتُمْ اَنْ لَّنْ یَّبْعَثَ اللّٰہُ
اَحَدًاo  (۷۲:۶-۷) اور یہ کہ ’’انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں میں سے کچھ لوگو ں کی پناہ مانگا کرتے تھے، اِس طرح انھوں نے جنوں کا غرور اور زیادہ بڑھا دیا‘‘۔ اور یہ کہ ’’انسانوں نے بھی وہی گمان کیا جیسا تمھارا گمان تھا کہ اللہ کسی کو مرنے کے بعد دوبارہ نہ اُٹھائے گا‘‘۔
اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے اس بات کو ادا کیا جا رہا ہے کہ میری طرف  یہ بات وحی کی گئی ہے کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ کچھ جنوں کی پناہ لیا کرتے تھے جس وجہ سے جنوں کا تکبر کچھ اور بڑھ گیا، اور انھوں نے بھی یہ سمجھا اور جیساکہ تم لوگ سمجھتے ہو کہ اللہ تعالیٰ مرنے والے کو کبھی دوبارہ زندہ کرکے نہیں اُٹھائے گا۔
یہاں قرآنِ مجید نے جنوں کی غلط فہمی اور گمراہی کی ایک وجہ بیان کی ہے۔ ایک وجہ تو جنوں نے اپنی گمراہی کی یہ بیان کی ہے کہ ہم یہ سمجھتے تھے کہ جِن اور انسان اتنی بڑی جسارت نہیں کرسکتے کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں غلط بات منسوب کریں۔ یہاں اللہ تعالیٰ جنوں کی گمراہی کی ایک اور وجہ مزید بیان کرتا ہے کہ انسان جنوں کی پناہ لیا کرتے تھے۔ اس وجہ سے جنوں کا تکبر اور بڑھ گیا، یعنی جنوں کا دماغ اور خراب ہوگیا۔ انھوں نے یہ سمجھا کہ ہم تو ایسی بڑی ہستی ہیں کہ وہ انسان جو زمین پر خلیفہ بنائے گئے تھے وہ ہماری پناہ مانگنے لگے ہیں۔ اس وجہ سے ان کی سرکشی بھی بڑھی اور ان کے دماغ بھی خراب ہونے لگے۔
اس جگہ ایک اور بات کو بھی نگاہ میں رکھیے۔
ہمارے ہاں ایک مدت سے یہ کہا جاتا ہے کہ جِن کوئی الگ مخلوق نہیں ہیں بلکہ انسان ہی جِن ہیں۔ انسانوں میں سے جو لوگ پہاڑوں، صحرائوں اور غاروں میں رہنے والے ہیں، ان کا نام جِن ہے۔ پچھلی صدی کے آخر سے یہ خیال پیش کیا گیا تھا اور اب تک اسے مسلسل لکھا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے اور اب یہ ایک تھیوری بنادی گئی ہے کہ پہاڑی، صحرائی اور دیہاتی مخلوق جِن تھی۔ یہاں صاف طور پر قرآن جِن اور انسان کو دو الگ مخلوق کہہ رہا ہے، اور یہ بھی کہہ رہا ہے کہ انسانوں نے جنوں کی پناہ مانگنا شروع کردی جس کی وجہ سے ان کا دماغ خراب ہوگیا اور وہ سمجھنے لگے کہ ہمارا بھی کوئی مقام ہے اور ہم کوئی بڑی ہستی ہیں۔ اب کوئی ان احمقوں سے پوچھے جو یہ باتیں کرتے ہیں کہ کب انسانوں نے دیہاتی اور کوہستانی لوگوں سے پناہ مانگی ہے اور کب ان کی عبادت کی ہے۔ کب انھیں خدائی میں شریک قرار دیا ہے۔ اس پوری سورت کو دیکھ لیجیے۔ جنوں کے متعلق قرآنِ مجید جو چیزیں بیان کر رہا ہے وہ کسی بھی طرح سے انسانوں پر چسپاں نہیں ہوتی ہیں بلکہ ایک ایسی مخلوق پر چسپاں ہوتی ہیں جو انسانوں سے بالکل الگ ہے اور جس کے متعلق انسانوں کے اندر عجیب عجیب تصورات اور عقائد پائے جاتے ہیں۔
وَّاَنَّھُمْ ظَنُّوْا کَمَا ظَنَنْتُمْ اَنْ لَّنْ یَّبْعَثَ اللّٰہُ اَحَدًاo  (۷۲:۷) اور یہ کہ ’’انسانوں نے بھی وہی گمان کیا جیسا تمھارا گمان تھا کہ اللہ کسی کو مرنے کے بعد دوبار
ہ نہ اُٹھائے گا‘‘۔
یہاں ’تم‘ کا خطاب کفارِ مکہ اور تمام انسانوں اور جنوں کی طرف ہے کہ تم نے جس طرح سے یہ خیال کیا کہ اللہ تعالیٰ کبھی مُردوں کو زندہ کرکے نہیں اُٹھائے گا، اسی طرح سے جِن بھی یہ سمجھتے تھے کہ مرنے کے بعد نہیں اُٹھنا ہے۔
اس سے پہلے بارہا میں نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ انسان کی گمراہی کی بنیادی وجوہ میں سے، بلکہ بہت بڑی وجوہ میں سے ایک وجہ یہ ہے۔ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ مرنے کے بعد دوبارہ نہیں اُٹھنا ہے اور اپنے خدا کو کوئی جواب نہیں
دینا ہے، تو وہ اور دنیادار ہوجاتا ہے اور اس کے نزدیک ہدایت اور ضلالت کے درمیان کوئی خاص فرق باقی نہیں رہتا۔ ہدایت اور ضلالت دونوں کا عقیدہ ہو کہ مرکر مٹی نہیں ہونا ہے تو کوئی نتیجہ نکلتا ہے۔ اس کے بغیر کوئی نتیجہ نکلنا ممکن نہیں ہے۔   اس لیے آدمی اس معاملے میں serious ہی نہیں رہتا کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے۔ چونکہ     وہ منکرین آخرت تھے اس لیے انکارِ آخرت نے انھیں بنیادی طور پر گمراہی میں ڈال دیا تھا۔ یہ اس بات سے بے پروا ہوگئے تھے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے۔ اس وجہ سے غیرذمہ دارانہ طریقے سے انھوں نے غیرذمہ دارانہ اور بے بنیاد عقیدے گھڑ لیے تھے۔ وہ جس طرح اپنے متعلق یہ سمجھ رہے تھے کہ ہم یہ کچھ ہیں، اسی طرح وہ حقیقت کے متعلق بھی یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ وہ یہ کچھ ہے۔
وَّاَنَّھُمْ ظَنُّوْا کَمَا ظَنَنْتُمْ اَنْ لَّنْ یَّبْعَثَ اللّٰہُ اَحَدًاo  (۷۲:۷)، اس فقرے کے  دو معنی ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ’’اللہ کسی کو مرنے کے ب
عد دوبارہ نہ اُٹھائے گا‘‘۔ دوسرے یہ کہ ’’انسانوں نے بھی وہی گمان کیا جیسا تمھارا گمان تھا کہ اللہ کسی کو رسول بناکر نہ بھیجے گا‘‘۔ چونکہ الفاظ جامع ہیں اس لیے ان کا یہ مطلب لیا جاسکتا ہے کہ انسانوں کی طرح جنوں میں بھی رسالت اور آخرت دونوں کا انکار پایا جاتا تھا۔ آگے کے مضمون کی مناسبت سے بعد والا مضمون زیادہ قابلِ ترجیح ہے۔ اسی لیے آسمان پر سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے۔ اس کے بعد پھر جنوں کا کلام شروع ہوتا ہے۔ یہ چونکہ جملۂ معترضہ تھا اس لیے اس کی وضاحت کی گئی ہے۔
وَّاَنَّا لَمَسْنَا السَّمَآئَ فَوَجَدْنٰھَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِیْدًا وَّشُہُبًاo  (۷۲:۸) اور یہ کہ ’’ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو دیکھا کہ وہ پہرے داروں سے پٹاپڑا ہے اور شہابوں کی بارش ہورہی ہے
‘‘۔
اب وہ یہ بتا رہے ہیں کہ جنوں میں یہ جستجو کیوں پیدا ہوئی تھی اور کیا واقعہ پیش آیا ہے جس کی وجہ سے ہم تلاش میں نکلے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم جب عالمِ بالا کی طرف گئے اور وہاں ہم نے سن گن لینے اور حالات معلوم کرنے کی کوشش کی تو ہم نے دیکھا کہ عالمِ بالا تمام طرف سے نگرانی میں ہے۔ بہت زبردست پہرے دار لگے ہوئے ہیں جو اس کی حفاظت کر رہے ہیں اور کسی کو بھی آگے نہیں جانے دے رہے کہ کوئی سن گن ہی لے لے، اور بے تحاشا شہاب ثاقب ہیں جن کی بارش ہورہی ہے تاکہ کوئی چیز اُوپر نہ جاسکے۔
وَّاَنَّا کُنَّا نَقْعُدُ مِنْھَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ ط فَمَنْ یَّسْتَمِعِ الْاٰنَ یَجِدْ لَہٗ شِھَابًا رَّصَدًاo  (۷۲:۹) اور یہ کہ ’’پہلے ہم سن گن لینے کے لیے آسمان میں بیٹھنے کی جگہ پالیتے تھے ، مگر اب جو چوری چھپے سننے کی کوشش کرتا ہے وہ اپنے لیے گھات میں ایک شہابِ ثاقب لگا ہوا پاتا ہے‘‘۔
ہم عالمِ بالا میں سن گن لینے کے لیے پہلے گھات لگایا کرتے تھے اور کہیں چھپ چھپا کر عالمِ بالا کی خبریں لایا کرتے تھے ، مگر اب حالت یہ ہے کہ جو کوئی بھی اس کی کوشش کرتا ہے تو ایک شہابِ ثاقب اس کی گھات میں لگا ہوتا ہے تاکہ اسے ماربھگائے۔
وَّاَنَّا لَا نَدْرِیْٓ اَشَرٌّ اُرِیْدَ بِمَنْ فِی الْاَرْضِ اَمْ اَرَادَ بِھِمْ رَبُّھُمْ
رَشَدًاo (۷۲:۱۰)اور یہ کہ ’’ہماری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ آیا زمین والوں کے ساتھ کوئی بُرا معاملہ کرنے کا ارادہ کیاگیا ہے یا اُن کا رب انھیں راہِ راست دکھانا چاہتا ہے‘‘۔
یہ چیز تھی جس کی وجہ سے جِن تلاش میں نکلے تھے۔ وہ اس تحقیق میں نکلے تھے کہ کیا واقعہ پیش آیا ہے۔
یعنی وہ یہ بتا رہے ہیں کہ پہلے
ہمارا قاعدہ یہ تھا کہ ہم عالم بالا میں جاتے تھے وہاں پر   سُن گن لینے کی کوشش کرتے تھے۔ پھر جب کوئی خبریں ہمارے ہاتھ لگتی تھیں تو ہم اپنے اولیا کو سنایا کرتے تھے اور پھر وہ ان سے اپنی فال گیری کا ڈھونگ رچاتے تھے، خبریں دیتے تھے اور سفلی اعمال کرنے والوں کو خبریں دیتے تھے۔ لیکن اب ہر طرف زبردست پہرے لگے ہوئے تھے اور کوئی کسی بھی قسم کی سُن گن لینے نہیں دے رہا تھا۔ اسی وجہ سے اب ہمیں پریشانی ہوئی کہ کیا واقعہ ہونے والا ہے؟ یہ زبردست تیاریاں آخر کس چیز کی ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ پہلے اس طرح کا کوئی موقع نہ تھا کہ ہمیں مار مار کر بھگا دیا جاتا بلکہ اب قریب بھی پھٹکنے نہیں دیا جا رہا ہے؟ ہمیں یہ فکر ہوئی کہ زمین پر کوئی بڑی آفت آنے والی ہے یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لیے کسی بھلائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس وجہ سے وہ یہ جاننے کے لیے نکلے کہ زمین میں کیا بڑا واقعہ پیش آنے والا ہے۔ جب وہ وہاں سے گزر رہے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآنِ مجید پڑھ رہے تھے اور قرآنِ مجید کو سن کر انھیں یہ معلوم ہوا کہ یہ کس قسم کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔
آگے چل کر بھی اس بات کی تائید کی گئی ہے اور اس مقام پر بھی
اللہ تعالیٰ نے یہ بات لوگوں کو سمجھائی ہے کہ اس قرآن کے متعلق تم یہ گمان کرتے ہو کہ شیاطین اس کو القا کرتے ہیں اور شیاطین کا اس میں دخل ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ شیاطین کو اس کے قریب پھٹکنے تک کی اجازت نہیں ہے۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے نبی ؑ تک اپنا کلام بھیجنے کا آغاز کرتا ہے تو اتنے سخت انتظامات کیے جاتے ہیں کہ وہ اس کے قریب تک نہیں پھٹک سکتے۔ انھیں مار مار کر بھگا دیا جاتا ہے تاکہ ان کے  کان میں بھی یہ آواز نہ پڑنے پائے کہ رسولؐ کی طرف کیا خبر بھیجی جارہی ہے۔ اگر وہ اس کو ذرہ برابر بھی سن لیں تو پہلے سے جاکر لوگوں کو خبردار کردیں کہ اب یہ آیت اُترنے والی ہے، اب یہ خبر تمھیں سنائی جانے والی ہے۔ اس طرح کی شرارت وہ تب کرتے جب اس کے لیے اتنے زبردست انتظامات نہ کیے جاتے۔
اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی نبی ؑ کو مقرر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اور نبی ؑ کے درمیان پیغام پہنچانے کے لیے اتنے زبردست انتظامات کیے جاتے ہیں کہ کسی قسم کی کہیں کوئی  خلل اندازی نہیں ہوسکتی۔
اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنا کلام بھیجا ہے تاکہ یہ اپنی صحیح
جگہ پر جائے۔ نہ کسی کو یہ پتا چلنے پائے کہ نبی کو کیا خبر آنے والی ہے، نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ کون وحی لارہا ہے، اور نہ کوئی اس میں کسی قسم کی دراندازی کرسکے اور کوئی لفظ بڑھا سکے یا گھٹا سکے یا کسی مضمون کا اضافہ یا کمی کرسکے۔    اس طرح اللہ تعالیٰ نہایت محفوظ طریقے سے نبی تک اپنا کلام پہنچاتا ہے۔
وَّاَنَّا مِنَّا الصّٰلِحُوْنَ وَمِنَّا دُوْنَ ذٰلِکَ ط کُنَّا طَرَآئِقَ قِدَدًاo   (۷۲:۱۱) اور یہ کہ ’’ہم میں سے کچھ لوگ صالح ہیں اور کچھ اس سے فروتر ہیں، ہم مختلف طریقوں میں بٹے ہوئے ہیں‘‘۔

یہاں جنوں کی زبان سے یہ حقیقت لوگوں کو بتائی جارہی ہے کہ سارے کے سارے جِن باکمال ، اولیا یا نیک ہستیاں نہیں ہیں، بلکہ جن بھی اسی طرح سے مخلوق ہیں جیساکہ انسان ہیں۔ ان میں بھلے بھی ہیں اور بُرے بھی، نیک بھی ہیں اور بد بھی،ایمان
دار بھی ہیں اور بے ایمان بھی۔ ہرطرح کی مخلوق ہے۔ جِن یہ خود بتا رہے ہیں کہ ہم میں سے کچھ صالح تھے اور کچھ بُرے تھے۔ اس طرح سے ہم مختلف طریقوں میں بٹے ہوئے تھے۔
وَّاَنَّا ظَنَنَّآ اَنْ لَّنْ نُعْجِزَ اللّٰہَ فِی الْاَرْضِ وَلَنْ نُّعْجِزَہٗ ہَرَبًاo 
(۷۲:۱۲) اور یہ کہ ’’ہم سمجھتے تھے کہ نہ زمین میں ہم اللہ کو عاجز کرسکتے ہیں اور نہ بھاگ کر اسے ہرا سکتے ہیں‘‘۔
مطلب یہ ہے کہ ہمارے اسی خیال نے ہمیں نجات کی راہ دکھا
دی۔ ہم چونکہ اللہ سے  بے خوف نہ تھے اور ہمیں یقین تھا کہ اگر ہم نے اس کی نافرمانی کی تو اس کی گرفت سے کسی طرح بچ نہ سکیں گے، اس لیے جب وہ کلام ہم نے سنا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے راہِ راست بتانے آیا تھا تو ہم یہ جرأت نہ کرسکے کہ حق معلوم ہوجانے کے بعد بھی انھی عقائد پر جمے رہتے جو ہمارے نادان لوگوں نے ہم میں پھیلا رکھے تھے۔ (ریکارڈنگ: حفیظ الرحمٰن احسن، تدوین: ارشاد  الرحمٰن ، امجد عباسی)
 



Comments