Copying from one as well can be research By Prof Dr Sohail Ansari & Adversary Method.


Death is the easiest of all things after it, and the hardest of all things before it. Abu Bakr Siddique یہ نظم پڑھیے تو خوب صورت لگے اور سوچیے تو کڑوی لگے
Work of an author is plagiarism
·         If you steal from one author and get it published before the author does so it is your research and the work of an author will be plagiarism

 

·         If you steal from one author it's plagiarism; if you steal from many it's research. Wilson Mizner

·         If you copy from one author, it's plagiarism. If you copy from two, it's research. Wilson Mizner

 It may be that the Adversary Method is only part of the larger paradigm that distinguishes reason from emotion, and segregates philosophy from literature, aligning it with science (dichotomies that Martha Nussbaum [Philosophy and Literature 1, 1978] attributes to Plato). Believing that emotions ought not to affect reasoning, it may seem to follow that who one addresses and why, ought not to affect the reasoning either. I consciously employ the kinship philosophy claims with science in this paper, arguing that truths we have learned about scientific reasoning ought to hold for philosophic reasoning as well. Perhaps this is why Emerson, Carlyle and others are discussed only as part of English literature, and their views are not studied much by philosophers. They are not addressing adversaries, but merely presenting a system of ideas. I don’t mean to single out Robinson for what seems to be the usual interpretation of Socrates. Robinson, at least thought irony and insincerity objectionable. The term “irony” covers a variety of styles including feigned ignorance to upset an opponent, vicious sarcasm and good natured teasing. It is only the latter that would be justifiably attributed to Socrates from the evidence in the dialogues. 11 See Euthydemus 227d, 288d, 295d, where Socrates’ method is contrasted with Euthydemus’ jeering and belligerent style, and Meno 75c–d where Socrates contrasts the present friendly conversation with that of a disputatious and quarrelsome kind. Socrates disapproved of ridicule. Socrates teases Polus to get him to change his style and responds to Callicles’ insults with praise to get him to agree to a dialogue. Socrates flirts with Meno when he resists questioning (Meno, 76b–c) and draws out Lysis by getting him to laugh at his questions (Lysis, 207c and ff.). 13 Euthydemus 288b, 259d, 277d.
 “Now it is becoming clear why I thought that thinking and language were the same. For thinking is a kind of language.” Many people disagree with the universal beneficence and supremacy of moral considerations advocated by current ethical theories and think that they, and many others, by putting their own interests first, are thereby egoists. But their limited beneficence, which Hume thought was the foundation of morality, is very different from the egoism headlined by philosophers. A philosopher’s egoist has no moral beliefs and not only thinks “me first” but does not care who comes second, third, or last. A philosopher’s egoist has no loyalties to ideals or people and is quite indifferent about the survival and well being of any particular individual or thing. See John Rawls, A Theory of Justice (Cambridge, MA: Belknap Press, 1971), p. 191, where he says: “Nothing would have been gained by attributing benevolence to the parties in the original position” rather than egoism because there would be some disagreements even with benevolence. But surely the reasoning needed for people who care about others will be different than for people who do not care about others at all.

یادداشت

کتابیں جھانکتی ہیں

شاکر احمد فاضل


معروف ڈراما نویس
اور گیت نگار گلزار (پ: ۱۹۳۴ء، دینہ) کی یہ نظم پڑھیے تو خوب صورت لگے اور سوچیے تو کڑوی لگے۔ اس میں کڑوی سچائیوں کو بڑی خوب صورتی سے بیان کیا گیا ہے۔    یہ نظم حوالۂ قرطاس ہے ، تا کہ قاری اس نظم کو نہ صرف پڑھے بلکہ محسوس بھی کر سکے:
کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے ،
بڑی حسرت سے تکتی ہیں ،
مہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیں
جو شامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیں،
اب اکثر، گزر جاتی ہیں کمپیوٹر کے پردوں پر
بڑی بے چین رہتی ہیں کتابیں
انھیں اب نیند میں چلنے کی عادت ہو گئی ہے ۔
جو قدر یں وہ سناتی تھیں
کہ جن کے سیل کبھی مرتے نہیں تھے
وہ قدریں اب نظر آتی نہیں گھر میں
جو رشتے وہ بناتی تھیں
وہ سارے اُدھڑے اُدھڑے ہیں ۔
کوئی صفحہ پلٹتا ہوں تو اک سسکی نکلتی ہے
کئی لفظوں کے معنی گر پڑے ہیں
بنا پتوں کے سوکھے ٹُنڈ لگتے ہیں وہ سب الفاظ ،
جن پر اب کوئی معنی نہیں اُگتے ۔
بہت سی اصطلاحیں ہیں ،
جو مٹی کے سکُوروں کی طرح بکھری پڑی ہیں ،
گلاسوں نے انھیں متروک کر ڈالا
زباں پر ذائقہ آتا تھا جو صفحہ پلٹنے کا
اب انگلی کلک کرنے سے
بس اِک جھپکی گزرتی ہے
بہت کچھ تہہ بہ تہہ کھلتا چلا جاتا ہے پردے پر ،
کتابوں سے جو ذاتی رابطہ تھا کٹ گیا ہے
کبھی سینے پر رکھ کر لیٹ جاتے تھے ،
کبھی گودی میں لیتے تھے
کبھی گھٹنوں کو اپنے رحل کی صورت بنا کر
نیم سجدے میں پڑھا کرتے تھے، چھوتے تھے جبیں سے
وہ سارا علم تو ملتا رہے گا آیندہ بھی
مگر وہ جو کتابوں میں ملا کرتے تھے سوکھے پھول
ان کا کیا ہو گا ؟
اس نظم کا ایک ایک مصرع سچا ہے
اور اسی لیے نہایت کڑوا بھی ہے، مگر اس کڑواہٹ کو  شاعر نے شکایتوں کی دل آویز پوشاکیں دی ہیں۔ یہ کیسا گلہ ہے ؟ یہ کیسی شکایت ہے ؟ مگر کس سے گلہ کیا جا رہا ہے اور کس کی شکایت کی جا رہی ہے ؟ اس صورتِ حال کا آخر ذمہ دار کون ہے ؟ زمانے کو تو کہہ نہیں سکتے کہ ہمیں اس کی اجازت نہیںہے، البتہ انسان کی ذہنی ترقی کو ’الزام‘ دے سکتے ہیں، کیوں کہ ترقی کے نام پر انسان، انسانیت کو جو کچھ دے رہاہے، اس میں نقصان کا پہلو ہی زیادہ نمایاں نظر آ رہا ہے۔ سائنس اور ٹکنالوجی کی اس برق رفتار ترقی نے انسان کو مشین کا ایک کل پُرزہ بناکے رکھ دیا ہے۔ ایسے میں وہ فطرت سے دُور اور غیر فطری ماحول کا عادی بنتا چلا جا رہا ہے۔
بات احساس کی ہے … کتابوں سے مضبوط رشتہ استوار رکھنے والا اور کتابوں سے نزدیک رہنے والا روزانہ کتابیں اٹھاتا اور انھیں محبت سے رکھتا ہے۔ اپنی کتابوں کی ترتیب اور ان کی صفائی، یا پھر کسی اہم کتاب کی تلاش اسے کتابوں سے بہت ہی قریب رکھتی ہے۔ الماری کے باہر سے کتابوں کو دیکھتا ہے
، مگر اس نظم میں شاعر نے تو کتابوں کو جھانکتے ہوئے محسوس کیا۔ وہ بتاتے ہیں :
کتابیں جھانکتی ہیں بند
الماری کے شیشوں سے، بڑی حسرت سے تکتی ہیں، مہینوںاب  ملاقاتیں نہیں ہوتیں۔ جو شامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیں، اب اکثر گزر جاتی ہیں کمپیوٹر کے پردوں پر۔ بڑی بے چین رہتی ہیں کتابیں، انھیں اب نیند میں چلنے کی عادت ہو گئی ہے۔
نظم کا پہلا مصرع پڑھ کے چونکیے گا نہیں…
معنی کتابوں کا جھانکنا اور ان کا تکنا چہ دارد ایسا کرتے ہیں کہ ہم کتابوں کو ذی روح مان کر چلتے ہیں۔ یہ کتابیں اس حد تک مجبور ہیںکہ خود سے باہر نہیں نکل سکتیں ، کوئی انھیں نکالنے والا چاہیے۔ کسی کے انتظار میں شیشوں سے جھانکے جا رہی ہیں، اور جب یہ انتظار برداشت سے باہر ہو جاتا ہے تو ان پر مایوسی کی ایک کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور وہ بڑی حسرت سے لگا تار دیکھے جا رہی ہیں، کیوں کہ مہینوں گزر جاتے ہیں مگر انھیں شوق سے ڈھونڈنے والا، محبت سے چھونے والا، دونوں ہاتھوں کی رحل میں سجانے والا، آنکھوں اور اپنے سینے سے لگا لینے والا نہ آئے تو ان کی آنکھیں بھی پتھر ا جاتی ہیں۔ ایسے میں ایک حسرت اور بے چینی ان میں نظر آتی ہے کہ انھیں چاہنے والے کسی اور طرف مصروف ہو گئے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ جب ایک انسان ہر طرف سے مایوس ہو جائے تو وہ ایک طرح کا نفسیاتی مریض بن جاتا ہے۔ ہر ذی روح میں چاہنے اور چاہے جانے کا جذبہ قدرتی طور پر ودیعت کر دیا گیا ہے اور جب یہ جذبہ شر مندۂ تکمیل نہیں ہو پاتا تو کہیں داخل کی دُنیا میں ٹوٹ پھوٹ کا سلسلہ چل نکلتا ہے، اور ایسے میں وہ نفسیاتی طور پر ضرور متاثر ہو جاتے ہیں۔
کتابیں بھی انتظار میں گھٹ گھٹ کر گویا ایک طرح سے نفسیاتی مریض بن گئی ہیں۔ نظم کا یہ مصرع کہ
’’انھیں اب نیند میں چلنے کی عادت ہو گئی ہے‘‘ ، اسی نفسیاتی مرض کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ نیند میں چلنا صحت کی علامت تو نہیں ہے۔
شاعر کو اس بات کا دُکھ ہے کہ آج کل کتابیں پڑھی نہیں جاتیں ۔ پہلے کتابوں کے لیے جو وقت دیا جاتا تھا ، اب وہ سار ا وقت کمپیوٹر اور اس کی برادری، یعنی ویڈیو ، ٹی وی یا موبائل فون کے ساتھ دیکھتے ، کھیلتے گزر جاتا ہے۔ یہی سبب ہے …’’ جو قدریں وہ سناتی تھیں، کہ جن کے سیل کبھی مرتے نہیں تھے ، وہ قدریں اب نظر آتی نہیں گھر میں ، جو رشتے وہ بناتی تھیں، وہ سارے ادھڑے ادھڑے ہیں
‘‘۔ سِیل ہندی لفظ ہے، جو نمی، ٹھنڈ اور محبت کے معنی دیتا ہے۔ گلزار کا دعویٰ ہے کہ گھروں کے اندر رشتے داریاں کتابوں ہی سے اپنا بھرم باقی رکھ سکتی ہیں۔
’کتابوں سے جو ذاتی رابطہ تھا کٹ گیا ہے
‘۔ کتابوں سے رابطہ نہ ہونے پر گھروں میں انسانوں کے درمیان نہ رشتوں کی قدریں باقی رہیں اور نہ محبتیں زندہ رہیں۔ ’سب اُدھڑے اُدھڑے نظر آتے ہیں‘ یعنی یہ رشتے ناطے ، یہ محبتیں ، آپسی تعلقات ، ایک دوسرے کا لحاظ ، ایک دوسرے کو پانے کا جذبہ سب کچھ اپنے آپ نہیں اُدھڑ ا ہے، بلکہ انھیں کتابوں کی دوری ہی نے اُدھیڑ کر رکھ دیا ہے۔
’’ کوئی صفحہ پلٹتا ہوں تو اک سسکی نکلتی ہے ‘‘، اس مصرعے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ہر طرف سے مایوس انسان کو جب اچانک کوئی ہمدرد مل جاتا ہے تو وہ اپنے اس ہمدرد کے گلے لگ کر اس طرح رو پڑتا ہے کہ اس کے دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہو سکتا ہے جو حقیقت سے بہت ہی قریب بھی ہے۔ وہ یہ کہ جب ایک کتاب مدتوں انسانی ہاتھوں سے دُور ایک ہی جگہ رکھی رہ جائے تو اس کے اوراق اس طرح ایک دوسرے سے چپک جاتے ہیں کہ انھیں الگ کرتے ہوئے ایک سر سراہٹ سی پیدا ہو اکرتی ہے۔ اسی سرسراہٹ کو شاعر نے سسکی سے تعبیر کیا ہے۔
’کئی لفظوں کے معنی گر پڑے ہیں‘۔ کتابیں جب پارینہ اور بوسیدہ ہو جاتی ہیں ، تو وہ ایک طرح سے ناقابل مطالعہ ہو جاتی ہیں ۔ان میں کئی طرح کی تبدیلیاں آ جاتی ہیں (جس طرح ایک بوڑھے انسان میں کئی تبدیلیاں آ جاتی ہیں )۔
کرم خوردگی کی وجہ سے جگہ جگہ حرف غائب ہو جاتے ہیں، یا ان کی قدامت کی وجہ سے اکثر جگہ حروف اڑے اڑے نظرآتے ہیں، جس سے بہت سوں کو الفاظ سمجھنے میںدشواری ہوتی ہے۔ ایسے میں لفظوں کے معنی گر پڑنے کا مطلب سمجھنا آسان ہے۔
’بنا پتوں کے سوکھے ٹُنڈ لگتے ہیں وہ سب الفاظ، جن پر اب کوئی معنی نہیں اُگتے ‘۔ ’ ٹُنڈ‘ ہندی لفظ ہے اور مذکر مستعمل ہے۔ یعنی درخت کا وہ تنا ، یا ڈالی جسے کا ٹ دیا گیا ہو اور اس پر کوئی ڈالی یا پتا نہ اُگے ۔ جب یہ بھی پتا نہ چلے کہ لفظ کیا ہے تو مطلب کیا سمجھ میں آ سکے گا۔ کتاب کے وہ الفاظ جو ٹھیک سے پڑھے نہیں جا سکتے انھیں ’ٹنڈ ‘کا نام دیا ہے۔
’’بہت سی اصطلاحیں ہیں،
جو مٹی کے سکُوروں کی طرح بکھری پڑی ہیں، گلاسوں نے انھیں متروک کر ڈالا ‘‘۔ ان دو مصرعوں میں دو باتیں ہیں: مٹی کا ’سکُورا‘ اور گلاس۔ پانی کے گلاس کے اُوپر رکھا جانے والا ایک چھوٹے سے مٹی کے برتن کو سکُور ا کہا جاتا ہے۔ سکُورا فارسی کا لفظ ہے۔ یہاں غالباً چھوٹی سی پیالی کو سکُورا کہا گیا ہے جو پانی کے گھڑے کا منہ بند رکھنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ پرانے وقت گھروں میں زیادہ تر مٹی کے برتن ہی استعمال ہوتے تھے، مگر آج کی نسل کو یہ لفظ نا مانوس لگے گا، اس لیے گلاس کا لفظ برتا گیا ہے۔
ہر زبان کی کچھ اصطلاحیں ہوتی ہیں اور اکثر یہ اصطلاحیں (کسی خاص لفظ سے مراد معنی لینا اصطلاح کہلاتا ہے ) ہمیں کتابیں ہی دیتی ہیں۔
ان کے استعمال سے زبان کا حُسن دوبالا ہو جاتا ہے۔ کتابوں کا مطالعہ نہ ہونے کی وجہ سے بولنے والا زبان کی اصطلاحوں سے ناواقف رہ جاتا ہے۔ جیسے غیر استعمال شدہ چیزیں تہہ خانے میں بکھری پڑی ہوتی ہیں، اسی طرح کتابوں میں اصطلاحات بکھری پڑی ہیں۔ گلاسوں سے تعلق ٹوٹ گیا ہے، اور زبان اصطلاحوں سے خالی ہے۔
’’زباں پرذائقہ آتا تھا جو صفحہ پلٹنے کا‘‘۔یہ اشارہ ہے اُس عادت کی طرف، جو مطالعے کے دوران ہم اپنی شہادت کی انگلی کو زبان سے لگا کر صفحہ پلٹتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے ہماری زبان پر ایک قسم کا ذائقہ بھی ہوتا ہے، جسے محسوس کرتے ہوئے مطالعے میں لگے رہتے ہیں۔ ہر کاغذ کا الگ ذائقہ ہوا کرتا ہے، مگر اسے ہم متعین نہیں کر سکتے۔ نئے کاغذات میں ایک طرح کی خوشبو ہوا کرتی ہے۔ بوسیدہ کتابوں میں ایک انوکھی باس رچی بسی رہتی ہے۔
’’اب انگلی کلک (click)کرنے سے، بس ایک جھپکی گزرتی ہے۔بہت کچھ تہہ بہ تہہ کھلتاچلا جاتا ہے
پردے پر، کتابوں سے جو ذاتی رابطہ تھا کٹ گیا ہے ‘‘۔ آج کل مطالعے کے طریقے میں پرانی کتابیں ہاتھ میں لینے کی نوبت کم ہی آتی ہے۔ اب تو ایک سیکنڈ میں انگلی کی حرکت ہوتی ہے اور سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔نہ ا نتظار کی کوفت اور نہ تلاش کی مشقت ۔ نہ کسی سے مانگنے کی نوبت اور نہ کتابیں لے کر نہ لوٹانے والے سے کوئی شکایت ۔ اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ ہمارا ذاتی رابطہ جو کتابوں سے تھا وہ منقطع ہو گیا ہے، اور کتابوں کے سلسلے میں پرانے لوگوں میں جو جذبات ہوا کرتے تھے ، ان سے شوق کے دریچے خالی ہو گئے ہیں۔
پھر حسرت کو زبان دیتے ہوئے کہتے ہیں:’’ کبھی سینے پر رکھ کے لیٹ جاتے تھے، کبھی گودی میں لیتے تھے ، کبھی گھٹنوں کو اپنے رحل کی صورت بنا کر نیم سجدے میں پڑھا کرتے تھے ، چھوتے تھے جبیں سے ‘‘… یہ مطالعے کی چند صورتیں ہیں اور ان میں تمام کتابیں اپنی درجہ بندی کے ساتھ تقسیم کی جا سکتی ہیں۔ یہ صورتیں آج مکمل طور پر نہ سہی مگر ماضی کا قصہ بن چکی ہیں اور بہت ممکن ہے کہ آنے والی نسل کے لیے ان کی کوئی گنجایش ہی نہ رہے۔
’خدانے چاہا تو وہ سارا علم ملتا رہے گا بعد میں بھی ‘۔ بات اگر علم کی ہے تو انسان کہیں سے بھی اور کسی سے بھی پاہی لیتاہے۔ معلومات چاہے کہیں سے اور کسی سے بھی ملیں ، اگر وہ صحت مند ہوں  تو مستحسن مانی جائیں گی۔ ماضی قریب میں انسان کا شوق اسے کتابوں کی طرف لے گیا۔ حال میں انسان کی سوچ بدلی تو اس نے کتابوں کے بوجھ سے خود کو آزاد کر لیا اور تکمیلِ شوق کے لیے اور بھی آسان ذریعہ اسے مل گیا، بقول اقبال: ’ کہ آ رہی ہے دمادم صداے کن فیکون ‘۔ اس بنیاد پر بہت ممکن ہے مستقبل میں اور کوئی نرالا ذریعہ انسان کو مل ہی جائے، جس سے وہ معلومات حاصل کر سکے۔
’’مگر وہ جو کتابوں میں ملا کرتے تھے سوکھے پھول ، ان کا کیا ہوگا؟‘‘۔یہ مصرعے ایک رومانوی ماحول میں لے جاتے ہیں۔ ادبی، نیم ادبی اور دینی کتابوں میں رکھے ہوئے سوکھے اور مہکے پھولوں کا بھی مشاہدہ کیا ہے۔ یہ ہمارے اگلے وقتوں کی زندگی کی طرف اشارہ ہے۔
آج کی نئی پود بالکلیہ نہ سہی عصری علوم کے نام سے اس راستے پر گام زن ہے، جس کی کوئی منزل سمجھ میں نہیں آتی ہے
، اور اس نامعلوم منزل کی طرف رواں قافلے کی نظر میں محبت، احترام اور معصومیت وغیرہ فرسودہ تصورات ہیں: ’کتابیں جھانکتی ہیں اور بڑی حسرت سے تکتی ہیں‘‘۔
ایک زمانہ تھا کہ قرآنِ کریم خوب صورت ریشمی غلافوں میں بڑی محبت سے بند کر کے کمروں کی بلند جگہوں پر رکھے جاتے تھے۔
پڑھنے اور سمجھنے کی ترجیح عموماً راہ نہیں پاتی تھی۔ اور اب الماریوں یا شیلفوں میں سجاد ی جاتی ہیں، خوب صورت کتابیں، گھر کی سجاوٹ کے لیے!
 

Comments