Either you agree or you are Nincompoop by Prof Dr Sohail Ansari

   “People who think they know everything are a great annoyance to those of us who do.” Isaac Asimo ‘ There is a fine line between fishing and just standing on the shore like an idiot.”Steven Wright[[b/Israel 17:23] And your Lord has ordained that you do not worship anyone except Him, and treat your parents with kindness; if either of them or both reach old age in your presence, do not say "Uff"* to them and do not rebuff them, and speak to them with the utmost respect. b/Israel 17:23] And your Lord has ordained that you do not worship
Either you are with us or you are mooncalf  parents with kindness; if either of them or both re
I am often told that no evidence can change my mind as anything that goes against my thesis is, as I think, is wrong. Problem is that, things I have listened so far are obviously wrong for the obvious reasons that that they are so ludicrous that they are not even worth thinking. Thing does not become right only because it goes against one’s thesis or person does not become unadaptable if he rejects something stupid.

 your
حکمت مودودیؒ

اسلامی تہذیب کے چودہ اصول

سیّدابوالاعلیٰ مودودی


(مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی ایک نشری تقریر ’معراج کا پیغام‘ کا یہ حصہ ایک ضرورت کے تحت مختصر کرکے مرتب کیا، اس طرح یہ تحریر ایک مستقل شکل میں پیش کی جارہی ہے۔ادارہ)

کرئہ ارض جس پر ہم آپ رہتے ہیں خدا کی عظیم الشان سلطنت کا ایک چھوٹا سا صوبہ ہے۔ اس صوبے میں خدا کی طرف سے جو پیغمبر بھیجے گئے ہیں، ان کی حیثیت کچھ اس طرح کی  سمجھ لیجیے جیسے دنیا کی حکومتیں اپنے ماتحت ملکوں میں گورنر یا وائسرائے بھیجا کرتی ہیں۔ ایک لحاظ سے دونوں میں بھاری فرق ہے۔
دنیوی حکومتوں کے گورنر اور وائسرائے محض انتظام ملکی کے لیے مقرر کیے جاتے ہیں اور سلطانِ کائنات کے گورنر اور وائسرائے اس لیے مقرر ہوتے ہیں کہ انسان کو صحیح تہذیب ، پاکیزہ اخلاق اور سچے علم وعمل کے وہ اصول بتائیں جو روشنی کے مینار کی طرح انسانی زندگی کی شاہراہ پر کھڑے ہوئے صدیوں تک سیدھا راستہ دکھاتے رہیں، مگر اس فرق کے باوجود دونوں میں ایک طرح کی مشابہت بھی ہے۔ دنیا کی حکومتیں گورنری جیسی ذمہ داری کے منصب ان ہی لوگوں کو دیتی ہیں، جو ان کے سب سے زیادہ قابل اعتماد آدمی ہوتے ہیں اور جب وہ انھیں اس عہدے پر مقرر کردیتی ہیں تو پھر انھیں یہ دیکھنے اور سمجھنے کا پورا موقع دیتی ہیں کہ حکومت کا اندرونی نظام کس طرح پالیسی پر چل رہا ہے اور ان کے سامنے اپنے وہ راز بے نقاب کر دیتی ہیں، جو عام رعایا پر  ظاہر نہیں کیے جاتے۔
ایسا ہی حال خدا کی سلطنت کا بھی ہے۔ وہاں بھی پیغمبری جیسی ذمہ داری کے منصب پر وہی لوگ مقرر ہوئے ہیں جو سب سے زیادہ قابل اعتماد تھے، اور جب انھیں اس منصب پر مقرر کر دیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے خود ان کو اپنی سلطنت کے اندرونی نظام کا مشاہدہ کرایا اور ان پر کائنات کے وہ اسرار ظاہر کر دیے جو عام انسانوں پر ظاہر نہیں کیے جاتے۔
اسی نوعیت کے تجربات میں سے ایک وہ چیز ہے جس کو معراج کہتے ہیں۔ معراج صرف سیر اور مشاہدہ ہی کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایسے موقعے پر ہوتی ہے، جب کہ پیغمبر کو کسی کارِ خاص پر مقرر کرنے کے لیے بلایا جاتا ہے، اور ایسا ہی ایک اہم موقع وہ تھا جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو طلب کیا گیا ۔ یہ وہ وقت تھا کہ صرف حجاز اور صرف عرب ہی نہیں بلکہ گردوپیش کی دوسری قوموں سے بھی سابقہ پیش آنا تھا اور اسلام کی تحریک ایک اسٹیٹ میں تبدیل ہونے کو تھی۔ اس لیے اس  اہم موقعے پر آپ کو ایک نیا پروانۂ تقرر اور نئی ہدایات دینے کے لیے باد شاہِ کائنات نے اپنے حضور میں طلب فرمایا ۔
اسی پیشی وحضوری کا نام معراج ہے۔ عالمِ بالا کا یہ حیرت انگیز سفر ہجرت سے تقریباً ایک سال پہلے پیش آیا تھا۔ اس سفر کے ضمنی واقعات احادیث میں آئے ہیں، مثلاً: بیت المقدس پہنچ کر نماز ادا کرنا ، آسمان کے مختلف طبقات سے گزرنا ، پچھلے زمانے کے پیغمبروں سے ملنا اور پھر آخری منزل پر پہنچنا ۔ لیکن قرآن ضمنی چیزوں کو چھوڑ کر ہمیشہ اصل مقصد تک اپنے بیان کو محدود رکھتا ہے۔ اس لیے اس نے کیفیت ِ معراج کا کچھ ذکر نہیں کیا،بلکہ وہ چیز تفصیل کے ساتھ بیان کی ہے جس  کے لیے آںحضرتؐ کو بلایا گیا تھا۔ قرآن کی ۱۷ویں سورت [بنی اسرائیل]میں آپ کو یہ تفصیل مل سکتی ہے۔
اس کے دوحصے ہیں۔ ایک حصے میں مکے کے لوگوں کو آخری نوٹس دیا گیا کہ اگر تمھاری سختیوں کی وجہ سے خدا کا پیغمبر جلاوطنی پر مجبور ہوا تو مکے میں تم کو چند سال سے زیادہ رہنے کا موقع نہ مل سکے گا، اور بنی اسرائیل کو جن سے عنقریب مدینے میں پیغمبر کو براہِ راست سابقہ پیش آنا تھا ، خبردار کیا گیا کہ تم اپنی تاریخ میں دو زبر دست ٹھوکریں کھا چکے ہواور دو قیمتی موقعے کھو چکے ہو۔ اب تم کو تیسرا موقع ملنے والا ہے اور یہ آخری موقع ہے۔
دوسرے حصے میں وہ بنیادی اصول بتائے گئے ہیں،جن پر انسانی تمدن و اخلاق کی تعمیر ہونی چاہیے ۔ یہ چودہ اصول ہیں :
    ۱-     صرف اللہ کی بندگی کی جائے اور اقتدارِ اعلیٰ میں اس کے ساتھ کسی کی شرکت نہ تسلیم کی جائے۔
    ۲-     تمدن میں خاندان کی اہمیت ملحوظ رکھی جائے، اولاد والدین کی فرماں بردار وخدمت گزار ہو اور رشتہ دار ایک دوسرے کے ہمدرد و مدد گارہوں۔
    ۳-    سوسائٹی میں جو لوگ غریب یا معذور ہوں یا اپنے وطن سے باہر مدد کے محتاج ہوں وہ بے وسیلہ نہ چھوڑ دیے جائیں۔
    ۴-     دولت کو فضول ضائع نہ کیا جائے ۔ جو مال دار اپنے روپے کو برے طریقے سے خرچ کرتے ہیں وہ شیطان کے بھائی ہیں۔
    ۵-     لوگ اپنے خرچ کو اعتدال پر رکھیں ، نہ بخل کر کے دولت کو روکیں اور نہ فضول خرچی کر کے اپنے لیے اور دوسرے کے لیے مشکلات پیدا کریں۔
    ۶-    رزق کی تقسیم کا قدرتی انتظام جو خدا نے کیا ہے، انسان اس میں اپنے مصنوعی طریقوں سے خلل نہ ڈالے ۔خدا اپنے انتظام کی مصلحتوں کو زیادہ بہتر جانتا ہے۔
    ۷-    معاشی مشکلات کے خوف سے لوگ اپنی نسل کی افزایش نہ روکیں، جس طرح موجودہ نسلوں کے رزق کا نتظام خدا نے کیا ہے آنے والی نسلوں کے لیے بھی وہی انتظام کرے گا۔
    ۸-    خواہشِ نفس کو پورا کرنے کے لیے زنا کا راستہ برا راستہ ہے۔ لہٰذا نہ صرف زنا سے پرہیز کیا جائے بلکہ اس کے قریب جانے والے اسباب کا دروازہ بھی بند ہونا چاہیے۔
    ۹-    انسانی جان کی حرمت خدا نے قائم کی ہے۔ لہٰذا خدا کے مقرر کردہ قانون کے سوا کسی دوسری بنیاد پر آدمی کا خون نہ بہایا جائے، نہ کوئی اپنی جان دے ، نہ دوسرے کی جان لے۔
    ۱۰-     یتیموں کے مال کی حفاظت کی جائے جب تک وہ خود اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کے قابل نہ ہوں۔ ان کے حقوق کو ضائع ہونے سے بچایا جائے۔
    ۱۱-     عہدوپیمان کو پورا کیا جائے ۔ انسان اپنے معاہدات کے لیے خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔
    ۱۲-     تجارتی معاملات میں ناپ تول ٹھیک ٹھیک راستی پر ہونا چاہیے۔ اوزان اور پیمانے صحیح رکھے جائیں۔
    ۱۳-     جس چیز کا تمھیں علم نہ ہو اس کی پیروی نہ کرو۔ وہم اور گمان پر نہ چلو کیونکہ آدمی کو اپنی تمام قوتوں کے متعلق خدا کے سامنے جواب دہی کرنی ہے کہ اس نے انھیں کس طرح استعمال کیا۔
    ۱۴-    نخوت اور تکبر کے ساتھ نہ چلو۔ غرور کی چال سے نہ تم زمین کو پھاڑ سکتے ہو،نہ پہاڑوں سے اونچے ہو سکتے ہو۔
یہ چودہ اصول جو معراج میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیے گئے تھے، ان کی حیثیت صرف اخلاقی تعلیمات ہی کی نہ تھی بلکہ یہ وہ پروگرام تھا جس پر آپ کو آیندہ سوسائٹی کی تعمیر کرنی تھی۔ یہ ہدایات اس وقت دی گئی تھیں جب آپ کی تحریک عنقریب تبلیغ کے مرحلے سے گزر کر حکومت اور سیاسی اقتدار کے مرحلے میں قدم رکھنے والی تھی ۔ لہٰذا یہ گویا ایک مینی فسٹو تھا جس میں   یہ بتایا گیا تھا کہ خدا کا پیغمبر ان اصولوں پر تمدن کا نظام قائم کرے گا۔ اسی لیے معراج میں       یہ۱۴نکات مقرر کرنے کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے تمام پیروان اسلام کے لیے پانچ وقت کی نماز فرض کی تا کہ جو لوگ اس پروگرام کو عمل کا جامہ پہنانے کے لیے اٹھیں ان میں اخلاقی انضباط پیدا ہو اور وہ خدا سے غافل نہ ہونے پائیں۔ ہر روز پانچ مرتبہ ان کے ذہن میں یہ بات تازہ ہوتی رہے کہ وہ خود مختار نہیں ہیں بلکہ ان کا حاکمِ اعلیٰ خدا ہے جس کو انھیں اپنے کام کا حساب دینا ہے۔
presence, do not say "Uff"* to them and do not rebuff them, and speak to them with t
'Us' and 'the others' - Stereotypes
e utmoAlthough they have a bad image, there is nothing inherently wrong about stereotypes. Without them, we would struggle to find our way in the world. If we did not have a stereotypical view of, say, a bottle in our mind, we would not recognise similar objects and classify them as bottles: we would have to painstakingly interpret each bottle as a different concept.
In our minds we have concepts about the world around us, and these conceptions guide the way we think. Stereotypes provide us with the necessary abstractions. However, stereotypes can become problematic when we are interacting with other people and cultures. This is in part due to how the human mind tends to divide the world into binaries: 'us' and 'the others', those who belong to our group and those who do not, the known and the foreign. Psychology refers to this division as a division into in-groups and out-groups.
We each belong to certain social groups, and in these groups we adopt and share certain stereotypes. This can be perfectly harmless, allowing us to take mental shortcuts: by using bits and pieces of knowledge and impressions, we are able to make fuller pictures of the people and things we know little about. However, these shortcuts can hinder rather than foster communication, especially when it comes to culture and politics.
Generally, stereotypes are analysed in one of two ways: the cognitivist approach or the socio-cultural approach. If we go down the cognitivist road, we look at how a person individually relates him/herself to a social group and we analyse how his/her stereotypes are formed. And if we choose the socio-cultural path, we look at the social group a person belongs to and how stereotypes develop within that social group. However, there is a third approach we can choose: the discourse approach, which involves the analysis of language. When we take the discourse approach, we analyse the argumentative strategies, linguistic realisations, and mechanisms of manipulation involved in the use of stereotypes.
Regardless of the approach we take to the analysis of stereotypes, it is important to take a closer look at where our stereotypes come from. To do this, we need to consider political and economic backgrounds, the character of and current and historical relationship between in-groups and out-groups, the behaviour of the respective groups and other variables, such as personality and language.
Generally, we receive information about the others via two basic routes: direct contact between us and the others and social channels through which information is sent. When we develop our opinions about others, our personal direct contact with the out-group influences our view. We perceive the others in a certain way, based on our experiences and stories we've heard, which we then share with members of our in-group. Various social channels also give us information about the others. We use mass media, we listen to political figures, we have our social networks, we read books and watch movies, and we go to educational institutions. These are the societal, social, cultural, and educational channels through which we receive views about the world. We might regard some of these social channels as authoritative in the validity of the information they provide: we often see books, newspapers, television, and radio as 'right'. In other words, we might simply believe what these channels tell us.
This credulity is important, as the media is often our only source of information about different cultures. Often the less we know about the others, the more we rely on newspapers and television for information. What we do not always see is that the media does not always provide us with the simple 'truth', and can provide false or ideologically-slanted information. Further, we do not always notice that we are prone to adopting the views of media outlets, including stereotypes about other cultures.
Even though the media is only one of the channels that transmits stereotypes, it is worth taking a closer look at how they are perpetuated by newspapers and television. Especially at times of conflict, we might find it of interest to see how mass media present and describe ethnic and cultural minorities or other sides involved in conflict. Often, facts are personified and oversimplified, and we end up with ideological content and negative representations of 'enemy' figures. If we decided to analyse the news coverage of a certain conflict with an out-group – regardless of whether it is a minority or another nation – we might find a sharp division into in-group and out-group, into us and the others, with us usually being the good guys and the others the bad guys. This could make for an oversimplification of a complex situation, and perhaps even a warped representation of reality. We may be presented with stereotypes far removed from a useful, accurate categorisation of the outside world.

'Us' and 'the others' in conflict
To see how an out-group might be negatively portrayed during a conflict, let us take a closer look at the Austrian print media's coverage of the Russian-Ukrainian gas crisis of 2008/09 (examples are translated from German). At the end of November 2008, Russia and the Ukraine started to experience difficulties with each other concerning gas prices, payments, and contracts with the result that, on 1 January 2009, the Russian gas company Gazprom turned off gas supplies and halted deliveries of gas through the European Union via the pipelines running through the Ukraine. The gas supplies were eventually restarted on 20 January 2009. Even though this conflict did not concern Austria directly, it had an impact in that Austria did not receive gas from Gazprom, leading to fears that Austrian citizens would not be able to heat their homes in the winter.
With this background in mind, we can now turn our attention to the specific (linguistic) methods used by two of Austria's newspapers - the 'quality' die Presse and tabloid Kronen Zeitung – to represent different groups. These publications' coverage of events between mid-November 2008 and the end of February 2009 provides examples of how images are created and how in-groups and out-groups are represented. News stories, feature articles, editorials, and op-eds offer us insights into the use of 'us' and 'the others'.
In the coverage of the gas crisis, we find the mechanisms mentioned above: personification, oversimplification, divisions into in-groups and out-groups, and negative representations of the out-group. Personification is common: we often come across Putin, Timoschenko, and Janukovich standing for Russia and the Ukraine, with Russia, the Kremlin, and Brussels as acting figures in the conflict. The media focus on just a few people and places.
Oversimplification and the division into in-group and out-group can be seen in the way the two newspapers continue to frame things in terms of the Cold War. As in the Cold War, East and the West are presented as opposite sides: the EU is still the West, while Russia is trying to establish itself as a great power or is looking for neocolonial exploitation of former Soviet States and Comecon countries. In this way, the papers present a simplistic view of us and the others.
Generally, the papers make a simple division between 'the good guys' - Austria and the European Union - and 'the bad guys', Russia and the Ukraine. The Austrian press use positive words like delighted, support, and trying to mediate in connection with the EU, but negative words for Russia and the Ukraine: threaten, fear, angry, anger, enemies, evil, bandits, shock.
The gas conflict itself is a negative event which the media makes all the more negative by presenting it as though it were a war. The threat of a war is shown as real for Austrians. We often read words like war, conflict, crisis, and quarrel. We have aggressors and victims: Russia and the Ukraine wage their conflict at the expense of Europe; Russia is turning off the gas, and Austrians are in danger of freezing to death.
The media reinforce the negative image of the out-group by bringing up other stereotypes. In articles and stories not directly related to the gas crisis, media give us all the stereotypes considered to be typically Russian: contract killings, the Mafia, Anna Politkovskaya, Chechnya, war crimes, corruption and human trafficking. The picture we get is certainly not a positive one: Russia seems like a threatening, dark, unknown, dangerous place.
Wherever we are, stereotypes are part of our lives. Media are part of our lives. And in-groups and out-groups are part of our lives. Therefore it is important to consider how much of 'us' and 'the others' is reality and how much of it is a creation, especially at times of conflics.



Comments