Rebuttal By Prof.Inayat Ali Khan
صلوٰۃ اور نماز میں فرق اور نماز کی تردید کا جواب 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

کتابچے کی ابتدا ء ایک قرآنی آیت سے ہوتی ہے 




ہونا یہ چاہیے تھا کہ پہلے آیات کا صحیح ترجمہ دیا جاتا جو یہ ہے 

جنت میں مجرموں سے سوال ہوگا کہ تمہیں کن چیزوں نے دوزخ میں پہنچایاتو وہ کہیں گے ہم نمازی نہیں تھے اور مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے ۔

مفہوم کے تحت جواب کو یوں بدل دیا گیا ہے :

کہ وہ ایسا نظام صلوٰۃ کرنے والواں میں نہیں تھے جس سے مساکین کو طعام دیاجاتا :

یہاں دوزخ میں آنے والوں کے جواب میں اپنے دوزخ میں آنے کی دو وجوہات بیان کی گئی ہیں ۔

۱۔ ہم نمازی نہیں تھے۔
۲۔ہم مسکینوں کو کھانانہیں کھلاتے تھے۔
قرآن کے دیگر مقامات پر بھی دوزخیوں کا جواب انہیں دو گناہوں پر مشتمل ہے کہ وہ نہ نماز پڑھتے تھے اور نہ زکوٰۃ دیتے تھے جبکہ قرآن میں کئی مقامات پر ان دو فرائض کی علیحدہ علیحدہ تاکید کی گئی۔
یہاں مفہوم کے تحت نماز کے عدم ادائیگی کو مساکین کو کھانا نہ کھلانے کے وجہ بتلایا گیا ۔جو غلط ہے او ر اس کی وجہ یہ ہے کہ نماز کی ادائیگی کو اپنے بنائے ہوئے مفہوم میں نظام صلوٰۃ قائم کرنا لکھاہے ۔جس کے تشریح پرویز نے نظام عدل کے قیام کے طور پر کی ہے جو مسلمانوں کے ۱۲/ ۱۳ سو سال کے عقیدے اور متواتر عمل کے خلاف ہے نماز عبادت ہے قیام عدل کے احکام علیحدہ ہیں جو کئی مقامات پر قرآن میں آئے ہیں صلوٰۃ نظام عدل کے قیام کے مترادف سمجھاجائے تو وہ کونسا نظام ہے جو قرآن کے بتلائے ہوئے نماز کے اوقات مثلاََ طلوع فجر کے قبل اور غروب آفتاب اور باقی تین اوقات صلوٰۃ میں قائم کیا جاتا ہے ۔ہے کوئی جواب؟ 
آگے چل کرلکھتے ہیں۔
قرآنی آیات صلوٰۃ کی روشنی میں صلوٰۃ اور نماز میں فرق چونکہ کتابچے کا اصل موضوع یہ ہے ۔اس پر تفصیل سے گفتگوہوگی ۔بعد کی سرخی ہے صلوٰۃ اور نماز میں فرق ۔
صلوٰۃ قرآن نے دی ہے اور نماز روایات نے دی ہے ۔
جواب :۔ چونکہ موصوف منکر حدیث ہیں اس لئے حدیث کی جگہ روایات کا لفظ استعمال کیا ہے جبکہ (بقول ان کے) روایات بھی عربی میں ہے اور ان میں نماز نہیں صلوٰۃ ہی کا ذکر ہے۔ نماز تو فارسی لفظ ہے جو ادنیٰ سے ادنیٰ علم رکھنے والے بلکہ مطلق جاہل کے لئے بھی صلوٰۃ ہی کا مترادف ہے ۔
نماز چونکہ ایک ایسی ظاہری عبادت ہے۔ جس سے ہر شخص واقف ہے۔ اس لیئے منکرین حدیث حضرات اس کی جگہ صلوٰۃ کا لفظ استعمال کرتے ہیں ۔جس کی معنیٰ انہوں نے نماز فرض ہونے کے۱۳7 /۱۴سو سال بعد خود مقرر کیے ہیں ۔
* صلوٰۃ قائم کرنے کا حکم ہے جبکہ نماز پڑھی جاتی ہے ۔
جواب :۔ یہاں قائم کرنے کی معنیٰ ادا کرنے کے ہیں کیوں کہ پڑھی جاتی58 سے مراد کوئی چیز زبان سے پڑھنانہیں بلکہ مختلف جسمانی حرکات کے دوران کچھ پڑھنا ہے۔ قرآن پڑھنے اور نماز پڑھنے میں جو فرق ہے وہ بہت واضح ہے یہ محض لفظوں سے کھیل کر دھوکا دینا ہے کہ صلوٰۃ "قائم" کی جاتی ہے اور نماز" پڑھی "جاتی ہے ۔



* صلوٰۃ اجتماعی مفادات والی عبادت ہے ۔اور نماز شخصی مفاد والی پوجا ۔

جواب 5206 یہاں پھر نماز اور صلوٰۃ کے الگ الگ معنیٰ بتائے جارہے ہیں۔ جب کہ اوپر ذکر کیا گیا جس طرح اللہ اور خدا ایک ہی معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اسی طرح صلوٰۃ اور نماز بھی ایک ہی معنوں میں استعمال ہوتے ہیں۔دو الگ چیزیں نہیں ہیں۔

*صلوٰۃ برائیوں او ر فحاشی سے روکتی ہے ۔(۲۵-۲۹) جب کہ نماز ی لوگ خود بھی ان برائیوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔

جواب 52065 یہاں ذکر نمازکے ان فوائدکا ہے ۔جو بہترین انداز سے ادا کرنے کے نتیجے میں حاصل ہوتے ہیں۔ جو نماز بلاشعور محض رسم کے طو رپر ادا کی جاتی ہو ان کے مقابل ایسی نماز کو مثال بنایا گیا ہے۔ جس سے یہ خوبیاں پیدا ہوں۔ 

سوال یہ ہے کہ اگر صلوٰۃ کی معنیٰ ایک نظام کے قیام کے ہیں تو وہ آج کہاں قائم ہے اور کیا وہ قائم کرنے والے ان کوتاہیوں سے پاک ہیں۔

*نماز حکیم مانی مجوسی کی ایجاد ہے ۔اللہ کی عطا کردہ نہیں کیوں کہ اللہ کی دی ہوئی چیزوں میں اختلاف نہیں ہوتا 
جواب : آئیے پہلے موصوف کے اس بیان پر بات کریں کہ نماز حکیم مانی مجوسی کی ایجاد ہے ۔
ظاہر ہے موصوف خود تو حکیم مانی مجوسی سے نہیں ملے ہیں انہیں یہ بات کسی روایت سے معلوم ہوئی ہوگی ۔جس کے راوی کوئی معروف لوگ نہیں ہوں گے ۔موصوف نے اس روایت کو قبول کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے کہ نماز حکیم مانی مجوسی کی ایجاد ہے ۔
اب اگر وہ روایت ہی کوصداقت کا معیار مانتے ہیں تو ہماری روایت تونمازکے بقول ان کے ایجادکی روایت قرآن کی روایت سے ہزارگنایقینی ہے کہ اس کے راویوں کی عقل وفہم ،اخلاق وعادات، زہدو تقوی ٰ،صداقت ودیانت پر تو تاریخ کے صفحات ناقابل تردید گواہ ہیں اب اس معقول گواہی کو صحیح مانا جائیگایا غیرمعروف راویوں کی گواہی کو جن کے اوصاف و معاملات کا ہمیں علم نہیں ۔
*غنی مالدار لوگ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب: قرآن میں صلوٰۃ کا لفظ ہے جس سے مراد نماز ہے ۔یہ خدا کے باغی کا رویہ ہے جو نماز سے روکتا ہے نہ کہ کسی امیروں کی راہ کا جو نظام عدل سے روکتے ہوں ۔
*ڈرپوک شخص صلوٰۃ قائم نہیں کرسکتا ۔(۹ /۱۸( جب کہ نمازپر ڈرپوک آدمی پڑھ رہا ہے ۔



جواب: یہ آیت مسجد ضراربنانے والوں کی مذمت میں ہے ۔اللہ تعالی ٰ ان منافقین کے مقابلے میں سچے مومنوں کی صفا ت بیان کرتے ہوئے دیگرصفات کے ساتھ ایک صفت یہ بھی بیان فرمارہے ہیں کہ وہ صرف اللہ سے ڈرتے ہیں دیگر صفات یہ ہیں ۔

اللہ اور روز آخرت کو مانتے ہیں ،نماز قائم کرتے ہیں ،زکوٰۃادا کرتے ہیں ،اس کے مقابلے میں مسجد ضرار بنانے والوں کے بارے میںیہ کہا گیا ہے ۔کہ وہ ان صفات سے عاری ہیں ۔ رہی یہ بات کہ نماز تو ہر ڈرپوک اآدمی پڑھ رہا ہے اس کا کوئی تعلق ان آیات سے ہے ہی نہیں۔ یہاں ڈرنا خدا سے ڈرنے کے معنوں میں ہے نہ کہ ڈرپوک کے معنی میں ۔

*نظام صلوٰۃ قائم کرنے کا حکم معاشیات سے بھی منسلک ہے ۔(۳/۲) جبکہ نماز کا معاشیات سے کوئی تعلق نہیں ۔

جواب آیت مذکورہ ہے ۔



ترجمہ : یہ قرآن ہدایت ہے ان لوگوں کے لئے جو غیب پر 

(۱) ایمان لاتے ہیں 

(۲) نماز قائم کرتے ہیں 

(۳) اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔

یہاں بھی اپنے مطلب کے مطابق قیام صلواۃ کو معاشیات سے منسلک بتایا گیا ہے۔ جبکہ ہدایت یافتہ لوگوں کی یہ الگ الگ تین صفات بیان کی گئی ہیں کہ وہ

(۱) غیب پر ایمان لاتے ہیں 
(۲)نماز قائم کرتے ہیں 
(۳) اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔
اول تو یہ تین خوبیان اپنی جگہ علیحدہ علیحدہ ہیں جو اہل ایمان میں بیک وقت پائی جاتی ہیں پھر مفسرین نے رزق کے مفہوم میں صرف مال ہی نہیں دیگر صلاحیتیں شامل کی ہیں ۔ علم جسمانی اور ذہنی صلاحیت وغیرہ 
دو علیحدہ علیحدہ صفات کو غلط ملط کرنا عملی بدیانتی ہے یا فریب کاری ۔
*اجتماع صلوٰۃ میں شرکت سے ان لوگوں کو منع کیاگیا ہے۔جو شرکاء اجلاس کے مقالات اور ان کے جوابات میں اپنے جو ابی مقالے کا علم نہیں رکھتے ہوں۔(۴۳۔۲) جبکہ نماز کی فرضیت پڑھے لکھے اور جاہل کے لئے بھی سنائی جاتی ہے ۔
جواب:حوالہ نمبر (۴۳۔۲) کہ غلط ہے یہ مضمون (۴۳۔۲) کا ہے ۔
آیت نمبر ۴۳ کا مضموں کا شرائط نماز سے متعلق ہے ۔
جب مضمون کا حوالہ موصوف نے دیا ہے۔ وہ آیت نمبر ۴۳ میں ہے اسکا ترجمہ یہ ہے ۔
تم نے لوگوں کو بھی دیکھا جنہیں کتاب کا کچھ حصہ دیا گیا ہے ۔وہ توذلالت کے خریدار بنے ہوئے ہیں اور تم بھی راہ گم کردو۔
اب اس عبارت کی جگہ وہ مفہوم پڑھیئے جو بیان کیا گیا ہے ۔دونوں میں کیا مطابقت ہے یہاں ان لوگوں سے مراد یہود ہے ۔ جس کی وضاحت اگلی آیت میں کی گئی ہے ۔ اور وہ خود دونوں ذلالت کے خریدار بنے ہوئے ہیں کے تین مفہوم ہوسکتے ہیں ۔
(۱) اللہ کی کتاب میں ردوبدل کرکے گمراہی خریدتے ہیں یعنی راہ راست سے بھٹکتے ہیں ۔
(۲) آیت کا غلط بیان کرکے گمراہی کا راستہ اختیار کرتے ہیں ۔
(۳) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محفل میں آکر جوکچھ سنتے ہیں اس کا کچھ کا کچھ مطلب نکال کر لوگوں کو بہکاتے ہیں ۔
*نظام صلواۃ قائم کرنے سے بگڑے ہوئے مسائل حل کرنے میں مدد ملتی ہیں ۔ (۴۵۔۲) جبکہ مروجہ فرقہ جائی اختلافات والے نماز کی وجہ سے الٹا مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
جواب آیت ہے ۔



لیکن بیان مسلسل ہے اگلی آیت ہے ۔



ترجمہ: س صبر اور نماز سے مدد توبیشک نماز ایک سخت مشکل کام ہے ۔مگر یہ ان فرمان برادر لوگوں کے لئے کچھ مشکل نہیں جو سمجھتے ہیں کہ انہیں اپنے رب سے ملناہے اور اس کی طرف واپس جانا ہے ۔

ترجمہ واضح ہے کہ جو لوگ روز آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہوں ان کی لئے تو نماز پڑھنا کسی مصیبت سے کم نہیں لیکن جو لوگ یقین رکھتے ہیں کہ انہیں اللہ کے سامنے پیش ہوناہے ۔ان کی لئے یہ کام مشکل نہیں بلکہ آخرت میں کامیابی کا زریعہ ہونے کے سبب آسان بلکہ مرغوب ہے۔ یہ نماز اور مشکلات میں صبر سے کام لینایعنی تکلیف کو راہ حق میں برداشت کرنا اور غلط خواہشات پر قابو پانا۔ یہ صبر اور نماز یعنی اللہ کے سامنے پانچ وقت کی حاضری انسان میں مسائل کے حل کرنے میں معاون ہوتی ہیں ۔

اب اگر کسی شخص میں صبر کی طاقت ہے اور نماز حقیقی معنیٰ میں نماز ہے تو اس کے مسائل تو الجھ کر رہیں گے کیونکہ اس نے انھیں حل کر نے کا طریقہ یعنی صبر اور نماز کو صحیح معنوں میں استعمال ہی نہیں کیا اس میں نماز کا کیا قصورہے۔




*اقامت صلوٰۃ کے لئے نظام شوریٰ لا زمی ہے (۳۸/۴۲) جبکہ فرقہ جاتی نمازیں تو نظام شوریٰ میں رکاوٹ بنیں گی۔

جواب بحوالہ آیت یوں ہے ۔



اور لوگ (جو ایمان لاتے ہیں) (۱) اپنے رب کا حکم مانتے ہیں (۲) نماز قائم کرتے ہیں (۳) اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں (۴) ہم نے جو کچھ انہیں دیا اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔

اگلی آیت میں ایک اور صفت بیان کے گئی ہے۔ جب ان پر زیادتی کی جاتی ہے تو اس کا مقابلہ کرتے ہیں یہ گویا پانچویں صفت ہے ۔

یہاں پھر موصوف نے دوصفات کو یعنی قیام نماز اور باہمی مشاورت کو آپس میں غلط طریقے سے جوڑ کر کہا ہے کہ اقام الصلواۃ کے لئے نظام شوریٰ لازمی ہے ۔ یہ بھی اپنی بات کو دھوکے کے ذریعے ثابت کرنے کی مثال ہے ۔

*نظام الصلواۃ ملکی معیشت سوارنے کا اپنا مفصل ایجنڈہ ہے۔ (۸۷/ ۱۱) جبکہ نماز میں معاشیات سنوارنے کے لئے کوئی رہنمائی نہیں ملتی اس لئے بھی کہ صلواۃ اجتماعی مسائل حیات سے تعلق رکھتی ہے اور نماز انفرادی سوچ کی حامل ہے۔

جواب آیت کا ترجمہ ہے ا نہوں نے (حضرت شعیب کی قوم نے )جواب دیا۔

اے شعیب علیہ السلام کیا تیری نماز تجھے یہ سکھاتی ہے کہ ان سارے معبودوں کو چھوڑدیں جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے تھے یا یہ کہ ہمیں اپنے مال میں اپنے منشاء کے مطابق تصرف کر نے کا اختیار نہ ہو۔ بس توہی ایک عالی ظرف اور راست باز آدمی رہ گیا ہے ۔
یہاں قوم حضرت شعیب پر طنز کررہی ہے کہ تیری نماز ہمیں اپنے دادا کے معبودوں کے انکار پر آمادہ کرتی اور ہمارا یہ اختیار بھی ہم سے چھین لینا چاہتی ہے کہ ہم اپنے مال کے معاملے میں جو طریقہ چاہیں اختیار کریں ۔ ۔یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ قوم شعیب پر عذاب جس نافرمانی کی وجہ سے آیا تھا اوہ مالی معاملات میں بددیانتی تھی یعنی لیتے وقت زیادہ لیتے تھے اور دیتے وقت ڈنڈی مار کر کم کر دیتے تھے ۔ یہاں نماز سے ان کی مراد دین حق ہے ۔ جس کی ظاہری علامت نماز ہے ۔ان کا کہنایہ تھا کہ (۱) تیری نماز یعنی تیرا دین بس یہ ہی ہے کہ ہم اپنے باپ دادا کے معبودوں کو چھوڑدیں اور اپنے مال کے معاملے تیرے حکم کے پابند ہوجائیں پھر یہ طنز کہ پابند ہوجائیں کہ تواپنے آپ کو اتنا عقلمند اور عالی ظرف سمجھتا ہے کہ ہم ہمارے یہ طر یقے تیری نظر میں گناہ ہیں ۔
*صلوٰۃ کا وقت شفٹ والا مکمل دن رات چوبیس گھنٹے ہے یہ اس لئے ہے کہ صلواۃ کے مفہوم میں پوری رعایاکے مسائل حل کرنے ہوتے ہیں ۔
جواب یہ شفٹ وار مکمل دن رات چوبیس گھنٹے وقت آپ کے صلوٰۃ کا ہے ۔قرآن میں توہے ۔



بیشک صلواۃ (نماز )اہل ایمان پر وقت کی مناسبت سے فرض کی گئی ہے اور اوقات کی نشاندہی قرآن ہی میں کردی گئی جس کا ذکر پہلے آچکا ہے پوری امت مسلمہ اوقات کی تعین کے ساتھ (فجر ،ظہر ، عصر ،مغرب، عشاء ) ادا کررہی ہے ۔آپ کی صلوٰۃ کی شفٹیں آپ جانتے ہونگے یا آپ کے مقتدی۔

اگلا موضوع ہے رائج الوقت نماز کے غیر قرآنی ہونے کی طرح اس کی اندر کئے جانے والے رکوع وسجود بھی غیر قرآنی ہیں ۔

پورے پمفلیٹ میں جس ہستی پر قرآن نازل ہوا جس کی بارے میں ارشاد ہوا 



اور جو کتاب کی حکمت کی تعلیم دیتا ہے کا اشارۃٌ بھی ذکر نہیں ہیں ۔مفسرین کا اجماع ہے کہ معلم کتاب صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ آ پ کی بیان کردہ تفسیر وتشریح سے ہٹ کر کوئی اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے تشریح تاویل معتبر اور قابل قبول نہیں ہے ۔اور حکمت سے مراد حدیث ہے جو قرآن کی تشریح کرتی ہے ۔کوئی بتلائے کہ حدیث کی تشریحات کے بغیر کو ن سا رکن اسلام ہے جو ادا کیا جاسکتاہے ۔ نماز کی رکعت، وضوکے مسائل اور حج کی مسائل زکوۃ کی شرح روزے کے مسائل۔ قرآن ایسی کشتی نہیں جسے کوئی اناڑی اپنے طور پر( لغت دیکھ کر) جس بھنور میں جا پھنسے یا کسی چٹان سے ٹکرا کر پاش پاش کردیں ۔اس کی ساتھ ایک مقدم بھی لایا گیا جو صحیح راستے سے کشتی کو ساحل کی تک پہنچا سکتا ہے ۔حدیث کی صحت کے بار ے میں کسی محفل میں تفصیل سے گفتگوہوسکتی ہے یہاں نہیں ایک اور مثال سے بات سمجھی جاسکتی ہے ۔بشرط یہ ہے کہ کوئی سمجھنے کو تیار ہو ۔مثال پور ی دنیاکو ایک بہت بڑا پلانٹ تصور کرو جسے کارگر حیات یا دنیا کا کارخانہ کہتے ہیں ۔ہر پلانٹ جو کسی ملک سے درآمد کیا جاتا ہے۔اس کے ساتھ ایک رہنماء کتا بچہ ہوتا ہے ۔اور ایک انجینئر ہوتا ہے جو اس مینول کے مطابق اس پلانٹ کو چلا کردکھاتا ہے ۔مینول ہر اناڑ ی ورکر کے ہاتھ میں نہیں پکڑا دیا جاتا کہ اسے اپنی عقل کی مطابق سمجھے اور پلانٹ کو چلائے اگر ایسا ہے تو ورکر ز میں باہمی اختلاف ہوگا ۔اور ہر ایک اپنے مرضی چلائے گا تو پلانٹ کا ستیاناس ہو جائیگا ۔

اللہ تعالی ٰ نے اس کارخانہ حیات کو چلانے کے لئے وقتافوقتاَ انجینئر ز اور ان کے ہاتھوں مینول بھیجے۔ان 

انجینئر وں نے لوگوں کو دنیا کا کارخانہ چلانے کا طریقہ بتایا۔جن لوگوں نے انجینئر کی ہدایت کے مطابق دنیا وی زندگی گذاری وہ خود اپنے دنیا وآخرت بنانے اور دنیا وی معاملات سنوارنے میں کامیاب ہوگئے۔جن لوگوں نے مینول میں اپنی مرضی چلائی اور انجینئرز کی ہدایت پر عمل نہیں کیا انھوں نے خود کو بھی برباد کیا اور دنیا کو بھی مشکلات و مسائل میں مبتلا کیا ۔ 

قرآ ن میں واضح طور پر نبی اکر صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع وپیروی کاحکم دیا ہے ۔مثلا (اے لوگو)اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو (یعنی اسکی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہو ) تو میری پیروی کرو ۔اس کے نتیجے میں تم خود اللہ کے محبوب بن جاؤ گے ۔اللہ تعالی ٰ نے یہ الفاظ اپنے نبی ﷺسے کہلوائے ہیں ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے ہم نے ہر رسول کو ایک ہی مقصد کے لئے بھیجا ہے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے ۔

ایک اور جگہ ارشاد ہوا ہے کہ نبی جو کچھ تمہیں دے اسے قبول کرلو اور جس بات سے منع کرے اس سے رک جاؤ۔

اقام الصلوٰۃ کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا صلوٰۃ اس طرح ادا کرو جس طرح مجھے ادا کرتے دیکھتے ہو ۔اس حکم کی تشریح میں تمام محدثین نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کی تفصیلات لکھی ہیں ایک جگہ ارشاد ہے جس نے رسول کی پیروی کی اس نے اللہ کے پیروی کی ۔ منکرین حدیث کی بات مان لی جائے اور قرآن کی تشریح کی بجائے انہی کے عقل کی مطابق ہو تودین کی پوری عمارت ہی ڈھ جائی گی۔
پھر کو ئی شخص نماز اداکر سکے گا نہ روزے رکھ سکے گا ،نہ حج کرسکے گا،نہ زکوۃ دے سکے گا ۔نہ دنیا کا کو ئی اور کام ڈھنگ سے کرسکے گا کیوں کہ اسلام ایک مکمل دین ہے ۔جس میں انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے بارے میں قرآن میں ہدایات دی گئی ہیں ۔اور نبی کریم کو قرآن کا معلم بناکر بھیجا گیا ، بلکہ مجسم قرآن بناکر بھیجا گیا ہے ۔ جب کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی ٰ عنہا نے اس دریافت کے جواب میں کہ اماں جان ہمیں اپنے نبی کے زندگی کے باری بتلائے کہ آپ نے کس طرح زندگی گذاری تو ام المومنین نے کیا جواب دیاتھا ۔ آپ کی تمام عادات قرآن کے سانچے میں ڈھلی ہوئی تھیں ۔خود قرآن میں ہے کہ بیشک اللہ کے رسول کی زندگی تمہارے لئے زندگی گذارنے کی بہترین مثال ہے ۔
اب اگر کو ئی شخص شیطان کے بہکا وے میں آکرمعلم قرآن اور قرآن مجسم کی ذات کو دین سے خارج کرکے لغت(ڈکشنری) سے قرآن کے معنیٰ متعین کرتا ہے ۔اوراس تمام معتبر ترین زریعہ معلومات کاانکارکر دیتا ہے جس کے صحیح ہونے پر ہر دور کے علماء نے اعتبار کرکے اسے پورے اعتماد سے آگے بڑھایا ہے ۔اور جس کی مطابق دنیا ئے اسلام میں آج تک مخلصین اسلام عمل کررہے ہیں ۔تو اس شخص کی گمراہی پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے ۔پھر اگر وہ شخص دین کا شارح اور مبلغ بن کر اپنے گمراہ کن خیالات دوسروں تک پہنچاتا ہے تو دوسروں کے گناہ بھی اپنے کھاتے میں لکھواتا ہے یہ پمفلیٹ تقسیم کرنے والے کے کیفیت بھی یہی ہے کہ نئی نسل کو وہ عبادت ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے اور ہدایات کے مطابق ادا کرنے سے روکتاہے ۔جس پر پورے دین کی عمارت کھڑی ہے ۔
حدیث: نماز دین کا بنیادی ستون (پلیٹ فارم ) ہے جو اس ستون کو مضبوط رکھے گا یعنی نماز قائم کریگا وہ پوری عمارت کو مضبوط کریگا ۔اور جو اسے کمزور کرے گا وہ پوری عمارت کو گرا دے گا ۔ حضور نے نماز کے ادائیگی کے بارے فرمایا صلوٰۃ / نماز اس طرح ادا کرو جس طرح مجھے ادا کرتے دیکھتے ہو ۔ پھر آپ کے طریقے کے خلاف کسی کوصلوٰۃ ادا کرتے دیکھا تو اس کی اصلاح کی ۔یہ تمام باتیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ نماز ایک مخصوص عبادت کا نام ہے نہ کہ کسی نظام معیشت یا منکر حدیث پرویز کے الفاظ میں نظام ابوبیت کا یعنی لوگوں کی معاشی ضرورت کی کفالت ایک علیحدہ چیز ہے ۔جس کے بارے علیحدہ تفصیلی ہدایات قرآن میں دی گئی ہیں ۔ان دنوں چیزوں گوگڈمڈ کرکے سوائے جہالت اور گمراہی اور خود کو نبی کی جگہ سمجھنے کے علاوہ کچھ اور نہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واضح طور پر ارشاد ہے کہ جس نے من مانے طریقے سے قرآن کے کسی بھی آیت کی تفسیرکی اس نے اپنا ٹھکانا جہنم بنالیا۔
پمفلیٹ لکھنے والے کو ذرا بھی خداکاخوف ہے تو اس حدیث کا علم ہونے کے بعد اسے اپنی عاقبت کی فکر کرنی چاہئے اور اپنے یا کسی اور کے من مانے طریقے کی تفسیر آیات سے پرہیز کرنا چاہئے ۔
آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالی ٰ ہمیں سیدھاراستہ اختیار کرنے کی توفیق عطافرمائے جو اس کے سچے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ ہے ۔آمین 
پمفلیٹ کے آخر ی صفحے پر جو 10نکات درج ہیں ان سب کا ایک ہی جواب ہے جو قبل ازدرج کیا گیا ہے کہ" نماز اس طرح ادا کر وجس طرح ادا کرتے ہوئے مجھے دیکھتے ہو" اس حدیث کی صداقت کا یقینی ثبوت یہ ہے کہ۱۳/۱۴ سو سال سے اس کے مطابق پوری دنیا میں عمل ہورہا ہے قرآن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلم کتاب کہاگیا ہے ۔یعنی کتاب میں درج احکام سکھانے والا۔



۸ کا جواب یہ ہے کہ آل کے معنیٰ متبعین یعنی امت ہیں۔ 

اور تین کا جواب یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے مظالم کے دور میں بنی اسرائیل کے گھروں کو سجدہ گا ہ بنا دیا تھا جس کے معنیٰ یہ ہیں کہ انہیں مساجد بنانے سے منع کرنا نہ کہ گھروں کو مسجد بنایا گیا ۔

Comments