کلام نبویؐ کی کرنیں
مولانا عبدالمالک
حضرت
ابوذرؓ سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یارسولؐ اللہ!
مجھے کسی ایسے عمل کی رہنمائی فرمایئے جس پر عمل کر کے ایک بندہ سیدھا جنت میں
داخل ہوجائے۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ پر ایمان لے آئے۔ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ!
ایمان کے ساتھ کوئی عمل بھی بتلا دیجیے۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اسے جو رزق
دیا ہے اس میں سے کچھ دوسروں کو بھی دیا کرے۔ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! اگر
وہ فقیر ہو، اس کے پاس کچھ نہ ہو، تو آپؐ نے فرمایا: اپنی زبان سے بھلی بات کہے۔
میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ!اگر وہ زبان کے ذریعے مافی الضمیر ادا کرنے سے عاجز
ہو تو پھر کیا کرے؟ آپؐ نے فرمایا: وہ بے بس آدمی کی اعانت کرے۔ میں نے عرض کیا:
یارسولؐ اللہ! اگر وہ ضعیف ہو، قدرت نہ رکھتا ہو، تو آپؐ نے فرمایا: اس کے لیے کام
کرے جو کام کو نہیں جانتا۔ میں نے عرض کیا: اگر وہ خود بھی کوئی کام نہ جانتا ہو،
تو اس پر آپؐ نے فرمایا: تم کیا چاہتے ہو؟ تم یہ چاہتے ہو کہ تمھارے دوست کے پاس
کسی قسم کی بھلائی نہ ہو، اس کے پاس مذکورہ چیزیں نہ ہوں، تو کم از کم وہ لوگوں کو
کوئی تکلیف نہ دے۔ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! یہ سارے کام تو آسان ہیں (یعنی
جس آدمی کے پاس ان کاموں کو کرنے کی قدرت ہے اس کے لیے تو یہ کام معمولی ہیں،
بالکل آسان ہیں)۔ پھر ان تھوڑے سے کاموں کی بنا پر وہ جنت میں چلاجائے گا؟ اس پر ر
سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان
ہے، جو آدمی بھی ان خصلتوں میں سے کسی ایک خصلت کو اللہ تعالیٰ سے ثواب حاصل کرنے
کی نیت سے کرے گا، مَیں قیامت کے روز اسے اپنے ہاتھ سے پکڑ کر سیدھا جنت میں داخل
کروں گا۔ (ابن حبان)
ایک مومن
کا پہلا کام تو اپنے ایمان کو زندہ اور قوی کرنا ہے۔ ایمان قوی ہوگا تو پھر اس کے
لیے سارے کام آسان ہوجائیں گے۔ اگر جسمانی عوارض کی وجہ سے وہ ایسا کام نہ کرسکے
جس کے لیے جسمانی قوت کی ضرورت ہے تو کوئی دوسرا کام کرے جس کی قوت رکھتا ہو۔ اگر
کوئی مثبت کام اور خدمت کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو تو کم از کم اتنا تو کرسکتا ہے
کہ لوگوں کو تکلیف نہ دے اور اس کام کے ذریعے اللہ کی رضا حاصل کرنے کی نیت کرے۔
اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر یہ چھوٹا کام بھی چھوٹا نہ رہے گا بڑا شمار ہوگا، جس
نے ساری زندگی اس صفت کو اپنائے رکھا وہ نیکیوں کا ایک بڑا ذخیرہ جمع کرلے گا۔
اللہ تعالیٰ کے نبیؐ کا وہ محبوب ہوگا کہ اپنے ایمان کو بھی مضبوط کیا اور خلقِ
خدا کو کوئی تکلیف بھی نہ دی۔ کمالِ ایمان کی بدولت وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کی
نعمت سے بھی سرفراز ہوا اور خلقِ خدا کی خیرخواہی اور اس کو اذیت سے بچانے کے سبب
بھی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا۔ پھر جو آدمی خود خلقِ خدا کو اذیت سے بچاتا ہے
وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ کوئی دوسرا بھی کسی کو تکلیف نہ پہنچائے۔ اسے اس کی اس نیت
کا ثواب بھی ملتا ہے۔ تب وہ جنت کا ہرپہلو سے مستحق ہوجاتا ہے۔ یہ حدیث ایک طرف
اللہ تعالیٰ کے بے پناہ فضل و کرم کا نمونہ پیش کرتی ہے اور دوسری طرف بندوں کو
بندگی کا حوصلہ اور ہمت بھی دیتی ہے کہ وہ جس حال میں بھی ہوں اللہ تعالیٰ کی
بندگی کی کسی نہ کسی صورت کو عملی جامہ پہناکر جنت میں جاسکتے ہیں اور دنیا میں
معاشرے کے لیے باعث خیروبرکت کا پیش خیمہ ہوسکتے ہیں۔
Comments
Post a Comment