Mission statement By Prof Dr Sohail Ansari& Gender studies
My mercy
embraces all Things – Quran 7:156
‘
Mission statement of a state
· Pakistan as
an ideological Islamic state is committed to cleanse its citizens of hedonistic
tendencies; therefore every possible measure will be taken to help each citizen
have a life of self-denial and sacrifice with stoical endurance. Policies of
state will ensure that each man in a state ekes out a meager existence because
people on poverty line are more inclined to God than those lost in worldly
joys.
Gender studies is a
field for interdisciplinary study devoted to gender identity
and gendered representation as central categories of analysis. This field
includes women's studies (concerning women, feminism, gender,
and politics), men's studies and queer studies.
Gender studies is
a field for interdisciplinary study devoted to gender identity and
gendered representationas central categories of
analysis. This field includes women's studies (concerning women, feminism,
gender, and politics), men's studies and queer studies.[1]Sometimes,
gender studies is offered together with study of sexuality.
These disciplines study gender and
sexuality in the fields of literature,
language, geography, history, political
science, sociology, anthropology, cinema, media studies,[2] human
development, law, and medicine.[3]It
also analyzes how race, ethnicity, location, class, nationality,
and disability intersect
with the categories of gender and sexuality.[4][5]
Regarding gender, Simone de Beauvoir said: "One is not
born a woman, one becomes one."[6] This
view proposes that in gender studies, the term "gender" should be
used to refer to the social and cultural constructions of
masculinities and femininities and not to the state of being male or female in
its entirety.[7] However,
this view is not held by all gender theorists. Beauvoir's is a view that many
sociologists support (see Sociology of gender), though there are many
other contributors to the field of gender studies with different backgrounds
and opposing views, such as psychoanalyst Jacques Lacan and feminists such as Judith Butler.
Gender is pertinent to many
disciplines, such as literary theory,
drama studies, film theory, performance
theory, contemporary art history,
anthropology, sociology, sociolinguistics and psychology.
However, these disciplines sometimes differ in their approaches to how and why
gender is studied. For instance in anthropology, sociology and psychology,
gender is often studied as a practice, whereas in cultural studies
representations of gender are more often examined. In politics, gender can be
viewed as a foundational discourse that political actors employ in order to
position themselves on a variety of issues.[8] Gender
studies is also a discipline in itself, incorporating methods and approaches
from a wide range of disciplines.[9]
Each field came to regard
"gender" as a practice, sometimes referred to as something that
is performative.[10] Feminist theory of psychoanalysis,
articulated mainly by Julia Kristeva[11] (the
"semiotic" and "abjection") and Bracha L. Ettinger[12] (the
feminine-prematernal-maternal matrixial Eros of borderlinking and com-passion,[13] "matrixial
trans-subjectivity" and the "primal mother-phantasies"),[14] and
informed both by Freud, Lacan and the object relations theory, is very
influential in gender studies.
Gender can also be broken into
three categories, gender identity, gender expression, and biological sex, as
Sam Killermann explains in his Ted X Talk at the University of Chicago.[15] These
three categories are another way of breaking down gender into the different
social, biological, and cultural constructions. These constructions focus on
how femininity and masculinity are fluid entities and how their meaning is able
to fluctuate depending on the various constraints surrounding them.
Below is a brief passage. I have highlighted lines for
you to think about
اس اخلاقی خلا کا ذمہ دار کون ہے ؟والدین ، اساتذہ ، وزرات تعلیم سے وابستہ ہر ہر فرد ، اسکول کے نظام کو چلانے والا ہر بابو، ملک کا ہر وزیر اعظم ، ملک کا ہر صدر جو اپنا حلف اٹھاتے وقت اس ملک میں قرآن و سنت کے نفاذ کا عہد کرتا ہے اور ہر وہ صحافی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے کر کالم تو لکھتا ہے، لیکن اس مسئلے کے حل کے لیے حیاتِ مبار کہ کی روشنی میں کوئی حل تجویز نہیں کرتا۔
حل اگر کوئی ہے تو وہ صرف آپؐ کے اسوہ میں، آپؐ کے دامن محبت میں، آپ ؐ کے گوشۂ عافیت میں اور آپؐ کے عفو و درگزر کرنے والے کردار میں ہے۔ آپؐ کے ان دشمنوں کو جنھوں نے پتھر برسائے، پھولوں سے نوازنے میں ہے ۔ جب تک وہ اخلاق جو قرآن کریم کے مکمل ترجمے کے ساتھ مطالعے اور مطالعۂ سیرت پاکؐ کے مکمل طور پر جسم میں خون بن کر گردش کرنے کی شکل میں نہ ہو جائے، یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ اس کا حل صرف اور صرف ہدایت کے ان دو میناروں سے وابستگی میں ہے۔ جب تک ہر ہر پاکستانی بچہ اور بچی قرآن کریم کو اوّل تا آخر ترجمے کے ساتھ (وہ ترجمہ جو تمام مسالک میںمتفقہ ہے اور ریڈیو پاکستان سے نشر ہوتا ہے، مثلاً مولانا فتح محمد جالندھری کا ترجمۂ قرآن)سمجھ کر نہ پڑھ لے، اور سیر ت پاک کی کم از کم ایک مشہور کتاب (مثلاً محمد سلمان منصور پوری کی رحمتہً للعِلمین) کا مطالعہ نہ کرلے۔ اس وقت تک وہ ذہن نہیں بن سکتا، جو اپنے جذبات و تاثرات کو تحمل کے دائرے میں رکھتے ہوئے ایک پُرامن مسلمان پاکستانی شہری بن سکے۔
٭ معاشرتی استحصال: جس معاشرے میں ظلم و استحصال ، صوبہ پرستی ، فرقہ پرستی ، برادری پرستی ، زبان پرستی، غرض شرک کی وہ بے شمار شکلیں جنھیں قرآن و سنت سے رد کیا گیا ہے ، موجود ہوںگی،نوجوانوں میں فطری طورپر رد عمل پیدا ہو گا اور استحصالی نظام میں جتنا اضافہ ہوگا، وہ غیردستوری اور غیر قانونی ذرائع استعمال کرنے پر بآسانی آمادہ کر لیے جائیں گے۔اس منفی رد عمل کا علاج سخت سزائیں اور جرمانے نہیں نظام عدل کا قیام ہے، جو قرآن و سنت کا ایک اہم مطالبہ ہے۔ جن معاشروں کو ہمارے بعض دانش وَر مثال بنا کر پیش کرتے ہیں ، ان میں بھی جہاں کہیں ظلم پایا جاتا ہے، وہاں بھی قتل، چوری، ڈکیتی، عزت پر حملے اور بوڑھوں کے ساتھ ظلم کم نہیں ہوتاہے۔ وہ امریکا ہو یا یورپ، کہیں بھی جا کر دیکھ لیں ، جرائم کے ارتکاب میں زیادہ تر وہ لوگ ملوث ہیں جو استحصال کا شکار ہیں ، اور جن کا مذہب کے ساتھ تعلق بہت کمزور ہے ۔ شکاگو ، لاس اینجلس اور نیویارک میں فی گھنٹہ جرائم کے ارتکاب کاتناسب پاکستان سے کئی گنا زیادہ ہے ۔ اگرچہ وہاں کوئی ٹی وی ہر ہر واقعے کو ’خبر توڑ‘ سرخی کی شکل میں بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کرتا ۔ ہمارے دانش ور ہماری صدیوں کی ذہنی مرعوبیت کے سبب یہ سمجھتے ہیں کہ یورپ اور امریکا وغیرہ میں سُکھ چین ہی ہے اور نوجوان اس معاشرے کو جنت سمجھتے ہوئے وہاں کی شہریت کے لیے بے تاب رہتے ہیں، لیکن زمینی حقائق بالکل مختلف ہیں۔ ان کو وہی آنکھ دیکھ سکتی ہے جسے حق کی جستجو ہو ، جو سیاسی آزادی ملنے کے بعد نوآبادیاتی نظام کی ذہنی و فکری غلام نہ ہو۔
معاشرتی عدل کا فقدان وہ اہم سبب ہے جو معاشرے میں انتہا پسندی ااور تشدد کا رجحان پیدا کرتا ہے ۔ جو معاشرہ بھی طبقاتی تقسیم پر قائم ہو تا ہے، اس میںانتقام اور ظالم سے بدلہ لینے کی خواہش کسی نہ کسی وقت ضرور ابھرتی ہے۔ پاکستان میں جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام ظلم، جبر اور محنت کش کے ساتھ ناانصافی کے سبب معاشرے میں محرومی ، ناامیدی اور نفرت و انتقام کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ ایسے معاشرے میں انتہا پسندی اگر نہ ہوتوحیرت کی بات ہے۔ ایک شخص جو ہزاروں اور سیکڑوں ایکڑ زمین کا مالک ہو ، جو پجیرو یا مرسیڈیز سے کم کسی کار پر سفر کرنا اپنی بے عزتی سمجھتا ہو، اور دوسری جانب سیکڑوں مفلوک الحال افرادہوں، جو اس کے زیر تسلط بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محروم ہوں، تو رد عمل کا پایا جانا فطری امر ہے۔ وہ مظلوم جس کو حق سے محروم کیا گیا ہے ، وہ کسی بھی تبدیلی لانے کے وعدے کے زیر اثر غیر قانونی اور غیر دستوری ذرائع کو اپنے لیے حلال سمجھ لے گا یا اسے سمجھا دیا جائے گا۔ جب معاشرے میں کثرت ایسے افراد کی ہو جائے تو شدت پسندی اور غیر دستوری ذرائع سے اقتدار حاصل کرنے کی خواہش بآسانی پیدا کی جاسکتی ہے۔
٭ انسانی حقوق کی پامالی : اسلام انسانی حقوق کا علم بردار بن کر اس وقت آیا جب دنیا انسانی حقوق کی عظمت کو فراموش کر چکی تھی اور یورپ اور امریکا تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اسلام نے حقوق انسانی کو محض ایک قرارداد کی شکل نہیں دی بلکہ قانون کا درجہ دیتے ہوئے حقوق و فرائض میں شامل کیا ۔دوسری جانب تقریباً ہزار سال بعد یورپ اور امریکا نے عالمی جنگ کے تناظر میں صرف قراداد کی حد تک ، جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ، انسانی حقوق پر ایک دستاویز ’جمعیت اقوام‘ میں منظور کی،جو آج تک عالمی مسائل بشمول انتہا پسندی کے حل میں ناکام رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض مسلمان جو نہ اپنے دین کو سمجھتے ہوں ، نہ قرآن کامطالعہ کریں ، نہ سنت مطہرہ سے واقفیت حاصل کریں اور جو ذاتی مفاد کے حصول کے لیے دوسرے انسانوں، خصوصیت سے کمزور طبقات کے حقوق پامال کریں، تو ان کے سیاسی و سماجی کردار کی ذمہ داری نہ کتابِ ہدایت پر ہے اور نہ کتابِ دستور پر اور نہ دین و ریاست کے تعلق پر___ اس کی ذمہ داری مؤثر نظام تربیت کے فقدان کے ساتھ ظلم پر مبنی اجتماعی نظام اور مفاد پرستی سے عبارت اُس طرزِ حکمرانی پر ہے جو ملک و قوم پر مسلط ہے۔
Comments
Post a Comment