Altruistic abstinence & exercise for the students of SBBU
(And the slaves of the Most Beneficent (Allah) are those who walk on
the earth in humility and sedateness, and when the foolish address them (with
bad words) they reply back with mild words of gentleness.) Quran 25:63
Altruistic
abstinence
·
Politician is so tuned in to public opinion that he does not
even know his own opinion. BY Prof DR Sohail ansari
Exercise
Brainy quotes
·
There is no love
without forgiveness, and there is no forgiveness without love. Bryant H. McGill
(Use ‘without’ in making the quote on your own)
(Use ‘without’ in making the quote on your own)
·
Until you have a
son of your own... you will never know the joy, the love beyond feeling that
resonates in the heart of a father as he looks upon his son. Kent Nerburn
(Use ‘love beyond
feeling’ in the quote of your own)
Below is a brief passage. I have highlighted lines for
you to think about
اصل مسئلہ ہماری نگاہ میں نہ صرف پورے ملک بلکہ ہر طبقۂ خیال میں انتہا پسندی کا پایا جانا
ہے ۔ جس کے اسباب کا تعین کرنا ہوگا اور ان اسباب کو دور کر کے مسئلے کا حل اسلام اور عدل کے دائرے میں رہتے ہوئے نکالنا ہو گا۔ اب ہم اس تناظرمیں مختصراًاس انتہا پسند ذہنیت کے عمومی محرکات و اسباب کا ایک جائزہ لینے کی کوشش کریں گے، جس کی گرفت میں آج معاشرہ آچکا ہے۔
انتہا پسندانہ ذہنیت کے محرکات و اسباب
انتہاپسندی پر ابھارنے
والے عوامل یوں تو بہت ہیں، لیکن ذیل میں صرف زیادہ اہم عوامل کا اختصار کے ساتھ
تذکرہ کیا جارہاہے، جو تعلیم گاہوں اور معاشرے میں اس رجحان اور رویے کے بڑھنے کے
پیچھے پائے جاتے ہیں۔ ان میں ایک منطقی ترتیب بھی پائی جاتی ہے۔
٭ مروت و مقصد سے خالی تعلیم :تعلیم کا بنیادی مقصد تربیت اخلاق، یعنی طرز عمل ، طرز حیات ، طرزِ فکر اور رویے کو اخلاقی اقدار کے ساتھ ہم آہنگ کرنا اور عملی مثال پیش کرنے کے ذریعے غیر محسوس طور پر رویوں کو تبدیل کرنا ہوتا ہے۔ بہترین تعلیم زبان کے بجاے اپنے عمل سے دی جاتی ہے ۔ اگر ایک استاد طالب علم کے ساتھ نرمی ، توجہ، اور کسی بھی مالی فائدے سے بے نیاز ہوکر رہنمائی فراہم کرتا ہے تو طالب علم میں بھی بے غرضی ، طلب علم و تحقیق ، تنقیدی فکر اور جذبۂ عمل پیدا ہوتا ہے ۔ اسی طرح والدین اگر اپنے بچّوں کو پیدا ہونے کے بعد شخصیت کے تعمیری دور، (یعنی اولین چار سال) پنگوڑے سے لے کر پاؤں پاؤں چلنے کی عمر تک مسلسل ٹی وی سکرین پر آنے والے کارٹونوں میں مصروف رکھتے ہیں تو بچے کے ذہن پر یہ اوّلین تاثرات ہی اس کے آیندہ طرزِ عمل کو متعین کرتے ہیں ۔ اس کے بولنے ، ہنسنے ، لوگوں کو تنگ کرنے کے انداز اور خاص طور پر کارٹونوں کے کرداروں سے بے رحمی ، چالاکی اور دوسروںکو تکلیف پہنچا کر خوش ہونے کی عادت فروغ پاتی ہے۔ آپ کسی بھی سلسلہ وار کارٹون کا جائزہ لیں تو یہ بات عیاں ہو جائے گی کہ کارٹون کے کردار رحم دلی ، نرمی ، محبت، خاکساری کی جگہ دوسروںکو چکر دے دے کر بے قوف بنانا اور تکلیف پہنچاکر خوش ہونا سکھاتے ہیں ۔تشدد کی یہ اوّلین تربیت اکثروالدین تعمیر شخصیت کے پہلے چار سال میں اپنی اولاد کو دینے کے بعد کسی پری سکول میں ڈال دیتے ہیں، جہاں بچہ اپنی حقیقی ماں کی ہمہ وقت محبت ، توجہ اور فکر سے محروم، فی گھنٹہ اُجرت پر کام کرنے والی ایک نگران خاتون کے رحم و کرم پر ہوتا ہے ۔کیا ا س طرح بچہ کسی مقصد زندگی ، کسی اخلاقی طرزِ عمل ، کسی قربانی کے جذبے یا کسی احترام و محبت کے تصور سے آگاہ ہو سکتا ہے ؟ جس نے پیدا ہو کر ماں کی محبت کا مزا نہ چکھا ہو، کیا وہ دوسروں کے ساتھ امن، رحم دلی،محبت اور بے لوثی سے پیش آسکتا ہے ؟ کیا وہ بڑا ہوکر امن پسند بن سکتا ہے؟ کیااس کا دین کا علم، قومی زبان پر عبور اور اسلامی تہذیبی روایت سے واقفیت اس درجے کی ہوسکتی ہے کہ وہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے والا صالح، صابر ، مستقل مزاج نوجوان بن سکے؟
٭ اخلاقی مفلسی اور قرآن و سنّت سے لاعلمی :اس سے منطقی طور پر وابستہ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سکول یا کالج یا بعد میں یونی ورسٹی جانے والا طالب علم، اس پورے عرصے میں کبھی کسی ایسے اخلاقی نظام سے گزرتا ہے جس میں قرآن کریم جس پر اس ملک کی ۹۷ فی صد آبادی ایمان رکھتی ہے، اور حیاتِ طیبہؐ جس کے لیے ہر مسلمان چاہے وہ کبھی عید کی نماز تک نہ پڑھتا ہو ، جان دینے بلکہ جان لینے کے لیے تیار رہتا ہے ، کیا علم وتربیت کے ان دو اصل اور ابدی گہواروں سے اس کی کوئی واقفیت ہوتی ہے ؟کیا اس نے یا اس کے اسلامیات پڑھانے والے اساتذہ نے زندگی میں صرف ایک مرتبہ ہی قرآن کریم کا اوّل تاآخر ترجمے کے ساتھ مطالعہ کیا ہوتا ہے؟ اور کیا کبھی اسے یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ بلاشبہہ یہ کتاب، جہاد کو سب سے افضل عمل قرار دیتی ہے۔ کیا اسے جہاد کے مجموعی تصور سے کبھی آگاہ کیا گیا کہ اس کا مقصد انسانوں کو ان کے چھینے گئے حقوق واپس دلانا ہے، انھیں ظلم سے نجات دلانا ہے ، فتنہ وفساد کو دُور کرنا ہے، اور اللہ کی زمین پر عدل ، ہمدردی اور محبت کا ماحول پروان چڑھانا ہے ۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں جہاد کا حکم دیا ہے، وہیں اس کے فی سبیل اللہ ہونے کی شرط بھی لگائی ہے اور وضاحت کے ساتھ اس کے مقاصد، اسلوب اور آداب کو بھی تفصیل سے بیان فرما دیا ہے۔ نیز یہ رہنمائی بھی فراہم کردی ہے کہ بحیثیت مجموعی مسلمان فرد اور قوم کے لیے زندگی کی ترجیحات کیا ہیں اور ان کے درمیان ہم آہنگی کا قیام بھی ضروری ہے۔ ہمارے تعلیم و تربیت کے نظام نے کیا ان تمام پہلوئوں سے ہماری نئی نسلوں کو آشنا کیا ہے؟ کیا ہماری نوجوان نسل کو کسی نے بتایا کہ قرآن کریم کی غالب تعلیمات کا تعلق معاملات، معاشرت ، حقوق و فرائض کی تعلیم اوراحکام سے ہے ، جب کہ تعزیری اور قانونی آیات انتہائی محدود ہیں؟ کیا انھیں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کے ہر دور میں تفصیلی طور پر تجزیے کے ساتھ یہ سمجھایا گیا کہ آپؐ تمام جہانوں کے لیے کس طرح رحمت ہیں ؟
یہ ہے وہ اخلاقی افلاس،جس کی موجودگی میں اگر وہ بچہ یا بچی سائنسی یا سماجی مضمون میں ایک نہیں تین ڈاکٹریٹ بھی کر لے ، تب بھی اس میں اخلاق ، محبت ، عدل ، تواضع ، انکسار ، سچائی ، امانت، دیانت ، قیادت، کبھی پیدا نہیں ہو سکتی۔ وہ ہوا کے ساتھ اپنا رخ بدلتا رہے گا اور مرغ باد نما بن کر سیاسی اور مادی فائدوں کا بندہ بن کر اپنے آپ کو کامیاب بندہ سمجھے گا۔ اس صورت حال میں وہ کیوں نہ دہشت گرد بنے؟ کیوں نہ ا س میں شدت پرستی آئے؟ جب اسے کوئی مثبت نمو نہ اور وہ نمونہ جسے قرآن خود ’خلق عظیم‘کہتا ہے، کبھی واقفیت ہوئی، نہ اس نے کبھی شعوری طور پر اس عظیم ترین ہستی ، جن پر میرے ماں باپ فدا ہوں،سے فکری ملاقات کی ہو، نہ ان کے عظیم طرزِ عمل سے چند پھول چنے ہوں، اسے تو لازماً دہشت گرد اور شدت پسند ہی بننا چاہیے ،پھر شکوہ کس بات کا !
اس اخلاقی خلا کا ذمہ دار کون ہے ؟والدین ، اساتذہ ، وزرات تعلیم سے وابستہ ہر ہر فرد ، اسکول کے نظام کو چلانے والا ہر بابو، ملک کا ہر وزیر اعظم ، ملک کا ہر صدر جو اپنا حلف اٹھاتے وقت اس ملک میں قرآن و سنت کے نفاذ کا عہد کرتا ہے اور ہر وہ صحافی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے کر کالم تو لکھتا ہے، لیکن اس مسئلے کے حل کے لیے حیاتِ مبار کہ کی روشنی میں کوئی حل تجویز نہیں کرتا۔
حل اگر کوئی ہے تو وہ صرف آپؐ کے اسوہ میں، آپؐ کے دامن محبت میں، آپ ؐ کے گوشۂ عافیت میں اور آپؐ کے عفو و درگزر کرنے والے کردار میں ہے۔ آپؐ کے ان دشمنوں کو جنھوں نے پتھر برسائے، پھولوں سے نوازنے میں ہے ۔ جب تک وہ اخلاق جو قرآن کریم کے مکمل ترجمے کے ساتھ مطالعے اور مطالعۂ سیرت پاکؐ کے مکمل طور پر جسم میں خون بن کر گردش کرنے کی شکل میں نہ ہو جائے، یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ اس کا حل صرف اور صرف ہدایت کے ان دو میناروں سے وابستگی میں ہے۔ جب تک ہر ہر پاکستانی بچہ اور بچی قرآن کریم کو اوّل تا آخر ترجمے کے ساتھ (وہ ترجمہ جو تمام مسالک میںمتفقہ ہے اور ریڈیو پاکستان سے نشر ہوتا ہے، مثلاً مولانا فتح محمد جالندھری کا ترجمۂ قرآن)سمجھ کر نہ پڑھ لے، اور سیر ت پاک کی کم از کم ایک مشہور کتاب (مثلاً محمد سلمان منصور پوری کی رحمتہً للعِلمین) کا مطالعہ نہ کرلے۔ اس وقت تک وہ ذہن نہیں بن سکتا، جو اپنے جذبات و تاثرات کو تحمل کے دائرے میں رکھتے ہوئے ایک پُرامن مسلمان پاکستانی شہری بن سکے۔
٭ معاشرتی استحصال: جس معاشرے میں ظلم و استحصال ، صوبہ پرستی ، فرقہ پرستی ، برادری پرستی ، زبان پرستی، غرض شرک کی وہ بے شمار شکلیں جنھیں قرآن و سنت سے رد کیا گیا ہے ، موجود ہوںگی،نوجوانوں میں فطری طورپر رد عمل پیدا ہو گا اور استحصالی نظام میں جتنا اضافہ ہوگا، وہ غیردستوری اور غیر قانونی ذرائع استعمال کرنے پر بآسانی آمادہ کر لیے جائیں گے۔اس منفی رد عمل کا علاج سخت سزائیں اور جرمانے نہیں نظام عدل کا قیام ہے، جو قرآن و سنت کا ایک اہم مطالبہ ہے۔ جن معاشروں کو ہمارے بعض دانش وَر مثال بنا کر پیش کرتے ہیں ، ان میں بھی جہاں کہیں ظلم پایا جاتا ہے، وہاں بھی قتل، چوری، ڈکیتی، عزت پر حملے اور بوڑھوں کے ساتھ ظلم کم نہیں ہوتاہے۔ وہ امریکا ہو یا یورپ، کہیں بھی جا کر دیکھ لیں ، جرائم کے ارتکاب میں زیادہ تر وہ لوگ ملوث ہیں جو استحصال کا شکار ہیں ، اور جن کا مذہب کے ساتھ تعلق بہت کمزور ہے ۔ شکاگو ، لاس اینجلس اور نیویارک میں فی گھنٹہ جرائم کے ارتکاب کاتناسب پاکستان سے کئی گنا زیادہ ہے ۔ اگرچہ وہاں کوئی ٹی وی ہر ہر واقعے کو ’خبر توڑ‘ سرخی کی شکل میں بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کرتا ۔ ہمارے دانش ور ہماری صدیوں کی ذہنی مرعوبیت کے سبب یہ سمجھتے ہیں کہ یورپ اور امریکا وغیرہ میں سُکھ چین ہی ہے اور نوجوان اس معاشرے کو جنت سمجھتے ہوئے وہاں کی شہریت کے لیے بے تاب رہتے ہیں، لیکن زمینی حقائق بالکل مختلف ہیں۔ ان کو وہی آنکھ دیکھ سکتی ہے جسے حق کی جستجو ہو ، جو سیاسی آزادی ملنے کے بعد نوآبادیاتی نظام کی ذہنی و فکری غلام نہ ہو۔
معاشرتی عدل کا فقدان وہ اہم سبب ہے جو معاشرے میں انتہا پسندی ااور تشدد کا رجحان پیدا کرتا ہے ۔ جو معاشرہ بھی طبقاتی تقسیم پر قائم ہو تا ہے، اس میںانتقام اور ظالم سے بدلہ لینے کی خواہش کسی نہ کسی وقت ضرور ابھرتی ہے۔ پاکستان میں جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام ظلم، جبر اور محنت کش کے ساتھ ناانصافی کے سبب معاشرے میں محرومی ، ناامیدی اور نفرت و انتقام کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ ایسے معاشرے میں انتہا پسندی اگر نہ ہوتوحیرت کی بات ہے۔ ایک شخص جو ہزاروں اور سیکڑوں ایکڑ زمین کا مالک ہو ، جو پجیرو یا مرسیڈیز سے کم کسی کار پر سفر کرنا اپنی بے عزتی سمجھتا ہو، اور دوسری جانب سیکڑوں مفلوک الحال افرادہوں، جو اس کے زیر تسلط بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محروم ہوں، تو رد عمل کا پایا جانا فطری امر ہے۔ وہ مظلوم جس کو حق سے محروم کیا گیا ہے ، وہ کسی بھی تبدیلی لانے کے وعدے کے زیر اثر غیر قانونی اور غیر دستوری ذرائع کو اپنے لیے حلال سمجھ لے گا یا اسے سمجھا دیا جائے گا۔ جب معاشرے میں کثرت ایسے افراد کی ہو جائے تو شدت پسندی اور غیر دستوری ذرائع سے اقتدار حاصل کرنے کی خواہش بآسانی پیدا کی جاسکتی ہے۔
٭ انسانی حقوق کی پامالی : اسلام انسانی حقوق کا علم بردار بن کر اس وقت آیا جب دنیا انسانی حقوق کی عظمت کو فراموش کر چکی تھی اور یورپ اور امریکا تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اسلام نے حقوق انسانی کو محض ایک قرارداد کی شکل نہیں دی بلکہ قانون کا درجہ دیتے ہوئے حقوق و فرائض میں شامل کیا ۔دوسری جانب تقریباً ہزار سال بعد یورپ اور امریکا نے عالمی جنگ کے تناظر میں صرف قراداد کی حد تک ، جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ، انسانی حقوق پر ایک دستاویز ’جمعیت اقوام‘ میں منظور کی،جو آج تک عالمی مسائل بشمول انتہا پسندی کے حل میں ناکام رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض مسلمان جو نہ اپنے دین کو سمجھتے ہوں ، نہ قرآن کامطالعہ کریں ، نہ سنت مطہرہ سے واقفیت حاصل کریں اور جو ذاتی مفاد کے حصول کے لیے دوسرے انسانوں، خصوصیت سے کمزور طبقات کے حقوق پامال کریں، تو ان کے سیاسی و سماجی کردار کی ذمہ داری نہ کتابِ ہدایت پر ہے اور نہ کتابِ دستور پر اور نہ دین و ریاست کے تعلق پر___ اس کی ذمہ داری مؤثر نظام تربیت کے فقدان کے ساتھ ظلم پر مبنی اجتماعی نظام اور مفاد پرستی سے عبارت اُس طرزِ حکمرانی پر ہے جو ملک و قوم پر مسلط ہے۔
جب کسی معاشرے میں انسانی جان ، مال، عزت اور نسل کا احترام باقی نہیں رہتااور کمزور اور طاقت ور کے لیے دو پیمانے بن جاتے ہیں ، حقوق انسانی کو پامال کیا جاتا ہے تو فطری طور پر ردعمل اور انتقام کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور مظلوم اور استحصال کا شکار فرد ظالم کو نقصان پہنچانے پر آمادہ ہو جاتا ہے ۔دنیا میں جہاں کہیں بھی اس طرح کی صورت حال پائی جاتی ہے ، یکساں نتائج سامنے آتے ہیں۔ظلم اور استحصال کے شکار فرد کو جو ظلم کا شکار رہا ہو ،اپنی جان پر کھیل کر کسی بھی دہشت گردی کے کام کے لیے آمادہ کیا جاسکتا ہے۔زمان و مکان کی قید سے قطع نظر ہمارے اپنے معاشرے میں معاشرتی ظلم کے شکار افراد کثرت سے پائے جاتے ہیں اور نہ صرف وہ بلکہ ایسے نوجوان بھی جو تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملازمتوں کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں، انھیں بآسانی بھاری رقوم کا لالچ دے کر دہشت گردی پر آمادہ کر لیا جاتا ہے ۔ بعض کو جزوی طور پر دینی حوالے سے اس کام پر آمادہ کر لیا جاتا ہے۔ مسئلے کا حل صرف اور صرف اسلامی تصور عدل اور فلاح کا نفاذ ہے ۔ محض قوت کے ذریعے ذہنوں کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا ۔
٭ مروت و مقصد سے خالی تعلیم :تعلیم کا بنیادی مقصد تربیت اخلاق، یعنی طرز عمل ، طرز حیات ، طرزِ فکر اور رویے کو اخلاقی اقدار کے ساتھ ہم آہنگ کرنا اور عملی مثال پیش کرنے کے ذریعے غیر محسوس طور پر رویوں کو تبدیل کرنا ہوتا ہے۔ بہترین تعلیم زبان کے بجاے اپنے عمل سے دی جاتی ہے ۔ اگر ایک استاد طالب علم کے ساتھ نرمی ، توجہ، اور کسی بھی مالی فائدے سے بے نیاز ہوکر رہنمائی فراہم کرتا ہے تو طالب علم میں بھی بے غرضی ، طلب علم و تحقیق ، تنقیدی فکر اور جذبۂ عمل پیدا ہوتا ہے ۔ اسی طرح والدین اگر اپنے بچّوں کو پیدا ہونے کے بعد شخصیت کے تعمیری دور، (یعنی اولین چار سال) پنگوڑے سے لے کر پاؤں پاؤں چلنے کی عمر تک مسلسل ٹی وی سکرین پر آنے والے کارٹونوں میں مصروف رکھتے ہیں تو بچے کے ذہن پر یہ اوّلین تاثرات ہی اس کے آیندہ طرزِ عمل کو متعین کرتے ہیں ۔ اس کے بولنے ، ہنسنے ، لوگوں کو تنگ کرنے کے انداز اور خاص طور پر کارٹونوں کے کرداروں سے بے رحمی ، چالاکی اور دوسروںکو تکلیف پہنچا کر خوش ہونے کی عادت فروغ پاتی ہے۔ آپ کسی بھی سلسلہ وار کارٹون کا جائزہ لیں تو یہ بات عیاں ہو جائے گی کہ کارٹون کے کردار رحم دلی ، نرمی ، محبت، خاکساری کی جگہ دوسروںکو چکر دے دے کر بے قوف بنانا اور تکلیف پہنچاکر خوش ہونا سکھاتے ہیں ۔تشدد کی یہ اوّلین تربیت اکثروالدین تعمیر شخصیت کے پہلے چار سال میں اپنی اولاد کو دینے کے بعد کسی پری سکول میں ڈال دیتے ہیں، جہاں بچہ اپنی حقیقی ماں کی ہمہ وقت محبت ، توجہ اور فکر سے محروم، فی گھنٹہ اُجرت پر کام کرنے والی ایک نگران خاتون کے رحم و کرم پر ہوتا ہے ۔کیا ا س طرح بچہ کسی مقصد زندگی ، کسی اخلاقی طرزِ عمل ، کسی قربانی کے جذبے یا کسی احترام و محبت کے تصور سے آگاہ ہو سکتا ہے ؟ جس نے پیدا ہو کر ماں کی محبت کا مزا نہ چکھا ہو، کیا وہ دوسروں کے ساتھ امن، رحم دلی،محبت اور بے لوثی سے پیش آسکتا ہے ؟ کیا وہ بڑا ہوکر امن پسند بن سکتا ہے؟ کیااس کا دین کا علم، قومی زبان پر عبور اور اسلامی تہذیبی روایت سے واقفیت اس درجے کی ہوسکتی ہے کہ وہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے والا صالح، صابر ، مستقل مزاج نوجوان بن سکے؟
٭ اخلاقی مفلسی اور قرآن و سنّت سے لاعلمی :اس سے منطقی طور پر وابستہ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سکول یا کالج یا بعد میں یونی ورسٹی جانے والا طالب علم، اس پورے عرصے میں کبھی کسی ایسے اخلاقی نظام سے گزرتا ہے جس میں قرآن کریم جس پر اس ملک کی ۹۷ فی صد آبادی ایمان رکھتی ہے، اور حیاتِ طیبہؐ جس کے لیے ہر مسلمان چاہے وہ کبھی عید کی نماز تک نہ پڑھتا ہو ، جان دینے بلکہ جان لینے کے لیے تیار رہتا ہے ، کیا علم وتربیت کے ان دو اصل اور ابدی گہواروں سے اس کی کوئی واقفیت ہوتی ہے ؟کیا اس نے یا اس کے اسلامیات پڑھانے والے اساتذہ نے زندگی میں صرف ایک مرتبہ ہی قرآن کریم کا اوّل تاآخر ترجمے کے ساتھ مطالعہ کیا ہوتا ہے؟ اور کیا کبھی اسے یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ بلاشبہہ یہ کتاب، جہاد کو سب سے افضل عمل قرار دیتی ہے۔ کیا اسے جہاد کے مجموعی تصور سے کبھی آگاہ کیا گیا کہ اس کا مقصد انسانوں کو ان کے چھینے گئے حقوق واپس دلانا ہے، انھیں ظلم سے نجات دلانا ہے ، فتنہ وفساد کو دُور کرنا ہے، اور اللہ کی زمین پر عدل ، ہمدردی اور محبت کا ماحول پروان چڑھانا ہے ۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں جہاد کا حکم دیا ہے، وہیں اس کے فی سبیل اللہ ہونے کی شرط بھی لگائی ہے اور وضاحت کے ساتھ اس کے مقاصد، اسلوب اور آداب کو بھی تفصیل سے بیان فرما دیا ہے۔ نیز یہ رہنمائی بھی فراہم کردی ہے کہ بحیثیت مجموعی مسلمان فرد اور قوم کے لیے زندگی کی ترجیحات کیا ہیں اور ان کے درمیان ہم آہنگی کا قیام بھی ضروری ہے۔ ہمارے تعلیم و تربیت کے نظام نے کیا ان تمام پہلوئوں سے ہماری نئی نسلوں کو آشنا کیا ہے؟ کیا ہماری نوجوان نسل کو کسی نے بتایا کہ قرآن کریم کی غالب تعلیمات کا تعلق معاملات، معاشرت ، حقوق و فرائض کی تعلیم اوراحکام سے ہے ، جب کہ تعزیری اور قانونی آیات انتہائی محدود ہیں؟ کیا انھیں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کے ہر دور میں تفصیلی طور پر تجزیے کے ساتھ یہ سمجھایا گیا کہ آپؐ تمام جہانوں کے لیے کس طرح رحمت ہیں ؟
یہ ہے وہ اخلاقی افلاس،جس کی موجودگی میں اگر وہ بچہ یا بچی سائنسی یا سماجی مضمون میں ایک نہیں تین ڈاکٹریٹ بھی کر لے ، تب بھی اس میں اخلاق ، محبت ، عدل ، تواضع ، انکسار ، سچائی ، امانت، دیانت ، قیادت، کبھی پیدا نہیں ہو سکتی۔ وہ ہوا کے ساتھ اپنا رخ بدلتا رہے گا اور مرغ باد نما بن کر سیاسی اور مادی فائدوں کا بندہ بن کر اپنے آپ کو کامیاب بندہ سمجھے گا۔ اس صورت حال میں وہ کیوں نہ دہشت گرد بنے؟ کیوں نہ ا س میں شدت پرستی آئے؟ جب اسے کوئی مثبت نمو نہ اور وہ نمونہ جسے قرآن خود ’خلق عظیم‘کہتا ہے، کبھی واقفیت ہوئی، نہ اس نے کبھی شعوری طور پر اس عظیم ترین ہستی ، جن پر میرے ماں باپ فدا ہوں،سے فکری ملاقات کی ہو، نہ ان کے عظیم طرزِ عمل سے چند پھول چنے ہوں، اسے تو لازماً دہشت گرد اور شدت پسند ہی بننا چاہیے ،پھر شکوہ کس بات کا !
اس اخلاقی خلا کا ذمہ دار کون ہے ؟والدین ، اساتذہ ، وزرات تعلیم سے وابستہ ہر ہر فرد ، اسکول کے نظام کو چلانے والا ہر بابو، ملک کا ہر وزیر اعظم ، ملک کا ہر صدر جو اپنا حلف اٹھاتے وقت اس ملک میں قرآن و سنت کے نفاذ کا عہد کرتا ہے اور ہر وہ صحافی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے کر کالم تو لکھتا ہے، لیکن اس مسئلے کے حل کے لیے حیاتِ مبار کہ کی روشنی میں کوئی حل تجویز نہیں کرتا۔
حل اگر کوئی ہے تو وہ صرف آپؐ کے اسوہ میں، آپؐ کے دامن محبت میں، آپ ؐ کے گوشۂ عافیت میں اور آپؐ کے عفو و درگزر کرنے والے کردار میں ہے۔ آپؐ کے ان دشمنوں کو جنھوں نے پتھر برسائے، پھولوں سے نوازنے میں ہے ۔ جب تک وہ اخلاق جو قرآن کریم کے مکمل ترجمے کے ساتھ مطالعے اور مطالعۂ سیرت پاکؐ کے مکمل طور پر جسم میں خون بن کر گردش کرنے کی شکل میں نہ ہو جائے، یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ اس کا حل صرف اور صرف ہدایت کے ان دو میناروں سے وابستگی میں ہے۔ جب تک ہر ہر پاکستانی بچہ اور بچی قرآن کریم کو اوّل تا آخر ترجمے کے ساتھ (وہ ترجمہ جو تمام مسالک میںمتفقہ ہے اور ریڈیو پاکستان سے نشر ہوتا ہے، مثلاً مولانا فتح محمد جالندھری کا ترجمۂ قرآن)سمجھ کر نہ پڑھ لے، اور سیر ت پاک کی کم از کم ایک مشہور کتاب (مثلاً محمد سلمان منصور پوری کی رحمتہً للعِلمین) کا مطالعہ نہ کرلے۔ اس وقت تک وہ ذہن نہیں بن سکتا، جو اپنے جذبات و تاثرات کو تحمل کے دائرے میں رکھتے ہوئے ایک پُرامن مسلمان پاکستانی شہری بن سکے۔
٭ معاشرتی استحصال: جس معاشرے میں ظلم و استحصال ، صوبہ پرستی ، فرقہ پرستی ، برادری پرستی ، زبان پرستی، غرض شرک کی وہ بے شمار شکلیں جنھیں قرآن و سنت سے رد کیا گیا ہے ، موجود ہوںگی،نوجوانوں میں فطری طورپر رد عمل پیدا ہو گا اور استحصالی نظام میں جتنا اضافہ ہوگا، وہ غیردستوری اور غیر قانونی ذرائع استعمال کرنے پر بآسانی آمادہ کر لیے جائیں گے۔اس منفی رد عمل کا علاج سخت سزائیں اور جرمانے نہیں نظام عدل کا قیام ہے، جو قرآن و سنت کا ایک اہم مطالبہ ہے۔ جن معاشروں کو ہمارے بعض دانش وَر مثال بنا کر پیش کرتے ہیں ، ان میں بھی جہاں کہیں ظلم پایا جاتا ہے، وہاں بھی قتل، چوری، ڈکیتی، عزت پر حملے اور بوڑھوں کے ساتھ ظلم کم نہیں ہوتاہے۔ وہ امریکا ہو یا یورپ، کہیں بھی جا کر دیکھ لیں ، جرائم کے ارتکاب میں زیادہ تر وہ لوگ ملوث ہیں جو استحصال کا شکار ہیں ، اور جن کا مذہب کے ساتھ تعلق بہت کمزور ہے ۔ شکاگو ، لاس اینجلس اور نیویارک میں فی گھنٹہ جرائم کے ارتکاب کاتناسب پاکستان سے کئی گنا زیادہ ہے ۔ اگرچہ وہاں کوئی ٹی وی ہر ہر واقعے کو ’خبر توڑ‘ سرخی کی شکل میں بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کرتا ۔ ہمارے دانش ور ہماری صدیوں کی ذہنی مرعوبیت کے سبب یہ سمجھتے ہیں کہ یورپ اور امریکا وغیرہ میں سُکھ چین ہی ہے اور نوجوان اس معاشرے کو جنت سمجھتے ہوئے وہاں کی شہریت کے لیے بے تاب رہتے ہیں، لیکن زمینی حقائق بالکل مختلف ہیں۔ ان کو وہی آنکھ دیکھ سکتی ہے جسے حق کی جستجو ہو ، جو سیاسی آزادی ملنے کے بعد نوآبادیاتی نظام کی ذہنی و فکری غلام نہ ہو۔
معاشرتی عدل کا فقدان وہ اہم سبب ہے جو معاشرے میں انتہا پسندی ااور تشدد کا رجحان پیدا کرتا ہے ۔ جو معاشرہ بھی طبقاتی تقسیم پر قائم ہو تا ہے، اس میںانتقام اور ظالم سے بدلہ لینے کی خواہش کسی نہ کسی وقت ضرور ابھرتی ہے۔ پاکستان میں جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام ظلم، جبر اور محنت کش کے ساتھ ناانصافی کے سبب معاشرے میں محرومی ، ناامیدی اور نفرت و انتقام کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ ایسے معاشرے میں انتہا پسندی اگر نہ ہوتوحیرت کی بات ہے۔ ایک شخص جو ہزاروں اور سیکڑوں ایکڑ زمین کا مالک ہو ، جو پجیرو یا مرسیڈیز سے کم کسی کار پر سفر کرنا اپنی بے عزتی سمجھتا ہو، اور دوسری جانب سیکڑوں مفلوک الحال افرادہوں، جو اس کے زیر تسلط بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محروم ہوں، تو رد عمل کا پایا جانا فطری امر ہے۔ وہ مظلوم جس کو حق سے محروم کیا گیا ہے ، وہ کسی بھی تبدیلی لانے کے وعدے کے زیر اثر غیر قانونی اور غیر دستوری ذرائع کو اپنے لیے حلال سمجھ لے گا یا اسے سمجھا دیا جائے گا۔ جب معاشرے میں کثرت ایسے افراد کی ہو جائے تو شدت پسندی اور غیر دستوری ذرائع سے اقتدار حاصل کرنے کی خواہش بآسانی پیدا کی جاسکتی ہے۔
٭ انسانی حقوق کی پامالی : اسلام انسانی حقوق کا علم بردار بن کر اس وقت آیا جب دنیا انسانی حقوق کی عظمت کو فراموش کر چکی تھی اور یورپ اور امریکا تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اسلام نے حقوق انسانی کو محض ایک قرارداد کی شکل نہیں دی بلکہ قانون کا درجہ دیتے ہوئے حقوق و فرائض میں شامل کیا ۔دوسری جانب تقریباً ہزار سال بعد یورپ اور امریکا نے عالمی جنگ کے تناظر میں صرف قراداد کی حد تک ، جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ، انسانی حقوق پر ایک دستاویز ’جمعیت اقوام‘ میں منظور کی،جو آج تک عالمی مسائل بشمول انتہا پسندی کے حل میں ناکام رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض مسلمان جو نہ اپنے دین کو سمجھتے ہوں ، نہ قرآن کامطالعہ کریں ، نہ سنت مطہرہ سے واقفیت حاصل کریں اور جو ذاتی مفاد کے حصول کے لیے دوسرے انسانوں، خصوصیت سے کمزور طبقات کے حقوق پامال کریں، تو ان کے سیاسی و سماجی کردار کی ذمہ داری نہ کتابِ ہدایت پر ہے اور نہ کتابِ دستور پر اور نہ دین و ریاست کے تعلق پر___ اس کی ذمہ داری مؤثر نظام تربیت کے فقدان کے ساتھ ظلم پر مبنی اجتماعی نظام اور مفاد پرستی سے عبارت اُس طرزِ حکمرانی پر ہے جو ملک و قوم پر مسلط ہے۔
جب کسی معاشرے میں انسانی جان ، مال، عزت اور نسل کا احترام باقی نہیں رہتااور کمزور اور طاقت ور کے لیے دو پیمانے بن جاتے ہیں ، حقوق انسانی کو پامال کیا جاتا ہے تو فطری طور پر ردعمل اور انتقام کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور مظلوم اور استحصال کا شکار فرد ظالم کو نقصان پہنچانے پر آمادہ ہو جاتا ہے ۔دنیا میں جہاں کہیں بھی اس طرح کی صورت حال پائی جاتی ہے ، یکساں نتائج سامنے آتے ہیں۔ظلم اور استحصال کے شکار فرد کو جو ظلم کا شکار رہا ہو ،اپنی جان پر کھیل کر کسی بھی دہشت گردی کے کام کے لیے آمادہ کیا جاسکتا ہے۔زمان و مکان کی قید سے قطع نظر ہمارے اپنے معاشرے میں معاشرتی ظلم کے شکار افراد کثرت سے پائے جاتے ہیں اور نہ صرف وہ بلکہ ایسے نوجوان بھی جو تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملازمتوں کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں، انھیں بآسانی بھاری رقوم کا لالچ دے کر دہشت گردی پر آمادہ کر لیا جاتا ہے ۔ بعض کو جزوی طور پر دینی حوالے سے اس کام پر آمادہ کر لیا جاتا ہے۔ مسئلے کا حل صرف اور صرف اسلامی تصور عدل اور فلاح کا نفاذ ہے ۔ محض قوت کے ذریعے ذہنوں کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا ۔
Exercises
ReplyDelete1.There is no freedom without sacrifice and there is no sacrifice with out love.
2.Your beloved ones have such a deep love for you that is beyond feeling.
2.Although the mother sometimes behaves harshly yet her emotions and love both are beyond our feelings.
ReplyDelete