Legend transcends & Exercise for the student of SBBU.
The dictionary lists dedication as a
noun, but in order to become successful, dedication has to become a verb. Texted by Tooba noor
·
One way to define legend is that it has no contextual constraint. By Prof Dr Sohail ansari
Brainy quotes
·
Choose a job you love, and you will never have to
work a day in your life. Confucius
(Replace
the word job with any other word)
·
·
If you love someone, set them free. If they
come back they're yours; if they don't they never were. Richard Bach
·
·
(Use the word ‘come back’ and ‘never were’ in the
quote of yours)
HJHJHJJHIUUIUIUHHHHHH
HJHJHJJHIUUIUIUHHHHHH
Below is a brief passage. I have highlighted lines for
you to think about
(99
انتہا پسندانہ ذہنیت کے محرکات و اسباب
انتہا پسندانہ ذہنیت کے محرکات و اسباب
·
انتہاپسندی پر ابھارنے والے عوامل یوں تو بہت ہیں، لیکن ذیل میں
صرف زیادہ اہم عوامل کا اختصار کے ساتھ تذکرہ کیا جارہاہے، جو تعلیم گاہوں اور
معاشرے میں اس رجحان اور رویے کے بڑھنے کے پیچھے پائے جاتے ہیں۔ ان میں ایک منطقی ترتیب بھی
پائی جاتی ہے۔
٭ مروت و مقصد سے خالی تعلیم :تعلیم کا بنیادی مقصد تربیت اخلاق، یعنی طرز عمل ، طرز حیات ، طرزِ فکر اور رویے کو اخلاقی اقدار کے ساتھ ہم آہنگ کرنا اور عملی مثال پیش کرنے کے ذریعے غیر محسوس طور پر رویوں کو تبدیل کرنا ہوتا ہے۔ بہترین تعلیم زبان کے بجاے اپنے عمل سے دی جاتی ہے ۔ اگر ایک استاد طالب علم کے ساتھ نرمی ، توجہ، اور کسی بھی مالی فائدے سے بے نیاز ہوکر رہنمائی فراہم کرتا ہے تو طالب علم میں بھی بے غرضی ، طلب علم و تحقیق ، تنقیدی فکر اور جذبۂ عمل پیدا ہوتا ہے ۔ اسی طرح والدین اگر اپنے بچّوں کو پیدا ہونے کے بعد شخصیت کے تعمیری دور، (یعنی اولین چار سال) پنگوڑے سے لے کر پاؤں پاؤں چلنے کی عمر تک مسلسل ٹی وی سکرین پر آنے والے کارٹونوں میں مصروف رکھتے ہیں تو بچے کے ذہن پر یہ اوّلین تاثرات ہی اس کے آیندہ طرزِ عمل کو متعین کرتے ہیں ۔ اس کے بولنے ، ہنسنے ، لوگوں کو تنگ کرنے کے انداز اور خاص طور پر کارٹونوں کے کرداروں سے بے رحمی ، چالاکی اور دوسروںکو تکلیف پہنچا کر خوش ہونے کی عادت فروغ پاتی ہے۔ آپ کسی بھی سلسلہ وار کارٹون کا جائزہ لیں تو یہ بات عیاں ہو جائے گی کہ کارٹون کے کردار رحم دلی ، نرمی ، محبت، خاکساری کی جگہ دوسروںکو چکر دے دے کر بے قوف بنانا اور تکلیف پہنچاکر خوش ہونا سکھاتے ہیں ۔تشدد کی یہ اوّلین تربیت اکثروالدین تعمیر شخصیت کے پہلے چار سال میں اپنی اولاد کو دینے کے بعد کسی پری سکول میں ڈال دیتے ہیں، جہاں بچہ اپنی حقیقی ماں کی ہمہ وقت محبت ، توجہ اور فکر سے محروم، فی گھنٹہ اُجرت پر کام کرنے والی ایک نگران خاتون کے رحم و کرم پر ہوتا ہے ۔کیا ا س طرح بچہ کسی مقصد زندگی ، کسی اخلاقی طرزِ عمل ، کسی قربانی کے جذبے یا کسی احترام و محبت کے تصور سے آگاہ ہو سکتا ہے ؟ جس نے پیدا ہو کر ماں کی محبت کا مزا نہ چکھا ہو، کیا وہ دوسروں کے ساتھ امن، رحم دلی،محبت اور بے لوثی سے پیش آسکتا ہے ؟ کیا وہ بڑا ہوکر امن پسند بن سکتا ہے؟ کیااس کا دین کا علم، قومی زبان پر عبور اور اسلامی تہذیبی روایت سے واقفیت اس درجے کی ہوسکتی ہے کہ وہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے والا صالح، صابر ، مستقل مزاج نوجوان بن سکے؟
٭ اخلاقی مفلسی اور قرآن و سنّت سے لاعلمی :اس سے منطقی طور پر وابستہ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سکول یا کالج یا بعد میں یونی ورسٹی جانے والا طالب علم، اس پورے عرصے میں کبھی کسی ایسے اخلاقی نظام سے گزرتا ہے جس میں قرآن کریم جس پر اس ملک کی ۹۷ فی صد آبادی ایمان رکھتی ہے، اور حیاتِ طیبہؐ جس کے لیے ہر مسلمان چاہے وہ کبھی عید کی نماز تک نہ پڑھتا ہو ، جان دینے بلکہ جان لینے کے لیے تیار رہتا ہے ، کیا علم وتربیت کے ان دو اصل اور ابدی گہواروں سے اس کی کوئی واقفیت ہوتی ہے ؟کیا اس نے یا اس کے اسلامیات پڑھانے والے اساتذہ نے زندگی میں صرف ایک مرتبہ ہی قرآن کریم کا اوّل تاآخر ترجمے کے ساتھ مطالعہ کیا ہوتا ہے؟ اور کیا کبھی اسے یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ بلاشبہہ یہ کتاب، جہاد کو سب سے افضل عمل قرار دیتی ہے۔ کیا اسے جہاد کے مجموعی تصور سے کبھی آگاہ کیا گیا کہ اس کا مقصد انسانوں کو ان کے چھینے گئے حقوق واپس دلانا ہے، انھیں ظلم سے نجات دلانا ہے ، فتنہ وفساد کو دُور کرنا ہے، اور اللہ کی زمین پر عدل ، ہمدردی اور محبت کا ماحول پروان چڑھانا ہے ۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں جہاد کا حکم دیا ہے، وہیں اس کے فی سبیل اللہ ہونے کی شرط بھی لگائی ہے اور وضاحت کے ساتھ اس کے مقاصد، اسلوب اور آداب کو بھی تفصیل سے بیان فرما دیا ہے۔ نیز یہ رہنمائی بھی فراہم کردی ہے کہ بحیثیت مجموعی مسلمان فرد اور قوم کے لیے زندگی کی ترجیحات کیا ہیں اور ان کے درمیان ہم آہنگی کا قیام بھی ضروری ہے۔ ہمارے تعلیم و تربیت کے نظام نے کیا ان تمام پہلوئوں سے ہماری نئی نسلوں کو آشنا کیا ہے؟ کیا ہماری نوجوان نسل کو کسی نے بتایا کہ قرآن کریم کی غالب تعلیمات کا تعلق معاملات، معاشرت ، حقوق و فرائض کی تعلیم اوراحکام سے ہے ، جب کہ تعزیری اور قانونی آیات انتہائی محدود ہیں؟ کیا انھیں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کے ہر دور میں تفصیلی طور پر تجزیے کے ساتھ یہ سمجھایا گیا کہ آپؐ تمام جہانوں کے لیے کس طرح رحمت ہیں ؟
یہ ہے وہ اخلاقی افلاس،جس کی موجودگی میں اگر وہ بچہ یا بچی سائنسی یا سماجی مضمون میں ایک نہیں تین ڈاکٹریٹ بھی کر لے ، تب بھی اس میں اخلاق ، محبت ، عدل ، تواضع ، انکسار ، سچائی ، امانت، دیانت ، قیادت، کبھی پیدا نہیں ہو سکتی۔ وہ ہوا کے ساتھ اپنا رخ بدلتا رہے گا اور مرغ باد نما بن کر سیاسی اور مادی فائدوں کا بندہ بن کر اپنے آپ کو کامیاب بندہ سمجھے گا۔ اس صورت حال میں وہ کیوں نہ دہشت گرد بنے؟ کیوں نہ ا س میں شدت پرستی آئے؟ جب اسے کوئی مثبت نمو نہ اور وہ نمونہ جسے قرآن خود ’خلق عظیم‘کہتا ہے، کبھی واقفیت ہوئی، نہ اس نے کبھی شعوری طور پر اس عظیم ترین ہستی ، جن پر میرے ماں باپ فدا ہوں،سے فکری ملاقات کی ہو، نہ ان کے عظیم طرزِ عمل سے چند پھول چنے ہوں، اسے تو لازماً دہشت گرد اور شدت پسند ہی بننا چاہیے ،پھر شکوہ کس بات کا !
977789867665554444kkkk
٭ مروت و مقصد سے خالی تعلیم :تعلیم کا بنیادی مقصد تربیت اخلاق، یعنی طرز عمل ، طرز حیات ، طرزِ فکر اور رویے کو اخلاقی اقدار کے ساتھ ہم آہنگ کرنا اور عملی مثال پیش کرنے کے ذریعے غیر محسوس طور پر رویوں کو تبدیل کرنا ہوتا ہے۔ بہترین تعلیم زبان کے بجاے اپنے عمل سے دی جاتی ہے ۔ اگر ایک استاد طالب علم کے ساتھ نرمی ، توجہ، اور کسی بھی مالی فائدے سے بے نیاز ہوکر رہنمائی فراہم کرتا ہے تو طالب علم میں بھی بے غرضی ، طلب علم و تحقیق ، تنقیدی فکر اور جذبۂ عمل پیدا ہوتا ہے ۔ اسی طرح والدین اگر اپنے بچّوں کو پیدا ہونے کے بعد شخصیت کے تعمیری دور، (یعنی اولین چار سال) پنگوڑے سے لے کر پاؤں پاؤں چلنے کی عمر تک مسلسل ٹی وی سکرین پر آنے والے کارٹونوں میں مصروف رکھتے ہیں تو بچے کے ذہن پر یہ اوّلین تاثرات ہی اس کے آیندہ طرزِ عمل کو متعین کرتے ہیں ۔ اس کے بولنے ، ہنسنے ، لوگوں کو تنگ کرنے کے انداز اور خاص طور پر کارٹونوں کے کرداروں سے بے رحمی ، چالاکی اور دوسروںکو تکلیف پہنچا کر خوش ہونے کی عادت فروغ پاتی ہے۔ آپ کسی بھی سلسلہ وار کارٹون کا جائزہ لیں تو یہ بات عیاں ہو جائے گی کہ کارٹون کے کردار رحم دلی ، نرمی ، محبت، خاکساری کی جگہ دوسروںکو چکر دے دے کر بے قوف بنانا اور تکلیف پہنچاکر خوش ہونا سکھاتے ہیں ۔تشدد کی یہ اوّلین تربیت اکثروالدین تعمیر شخصیت کے پہلے چار سال میں اپنی اولاد کو دینے کے بعد کسی پری سکول میں ڈال دیتے ہیں، جہاں بچہ اپنی حقیقی ماں کی ہمہ وقت محبت ، توجہ اور فکر سے محروم، فی گھنٹہ اُجرت پر کام کرنے والی ایک نگران خاتون کے رحم و کرم پر ہوتا ہے ۔کیا ا س طرح بچہ کسی مقصد زندگی ، کسی اخلاقی طرزِ عمل ، کسی قربانی کے جذبے یا کسی احترام و محبت کے تصور سے آگاہ ہو سکتا ہے ؟ جس نے پیدا ہو کر ماں کی محبت کا مزا نہ چکھا ہو، کیا وہ دوسروں کے ساتھ امن، رحم دلی،محبت اور بے لوثی سے پیش آسکتا ہے ؟ کیا وہ بڑا ہوکر امن پسند بن سکتا ہے؟ کیااس کا دین کا علم، قومی زبان پر عبور اور اسلامی تہذیبی روایت سے واقفیت اس درجے کی ہوسکتی ہے کہ وہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے والا صالح، صابر ، مستقل مزاج نوجوان بن سکے؟
٭ اخلاقی مفلسی اور قرآن و سنّت سے لاعلمی :اس سے منطقی طور پر وابستہ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سکول یا کالج یا بعد میں یونی ورسٹی جانے والا طالب علم، اس پورے عرصے میں کبھی کسی ایسے اخلاقی نظام سے گزرتا ہے جس میں قرآن کریم جس پر اس ملک کی ۹۷ فی صد آبادی ایمان رکھتی ہے، اور حیاتِ طیبہؐ جس کے لیے ہر مسلمان چاہے وہ کبھی عید کی نماز تک نہ پڑھتا ہو ، جان دینے بلکہ جان لینے کے لیے تیار رہتا ہے ، کیا علم وتربیت کے ان دو اصل اور ابدی گہواروں سے اس کی کوئی واقفیت ہوتی ہے ؟کیا اس نے یا اس کے اسلامیات پڑھانے والے اساتذہ نے زندگی میں صرف ایک مرتبہ ہی قرآن کریم کا اوّل تاآخر ترجمے کے ساتھ مطالعہ کیا ہوتا ہے؟ اور کیا کبھی اسے یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ بلاشبہہ یہ کتاب، جہاد کو سب سے افضل عمل قرار دیتی ہے۔ کیا اسے جہاد کے مجموعی تصور سے کبھی آگاہ کیا گیا کہ اس کا مقصد انسانوں کو ان کے چھینے گئے حقوق واپس دلانا ہے، انھیں ظلم سے نجات دلانا ہے ، فتنہ وفساد کو دُور کرنا ہے، اور اللہ کی زمین پر عدل ، ہمدردی اور محبت کا ماحول پروان چڑھانا ہے ۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں جہاد کا حکم دیا ہے، وہیں اس کے فی سبیل اللہ ہونے کی شرط بھی لگائی ہے اور وضاحت کے ساتھ اس کے مقاصد، اسلوب اور آداب کو بھی تفصیل سے بیان فرما دیا ہے۔ نیز یہ رہنمائی بھی فراہم کردی ہے کہ بحیثیت مجموعی مسلمان فرد اور قوم کے لیے زندگی کی ترجیحات کیا ہیں اور ان کے درمیان ہم آہنگی کا قیام بھی ضروری ہے۔ ہمارے تعلیم و تربیت کے نظام نے کیا ان تمام پہلوئوں سے ہماری نئی نسلوں کو آشنا کیا ہے؟ کیا ہماری نوجوان نسل کو کسی نے بتایا کہ قرآن کریم کی غالب تعلیمات کا تعلق معاملات، معاشرت ، حقوق و فرائض کی تعلیم اوراحکام سے ہے ، جب کہ تعزیری اور قانونی آیات انتہائی محدود ہیں؟ کیا انھیں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کے ہر دور میں تفصیلی طور پر تجزیے کے ساتھ یہ سمجھایا گیا کہ آپؐ تمام جہانوں کے لیے کس طرح رحمت ہیں ؟
یہ ہے وہ اخلاقی افلاس،جس کی موجودگی میں اگر وہ بچہ یا بچی سائنسی یا سماجی مضمون میں ایک نہیں تین ڈاکٹریٹ بھی کر لے ، تب بھی اس میں اخلاق ، محبت ، عدل ، تواضع ، انکسار ، سچائی ، امانت، دیانت ، قیادت، کبھی پیدا نہیں ہو سکتی۔ وہ ہوا کے ساتھ اپنا رخ بدلتا رہے گا اور مرغ باد نما بن کر سیاسی اور مادی فائدوں کا بندہ بن کر اپنے آپ کو کامیاب بندہ سمجھے گا۔ اس صورت حال میں وہ کیوں نہ دہشت گرد بنے؟ کیوں نہ ا س میں شدت پرستی آئے؟ جب اسے کوئی مثبت نمو نہ اور وہ نمونہ جسے قرآن خود ’خلق عظیم‘کہتا ہے، کبھی واقفیت ہوئی، نہ اس نے کبھی شعوری طور پر اس عظیم ترین ہستی ، جن پر میرے ماں باپ فدا ہوں،سے فکری ملاقات کی ہو، نہ ان کے عظیم طرزِ عمل سے چند پھول چنے ہوں، اسے تو لازماً دہشت گرد اور شدت پسند ہی بننا چاہیے ،پھر شکوہ کس بات کا !
977789867665554444kkkk
Exercise:
ReplyDelete*(Replace the word job with any other word)
Ans: Choose a boss -as a life partner-you love, and you will naver have to work a day in your life..
_Tooba noor from English dept SBBU