محبت سےکردار میں تبدیلی
تَعْصِی الْاِلٰہَ
وَأنْتَ تَظْھَرُ حُبَّہُ
ھٰذَا مَحَالٌ فِی القِیَاسِ بَدِیْعُ
لَوْ کَانَ حُبُّکَ صَادِقًا لَأَطَعْتَہُ
اِنَّ المُحِبَّ لِمَنْ یُّحِبُّ مُطِیْعُ
جاسم المطوع / ترجمہ: ارشاد الرحمٰن
سختی ، شدت، غصہ و ناراضی اور قانون انسان کے نفس و کردار کو بدلنے کا قطعاً بہترین ذریعہ نہیں ۔ انسان کو اندر اور باہر سےتبدیل کرنے کی انتہائی مضبوط کلید ’محبت‘ ہے۔
ذرا غور فرمائیے کہ وہ کیا چیز ہے جو ایک روزہ دارکو کھانے پینے سے روک دیتی ہے اور وہ پندرہ سولہ گھنٹے کے طویل دورانیے میں نہ کچھ کھاتا ہے اور نہ پیتا ہے۔ وہ مسلسل بھوک پیاس کو برداشت کرتا ہے۔ وہ کیا چیز ہے جو پانچ وقت نماز ادا کرنےوالے ایک فرد کو نمازوں کے خاص اوقات میں اپنا کاروبار اور کام کاج چھوڑ کر رب کے حضور میں پہنچنے پر مجبور کرتی ہے؟ وہ کون سی شے ہے جو ایک باحجاب مسلمان خاتون کو گرم ترین موسم اور گرم ترین خطوں میں بھی حجاب پہننے پر مطمئن رکھتی ہے؟ وہ کیا شے ہے جو انسان کو دوسروں کی غلطیوں اور خطائوں کو معاف کر دینے پر راضی کرتی ہے؟___ یہ ’محبت‘ ہے! اللہ اور رسولؐ کی محبت! یہ اللہ اور رسولؐ کی رضا و خوش نودی کی محبت ہی ہوتی ہے جو انسان کو مذکورہ تمام اعمال انجام دینےپر آمادہ کرتی ہے۔ انسان ان چیزوں کو برداشت کرنے کےلیے تیار ہوتا ہے، بلکہ وہ اللہ اور رسولؐ کی خاطر اپنی جان تک قربان کر دینا اپناایمان سمجھتا ہے۔
محبت تبدیلیِ نفس و کردار کا ایک بہترین، مؤثر اور گہرے اثرات مرتب کرنے والا ذریعہ ہے۔ اس کی تاثیر کی اہمیت کو عہدِ نبوتؐ میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ نبی اکرمؐ نےاپنےتمام انفرادی و اجتماعی اعمال میں ’محبت‘ پر خصوصی ارتکاز رکھا۔ یہاں تک کہ دولت اسلامیہ کی تاسیس کی بنیاد محبت کے ستونوں پر استوار فرمائی۔ آپؐ نےمدینہ میں اسلامی ریاست قائم کرتے وقت جو دواولین کام انجام دیے، وہ مہاجرین و انصار کے درمیان مؤاخات اور مسجد نبویؐ کی تعمیر تھی۔ پہلے کام کا تو مقصد ہی اجتماعی تعلقات کو محبت کی بنا پر قائم کرنا تھا تاکہ معاشرہ مضبوط و مستحکم ہو سکے۔ دوسرے کا مقصد اللہ تعالیٰ سے محبت کو ایک منہج اور طریق فراہم کرنا تھا، اللہ سے تعلق کو تقویت دینا تھا، اور یہ سب کچھ مسجد کے ساتھ وابستہ رہ کر ممکن ہو سکتا تھا۔
اس ضمن میں چند مثالوں پر غور کیجیے:
٭ ایک عورت نےاپنے شوہر کی بدسلوکی کا شکوہ کیا تو میں نے اُس سے کہا: اپنےشوہر کو’محبت‘ سے بدلو۔
٭ ایک آدمی نے اپنے بیٹے کو سگریٹ نوشی سے باز رکھنے کے ہزار جتن کیے مگر وہ اس سے سگریٹ نہ چھڑا سکا۔ میں نے اُس آدمی سے کہا: بیٹے کو تبدیل کرنے کے لیے ’محبت‘ کا نسخہ آزما کر دیکھیے۔ اُس نے بیٹے کے ساتھ پدرانہ تعلق کو انتہائی مشفق بنانے پر توجہ دی۔ جب باپ بیٹے کے درمیان پیار و محبت کا تعلق مضبوط تر ہو گیا تو باپ نے موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا: بیٹا، اگر تمھیں مجھ سے پیار ہے تو پھر سگریٹ نوشی چھوڑ دو۔ باپ کی محبت چونکہ سگریٹ نوشی ترک کردینے سے مشروط ہو گئی تھی، لہٰذا بیٹے نے بہت جلد اسے ترک کر دیا۔
٭ ایک مدرّس نے ایسی نوجوان لڑکیوں کو درس دیا جو حجاب میں نہیں تھیں۔ مدرّس نے ایمان اور اس کی شیرینی، بندے کے ساتھ اللہ کے لطف و کرم اور احسان و رحمت پر گفتگو کی۔ درس ختم ہوا تو ایک لڑکی نےاُٹھ کر سوال کیا: یہ پہلی دفعہ ہوا ہےکہ ہمارے پاس ایسا عالمِ دین آیا ہے جس نے حجاب کے بارے میں بات نہیں کی! مدرّس نے جواب دیا: میں نے آپ کے سامنے حلاوتِ ایمان اور محبت ِالٰہی پر گفتگو کی ہے۔ جب آپ کو ایمان کی حلاوت کا احساس ہونےلگے اور اللہ کی محبت آپ کے دل میں پیدا ہو جائے تو پھر کوئی آپ سے کہے یا نہ کہے آپ حجاب اوڑھنا شروع کر دیں گی۔ کیوں؟ اس لیے کہ آپ اللہ سے محبت کرنےلگیں گی اور انسان جس سے محبت کرتا ہے اس کا مطیع اور فرماںبردار ہو جاتا ہے۔ امام شافعیؒ سے منسوب اشعار میں اس بات کو یوں بیان کیا گیا ہے:
تَعْصِی الْاِلٰہَ وَأنْتَ تَظْھَرُ حُبَّہُ
ھٰذَا مَحَالٌ فِی القِیَاسِ بَدِیْعُ
لَوْ کَانَ حُبُّکَ صَادِقًا لَأَطَعْتَہُ
اِنَّ المُحِبَّ لِمَنْ یُّحِبُّ مُطِیْعُ
(تو اللہ کی معصیت کے باوجود اس سے محبت کا دعوے دار ہے، یہ ناممکن ہے، یہ عقل کے لیے انوکھی بات ہے۔ اگر اللہ سے تیری محبت سچی اور حقیقی ہوتی تو تُو ضرور اس کی اطاعت کرتا، کیونکہ محبت کرنےوالا اپنے محبوب کا اطاعت گزار ہوتا ہے!)
٭ ملائیشیا میں میرا تعارف ایک چینی نژاد نوجوان سے ہوا۔ اس کا مذہب بدھ مت تھا۔ یہ ایک ملائی لڑکی سے متعارف ہوا تو اُس کی محبت میں گرفتار ہو گیا۔ لڑکی سے شادی کے لیے کہا تو اُس نے جواب دیا: میرا دین کسی غیر مسلم سے شادی کی مجھے اجازت نہیں دیتا۔ آپ مسلمان ہو جائیں یا شادی نہ کرنے کی میری معذرت قبول کر لیں۔ لڑکے نے سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ اسلام قبول کر لیتا ہوں تاکہ لڑکی سے شادی ممکن ہو سکے۔
میں ملائیشیا میں اس نوجوان سے ملا ہوں۔ میں نے اس کی داستانِ محبت اور قبولِ اسلام کی مکمل رُوداد سنی۔ اس کی یہ بیوی بھی اس ملاقات میں موجود تھی۔ اس نے اپنےشوہر کی اس گفتگو کی تصدیق کی۔ نوجوان سے میں نے پوچھا: کیا آپ اسلام میں داخل ہوتے وقت دلی طور پر مطمئن تھے؟ اُس نے کہا آغاز میں تو مطمئن نہیں تھا، میرا مقصد تو اپنی محبت سے شادی کرنا تھا۔ آج اپنی شادی کے ۱۰ سال گزرنے کے بعد میں پوری وضاحت سے اعلان کرتاہوں کہ میں اسلام قبول کرنے پر اللہ تعالیٰ کا ہزار بار شکرگزار ہوں۔ جب میرے اوپر واضح ہو گیا کہ اسلام ایک عظیم، خوب صورت، آسان اور بے ضرر دین ہے، تو میں نے سعودی عرب جا کر عربی زبان سیکھنے کا فیصلہ کیا۔ مقصد قرآنِ مجید کا اچھی طرح فہم حاصل کرنا تھا۔ جب میں نے عربی زبان اچھی طرح سیکھ لی اور قرآنِ مجید کو بھی سمجھنے لگا تو قرآن سے بہت زیادہ متاثر ہوا۔ مجھے معلوم ہوا کہ یہ عظیم کتاب ہے۔ اس کتاب نے میرا عقیدہ و کردار اور اخلاق و اطوار بدل کر رکھ دیے، حتیٰ کہ میرا نظریۂ حیات اور تصورِ زندگی ہی بدل ڈالا۔
یہ کہہ کر نوجوان نےاپنی بیوی کی طرف دیکھا اور کہا: یہ بیوی میری دنیاوی زندگی کو پُرمسرت بنانے کی وجہ بنی ہے، اِن شاءاللہ آخرت کی سعادت کا باعث بھی یہی ہو گی، کیونکہ میرے قبولِ اسلام ہونے کا سبب یہی بیوی ہے۔
یہ نوجوان ملائیشیا میں موجود چینیوں کے اندر گہرے اثرات رکھتا ہے۔ سیکڑوں لوگ اس کے ہاتھ پر اسلام قبول کر چکے ہیں۔ یہ تمام نیکیاں اس کی بیوی کے نامۂ اعمال میں بھی درج ہوں گی۔
اس چینی نوجوان کے واقعے سے مجھے عہدِ صحابہؓ کا ایک واقعہ یاد آ گیا۔
٭حضرت طفیل بن عمرو الدوسیؓ کے اسلام لے آنے کے بعد ایک عورت اُن کے پاس خلوت گزاری کے لیے آئی تو انھوں نے اسے اس کام سے منع کرتے ہوئے کہا: اب تم مجھ پر حرام ہو گئی ہو۔ اُس نے پوچھا: کیوں؟ طفیل دوسیؓ نے جواب دیا: میں مسلمان ہو گیا ہوں۔ اس پر عورت کا ردّعمل ان الفاظ سے سامنے آیا: تم میرے ہو اور میں تمھاری،میرا دین بھی وہی ہو گا جو تمھارا ہے۔ پھر عورت مسلمان ہو گئی۔
عہد صحابہؓ میں کئی لوگوں کے قبولِ اسلام میں ’محبت‘ کا کردار نمایاں طور پر تاریخ اسلام کا حصہ ہے۔
٭حرث بن ہشام کی بیٹی کا واقعہ مشہور ہے کہ فتح مکہ کے دن وہ مسلمان ہو گئیں، مگر اُن کا شوہر عکرمہ بن ابوجہل بھاگ کر یمن چلا گیا۔ بیوی نے اُس کو چھوڑنا گوارا نہ کیا اور اس کے پیچھے یمن جا پہنچی۔ وہاں جا کر اُسے ملی اور اسلام قبول کر لینے کے لیے اُسے کہا۔ اس کے ہاتھ پر وہ مسلمان ہو گیااور مسلمان کی حیثیت سے رسولؐ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔
٭ اسی طرح کا واقعہ اُمِ سُلَیم کا ہے کہ ابوطلحہ شادی کے ارادے سے اُن کے پاس آئے تو انھوں نے اس بنا پر انکار کر دیا کہ وہ مشرک ہے۔ البتہ یہ کہا کہ اگر تم مسلمان ہو جائو تو میں تم سے شادی کر لوں گی اور تمھارا اسلام لے آنا ہی میرا مہر ہو گا۔ اس پر ابوطلحہ اسلام لے آئے اور خاتون نے ان سے شادی کر لی۔
دل و دماغ اور نفس و کردار کو بدلنے کے دو ہی طریقے ہیں: ۱۔ محبت، ۲۔خوف اور تنبیہہ۔ یہ دونوں طریقے دل اور کردار کو بدل دیتے ہیں، مگر ان میں ’محبت‘ کا اثر گہرا اور نتائج کے اعتبار سے دیرپا ہوتا ہے،جب کہ خوف اور تنبیہہ کا اثر فوری اور تیزتر ضرور ہو سکتا ہے، لیکن اس کے اثرات دیرپا اور دائمی نہیں ہوتے۔(www.almugtama.com)
ھٰذَا مَحَالٌ فِی القِیَاسِ بَدِیْعُ
لَوْ کَانَ حُبُّکَ صَادِقًا لَأَطَعْتَہُ
اِنَّ المُحِبَّ لِمَنْ یُّحِبُّ مُطِیْعُ
جاسم المطوع / ترجمہ: ارشاد الرحمٰن
سختی ، شدت، غصہ و ناراضی اور قانون انسان کے نفس و کردار کو بدلنے کا قطعاً بہترین ذریعہ نہیں ۔ انسان کو اندر اور باہر سےتبدیل کرنے کی انتہائی مضبوط کلید ’محبت‘ ہے۔
ذرا غور فرمائیے کہ وہ کیا چیز ہے جو ایک روزہ دارکو کھانے پینے سے روک دیتی ہے اور وہ پندرہ سولہ گھنٹے کے طویل دورانیے میں نہ کچھ کھاتا ہے اور نہ پیتا ہے۔ وہ مسلسل بھوک پیاس کو برداشت کرتا ہے۔ وہ کیا چیز ہے جو پانچ وقت نماز ادا کرنےوالے ایک فرد کو نمازوں کے خاص اوقات میں اپنا کاروبار اور کام کاج چھوڑ کر رب کے حضور میں پہنچنے پر مجبور کرتی ہے؟ وہ کون سی شے ہے جو ایک باحجاب مسلمان خاتون کو گرم ترین موسم اور گرم ترین خطوں میں بھی حجاب پہننے پر مطمئن رکھتی ہے؟ وہ کیا شے ہے جو انسان کو دوسروں کی غلطیوں اور خطائوں کو معاف کر دینے پر راضی کرتی ہے؟___ یہ ’محبت‘ ہے! اللہ اور رسولؐ کی محبت! یہ اللہ اور رسولؐ کی رضا و خوش نودی کی محبت ہی ہوتی ہے جو انسان کو مذکورہ تمام اعمال انجام دینےپر آمادہ کرتی ہے۔ انسان ان چیزوں کو برداشت کرنے کےلیے تیار ہوتا ہے، بلکہ وہ اللہ اور رسولؐ کی خاطر اپنی جان تک قربان کر دینا اپناایمان سمجھتا ہے۔
محبت تبدیلیِ نفس و کردار کا ایک بہترین، مؤثر اور گہرے اثرات مرتب کرنے والا ذریعہ ہے۔ اس کی تاثیر کی اہمیت کو عہدِ نبوتؐ میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ نبی اکرمؐ نےاپنےتمام انفرادی و اجتماعی اعمال میں ’محبت‘ پر خصوصی ارتکاز رکھا۔ یہاں تک کہ دولت اسلامیہ کی تاسیس کی بنیاد محبت کے ستونوں پر استوار فرمائی۔ آپؐ نےمدینہ میں اسلامی ریاست قائم کرتے وقت جو دواولین کام انجام دیے، وہ مہاجرین و انصار کے درمیان مؤاخات اور مسجد نبویؐ کی تعمیر تھی۔ پہلے کام کا تو مقصد ہی اجتماعی تعلقات کو محبت کی بنا پر قائم کرنا تھا تاکہ معاشرہ مضبوط و مستحکم ہو سکے۔ دوسرے کا مقصد اللہ تعالیٰ سے محبت کو ایک منہج اور طریق فراہم کرنا تھا، اللہ سے تعلق کو تقویت دینا تھا، اور یہ سب کچھ مسجد کے ساتھ وابستہ رہ کر ممکن ہو سکتا تھا۔
اس ضمن میں چند مثالوں پر غور کیجیے:
٭ ایک عورت نےاپنے شوہر کی بدسلوکی کا شکوہ کیا تو میں نے اُس سے کہا: اپنےشوہر کو’محبت‘ سے بدلو۔
٭ ایک آدمی نے اپنے بیٹے کو سگریٹ نوشی سے باز رکھنے کے ہزار جتن کیے مگر وہ اس سے سگریٹ نہ چھڑا سکا۔ میں نے اُس آدمی سے کہا: بیٹے کو تبدیل کرنے کے لیے ’محبت‘ کا نسخہ آزما کر دیکھیے۔ اُس نے بیٹے کے ساتھ پدرانہ تعلق کو انتہائی مشفق بنانے پر توجہ دی۔ جب باپ بیٹے کے درمیان پیار و محبت کا تعلق مضبوط تر ہو گیا تو باپ نے موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا: بیٹا، اگر تمھیں مجھ سے پیار ہے تو پھر سگریٹ نوشی چھوڑ دو۔ باپ کی محبت چونکہ سگریٹ نوشی ترک کردینے سے مشروط ہو گئی تھی، لہٰذا بیٹے نے بہت جلد اسے ترک کر دیا۔
٭ ایک مدرّس نے ایسی نوجوان لڑکیوں کو درس دیا جو حجاب میں نہیں تھیں۔ مدرّس نے ایمان اور اس کی شیرینی، بندے کے ساتھ اللہ کے لطف و کرم اور احسان و رحمت پر گفتگو کی۔ درس ختم ہوا تو ایک لڑکی نےاُٹھ کر سوال کیا: یہ پہلی دفعہ ہوا ہےکہ ہمارے پاس ایسا عالمِ دین آیا ہے جس نے حجاب کے بارے میں بات نہیں کی! مدرّس نے جواب دیا: میں نے آپ کے سامنے حلاوتِ ایمان اور محبت ِالٰہی پر گفتگو کی ہے۔ جب آپ کو ایمان کی حلاوت کا احساس ہونےلگے اور اللہ کی محبت آپ کے دل میں پیدا ہو جائے تو پھر کوئی آپ سے کہے یا نہ کہے آپ حجاب اوڑھنا شروع کر دیں گی۔ کیوں؟ اس لیے کہ آپ اللہ سے محبت کرنےلگیں گی اور انسان جس سے محبت کرتا ہے اس کا مطیع اور فرماںبردار ہو جاتا ہے۔ امام شافعیؒ سے منسوب اشعار میں اس بات کو یوں بیان کیا گیا ہے:
تَعْصِی الْاِلٰہَ وَأنْتَ تَظْھَرُ حُبَّہُ
ھٰذَا مَحَالٌ فِی القِیَاسِ بَدِیْعُ
لَوْ کَانَ حُبُّکَ صَادِقًا لَأَطَعْتَہُ
اِنَّ المُحِبَّ لِمَنْ یُّحِبُّ مُطِیْعُ
(تو اللہ کی معصیت کے باوجود اس سے محبت کا دعوے دار ہے، یہ ناممکن ہے، یہ عقل کے لیے انوکھی بات ہے۔ اگر اللہ سے تیری محبت سچی اور حقیقی ہوتی تو تُو ضرور اس کی اطاعت کرتا، کیونکہ محبت کرنےوالا اپنے محبوب کا اطاعت گزار ہوتا ہے!)
٭ ملائیشیا میں میرا تعارف ایک چینی نژاد نوجوان سے ہوا۔ اس کا مذہب بدھ مت تھا۔ یہ ایک ملائی لڑکی سے متعارف ہوا تو اُس کی محبت میں گرفتار ہو گیا۔ لڑکی سے شادی کے لیے کہا تو اُس نے جواب دیا: میرا دین کسی غیر مسلم سے شادی کی مجھے اجازت نہیں دیتا۔ آپ مسلمان ہو جائیں یا شادی نہ کرنے کی میری معذرت قبول کر لیں۔ لڑکے نے سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ اسلام قبول کر لیتا ہوں تاکہ لڑکی سے شادی ممکن ہو سکے۔
میں ملائیشیا میں اس نوجوان سے ملا ہوں۔ میں نے اس کی داستانِ محبت اور قبولِ اسلام کی مکمل رُوداد سنی۔ اس کی یہ بیوی بھی اس ملاقات میں موجود تھی۔ اس نے اپنےشوہر کی اس گفتگو کی تصدیق کی۔ نوجوان سے میں نے پوچھا: کیا آپ اسلام میں داخل ہوتے وقت دلی طور پر مطمئن تھے؟ اُس نے کہا آغاز میں تو مطمئن نہیں تھا، میرا مقصد تو اپنی محبت سے شادی کرنا تھا۔ آج اپنی شادی کے ۱۰ سال گزرنے کے بعد میں پوری وضاحت سے اعلان کرتاہوں کہ میں اسلام قبول کرنے پر اللہ تعالیٰ کا ہزار بار شکرگزار ہوں۔ جب میرے اوپر واضح ہو گیا کہ اسلام ایک عظیم، خوب صورت، آسان اور بے ضرر دین ہے، تو میں نے سعودی عرب جا کر عربی زبان سیکھنے کا فیصلہ کیا۔ مقصد قرآنِ مجید کا اچھی طرح فہم حاصل کرنا تھا۔ جب میں نے عربی زبان اچھی طرح سیکھ لی اور قرآنِ مجید کو بھی سمجھنے لگا تو قرآن سے بہت زیادہ متاثر ہوا۔ مجھے معلوم ہوا کہ یہ عظیم کتاب ہے۔ اس کتاب نے میرا عقیدہ و کردار اور اخلاق و اطوار بدل کر رکھ دیے، حتیٰ کہ میرا نظریۂ حیات اور تصورِ زندگی ہی بدل ڈالا۔
یہ کہہ کر نوجوان نےاپنی بیوی کی طرف دیکھا اور کہا: یہ بیوی میری دنیاوی زندگی کو پُرمسرت بنانے کی وجہ بنی ہے، اِن شاءاللہ آخرت کی سعادت کا باعث بھی یہی ہو گی، کیونکہ میرے قبولِ اسلام ہونے کا سبب یہی بیوی ہے۔
یہ نوجوان ملائیشیا میں موجود چینیوں کے اندر گہرے اثرات رکھتا ہے۔ سیکڑوں لوگ اس کے ہاتھ پر اسلام قبول کر چکے ہیں۔ یہ تمام نیکیاں اس کی بیوی کے نامۂ اعمال میں بھی درج ہوں گی۔
اس چینی نوجوان کے واقعے سے مجھے عہدِ صحابہؓ کا ایک واقعہ یاد آ گیا۔
٭حضرت طفیل بن عمرو الدوسیؓ کے اسلام لے آنے کے بعد ایک عورت اُن کے پاس خلوت گزاری کے لیے آئی تو انھوں نے اسے اس کام سے منع کرتے ہوئے کہا: اب تم مجھ پر حرام ہو گئی ہو۔ اُس نے پوچھا: کیوں؟ طفیل دوسیؓ نے جواب دیا: میں مسلمان ہو گیا ہوں۔ اس پر عورت کا ردّعمل ان الفاظ سے سامنے آیا: تم میرے ہو اور میں تمھاری،میرا دین بھی وہی ہو گا جو تمھارا ہے۔ پھر عورت مسلمان ہو گئی۔
عہد صحابہؓ میں کئی لوگوں کے قبولِ اسلام میں ’محبت‘ کا کردار نمایاں طور پر تاریخ اسلام کا حصہ ہے۔
٭حرث بن ہشام کی بیٹی کا واقعہ مشہور ہے کہ فتح مکہ کے دن وہ مسلمان ہو گئیں، مگر اُن کا شوہر عکرمہ بن ابوجہل بھاگ کر یمن چلا گیا۔ بیوی نے اُس کو چھوڑنا گوارا نہ کیا اور اس کے پیچھے یمن جا پہنچی۔ وہاں جا کر اُسے ملی اور اسلام قبول کر لینے کے لیے اُسے کہا۔ اس کے ہاتھ پر وہ مسلمان ہو گیااور مسلمان کی حیثیت سے رسولؐ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔
٭ اسی طرح کا واقعہ اُمِ سُلَیم کا ہے کہ ابوطلحہ شادی کے ارادے سے اُن کے پاس آئے تو انھوں نے اس بنا پر انکار کر دیا کہ وہ مشرک ہے۔ البتہ یہ کہا کہ اگر تم مسلمان ہو جائو تو میں تم سے شادی کر لوں گی اور تمھارا اسلام لے آنا ہی میرا مہر ہو گا۔ اس پر ابوطلحہ اسلام لے آئے اور خاتون نے ان سے شادی کر لی۔
دل و دماغ اور نفس و کردار کو بدلنے کے دو ہی طریقے ہیں: ۱۔ محبت، ۲۔خوف اور تنبیہہ۔ یہ دونوں طریقے دل اور کردار کو بدل دیتے ہیں، مگر ان میں ’محبت‘ کا اثر گہرا اور نتائج کے اعتبار سے دیرپا ہوتا ہے،جب کہ خوف اور تنبیہہ کا اثر فوری اور تیزتر ضرور ہو سکتا ہے، لیکن اس کے اثرات دیرپا اور دائمی نہیں ہوتے۔(www.almugtama.com)
Comments
Post a Comment