اسلام: تہذیبی تصادم اور مکالمہ
مجتبیٰ
فاروق
نو مبر ۱۹۸۹ء میں دیوارِ برلن کے گرنے کے ساتھ ہی بین الاقوامی سیا ست میں سرد جنگ بھی اختتام کو پہنچی ۔اس کے بعد مغر بی سیا ست دانوں،پالیسی سا زوں اور دانش وروں نے آیندہ اپنی خار جہ پالیسی کے لیے ایک نئی حکمت عملی وضع کی۔اس تعلق سے سب سے پہلے ایک امریکی مفکر فرانسس فو کو یاما نے ۱۹۸۹ء میں ایک امریکی رسالے The National Interest میں The End of History(انتہاے تاریخ) کے نام سے ایک مضمون لکھا کہ مغر بی تہذیب انتہائی عروج پر ہے اور یہ ساری دنیا پر چھا جائے گی۔ اسی مضمون میں فو کو یا مانے Liberal Democracyکا تصور پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہی انسان کی نظر یاتی تر قی کی آخری فتح ہے اور یہ کہ دنیا میں رائج نظریات کے درمیان کش مکش ختم ہو گئی ہے اور مغر بی آزاد جمہوریت کے سوا اب دنیا میں کو ئی نیا نظر یہ یا نظام آنے والا نہیں ہے ۔ ۱
اس کے بعد بر نارڈ لیوس نے اس نظر یے کو نئے قالب میں پیش کرتے ہوئے Return of Islam کے نام سے مقالہ لکھا۔ پھر اس مقالے کو نئی شکل دے کرماہ نامہ Atlantic میں The Roots of Muslim Rage (مسلم غم و غصہ کی جڑ یں) کے زیرعنوان زہریلی تحریر بناکر تہذیبی تصادم کا نظر یہ پیش کیا:
دراصل ہم ایک ایسی تحر یک اور صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں جو حکومتوں ،مسائل اور منصو بوں سے حد درجہ بڑھ کر ہے۔یہ صورت حال ایک تہذ یبی تصادم سے کم نہیں ہے۔ یہ ہمارے یہودی عیسا ئی ورثے ،ہمارے سیکو لر اور ان دونوں کی ساری دنیا میں اشاعت کے قابل رد عمل ہے۔۲
پرسٹن یونی ورسٹی کے پروفیسر بر نارڈ لیوس کا شمار اسلام اور مشرق وسطیٰ پر مغرب کے معروف دانش وروں میں ہوتا ہے ۔ وہ اپنی تحریروں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کھلے جذبات کا اظہار کرنے سے احتراز کرتے ہیں، لیکن اس ہاتھ کی صفائی کے باوجود متعصبانہ سوچ اور بغض چھپا ہو ا ہوتا ہے۔ تہذیبوں کے تصادم کی اصطلاح اور نظریے کے اصل خالق یہی ہیں ۔۳
برنارڈ لیوس کے بعد جس مغر بی مفکر اور پالیسی ساز نے تہذ یبی تصادم کے نظر یے کو انتہائی منظم انداز سے آگے بڑھا یا، وہ ہار ورڈ یونی ورسٹی کے پروفیسر سیموئیل پی ہن ٹنگٹن ہیں، جو نیشنل سیکورٹی کونسل میں منصوبہ بندی کے بھی ڈائرکٹر رہ چکے تھے ۔
انھوں نے فرانسس فو کو یا ما کے نظریاتی کش مکش کے خاتمے کے نظریے کو مسترد کرتے ہوئے یہ پیش گوئی کی کہ: ’’آیندہ دنیا میں تصادم نظریات کی بنیادد پر نہیں بلکہ تہذ یبوں کی بنیاد پر ہوگا۔مغر بی تہذیب جو اس وقت غالب تہذ یب کی صورت اختیار کر چکی ہے پوری دنیا کو اپنے رنگ میں رنگنا چاہتی ہے۔اس کا اسلامی تہذ یب سے ہر حال میں تصادم ہو نا ہے بلکہ شروع ہو چکا ہے‘‘۔ ہن ٹنگٹن نے ۱۹۹۳ء کے فارن افیئرز میںThe Clash of Civilizations کے عنوان سے مضمون لکھا، جسے ۱۹۹۶ء میں پھیلاکر The Clash of Civilizations and Remaking of the New World Order (تہذیبوں کا تصادم اور نئے عالمی نظام کی تشکیل)کے نام سے کتابی شکل میں شائع کیا، اور پھر اس پر دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر مباحثے کا آغاز ہوا ۔ نائن الیون کے بعد اس مباحثے نے نہ صرف طول پکڑا بلکہ شدت بھی اختیار کر لی۔
مغر بی مفکر ین اور پالیسی سازوں نے اس مفر وضے کو منطقی انداز میں پیش کر کے کہاکہ تہذیبوں (بالخصوص اسلامی اور مغر بی تہذ یب )کے مابین تصادم اور ٹکراؤ لازم بلکہ ناگزیر بھی ہے۔ ہن ٹنگٹن کے مطابق آنے والے زمانے میں تصادم ،ٹکراؤ اور جنگ، سیاست ،اقتصادیات اور سرحدوں پر ٹکراؤ کی بنیاد پر نہیں بلکہ تہذ یبوں کی بنیاد پر ہوگی:
اس دنیا میں تصادم کا بنیادی سبب نہ تو مکمل طور پر نظر یاتی ہوگا،اور نہ مکمل طور پر معاشی، بلکہ نوع انسان کو تقسیم کر نے والے بنیادی اسباب ثقافتی ہو ں گے۔ عالمی معاملات میں قو می ریاستیں اہم کردار ادا کر تی رہیں گی، لیکن عالمی اہمیت کے بڑ ے تصادم ان ریاستوں اور گروہوں کے درمیان ہوں گے،جو مختلف تہذیبوں سے وابستگی کو اہمیت دیتے ہیں۔۴
مغر ب اپنی تہذ یب کی عالم گیریت پر یقین رکھتا ہے اور اس کا تصوریہ ہے کہ مغر ب کی تہذ یبی بالاتری اگر چہ رُوبہ زوال ہے، لیکن ہن ٹنگٹن کے بقول: مغرب اپنی برتری (pre-eminent position)کو قائم رکھنے کے لیے کو شش کر رہا ہے اور کرتا رہے گا۔ وہ اپنے مفادات کو عالمی برادری کے مفادات کے طور پر پیش کرکے ان مفادات کی حفاظت کر رہا ہے ۔۵
تہذیبوں کی تقسیم
ماہرین نے تہذ یبوں کا گہرائی سے مطالعہ پیش کیا ہے۔ مشہور مؤرخ ٹائن بی نے پہلے ۲۱ اور بعد میں دنیا کو ۲۳تہذیبوں میں تقسیم کیا۔ اسپنگر نے دنیا کی آٹھ بڑی ثقافتوں کی نشان دہی کی، میک نیل نے تہذ یبوں کی تعداد ۹بتائی،سلکیو نے ۱۲تہذ یبوں کی نشان د ہی کی ہے ۶ ، جب کہ خود ہن ٹنگٹن نے دنیا کی آٹھ بڑی تہذ یبوں کا تذکرہ کیا اور کہا ہے کہ مستقبل میں تصادم انھی تہذیبوں کے درمیان ہوگا : ۱۔چینی ( کنفیوشس) ۲۔ جاپانی ۳۔ ہندو۴۔ اسلامی۵۔ قدامت پرست عیسائی ۶۔ لاطینی ۷۔ افر یقی۸۔ مغر بی تہذ یب۔
جنگ جو سیاسی مفکر، ہن ٹنگٹن نے تہذ یبی تصادم کے اس دور میں تین تہذ یبوں کو اہم قرار دیا ہے: ۱۔ مغر بی تہذیب ۲۔چینی تہذ یب ۳۔ اسلامی تہذ یب۔ ہن ٹنگٹن کے مطابق پانچ تہذ یبوں کا ایک دوسرے کے ساتھ یا مغر ب کے ساتھ جزوی طور پر اختلاف ہو سکتا ہے،لیکن یہ اختلاف تصادم کی صورت اختیار نہیں کرے گا۔
تہذ یبی تصاد م کے عوامل
ہن ٹنگٹن کے مطا بق اسلام اور مغر ب کے درمیان اختلاف اور باہمی تنازعے کو روز بہ روز بڑھا وا مل رہا ہے، جن میں پانچ عوامل کو مرکزیت حاصل ہے :
(۱) مسلم آبادی میں اضافے نے بے روزگاری اور بد دل اور مایوس نو جوانوں کی ایک بڑی تعداد کو جنم دیا ہے جو اسلامی تحر یکوں میں داخل ہو جاتے اور مغر ب کی طر ف نقل مکانی کر تے ہیں۔
(۲) اسلامی نشاتِ ثانیہ نے مسلمانوں کو اپنی تہذ یب کی امتیازی خصوصیات اور مغر بی اقدار کے خلاف نیا اعتماد عطا کیا ہے۔
(۳) مغر ب کا اپنی قدروں اور اپنے اداروں کو عالم گیر بنا نے اور اپنی خوبی اور اقتصادی برتری قائم کر نے اور عالم اسلام میں مو جود اختلافات میں مدا خلت کی مسلسل کو شش مسلمانوں میں شدید ناراضی پیدا کر تی ہے ۔
(۴) اشتراکیت کے انہدام نے مغر ب اور اسلام کے ایک مشترکہ دشمن کو منظر سے ہٹایا، مگر ان دونوں کو ایک دوسرے کے لیے ایک بڑے متوقع خطرے کی صورت میں لاکھڑا کیا ہے۔
(۵) اسلام اور مغرب کے درمیان بڑھتے ہو ئے تعلقات ان کے اندر یہ احساس ابھارتے ہیں کہ ان کی شنا خت کیا ہے اور وہ ایک دوسرے سے کس قدر مختلف ہیں ۔۷
ہن ٹنگٹن کے مطابق تہذیبوں کا تصادم انفرادی اور اجتماعی سطحوں پر واقع ہوتا ہے۔ انفرادی سطح پر تصادم ، تہذ بیوں کے درمیان فوجی ٹکراؤ اور ایک دوسرے کے علاقے پر قبضہ جمانے کے لیے ہو تا ہے،جب کہ اجتماعی سطح پر مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھنے والی حکو متیں علاقوں میں اپنی فوجی و سیاسی بر تری کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کر تی ہیں۔یہ اپنی اپنی سیا سی اور مذ ہبی اقدار کے فروغ کے لیے ایک دوسرے پر برتری لینے کی تگ ودو میں رہتے ہیں۔ ۸
اسلام اور مغر ب کے درمیان کش مکش
ہن ٹنگٹن کے نزدیک، اسلام اور مغر بی تہذ یب کے در میان تصادم پچھلے ۱۳۰۰ سال سے جاری ہے۔ اسلام کے آغاز کے بعد عر بوں نے مغر ب پر چڑھائی کی۔ اس کے بعد صلیبیوں نے عیسائی حکومت قائم کر نے کی کوششیں کیں۔ انیسویں اور بیسویں صد ی کے ابتدا ئی دور میں عثما نی حکومت بھی زوال پذیر ہو گئی۔اور دیکھتے ہی دیکھتے برطا نیہ،فرانس اور اٹلی کی حکو متیں قائم ہوگئیں اور شمالی افر یقہ کے علاوہ،مشر ق وسطیٰ پر مغر ب کا اقتدار قائم ہوا۔۹
اسلام اور عیسائیت،مسیحی اور مغر بی دونوں کے درمیان تعلقات اکثر ہنگا مہ خیز رہے ہیں۔ یہ ہمیشہ ایک دوسرے کے لیے اجنبی رہے ہیں۔آزاد جمہو ریت اور مارکسی لنین ازم کے درمیان انیسویں صدی کا تنازع اسلام اور عیسائیت کے درمیان مسلسل اور گہرے مخاصمانہ تعلقات کے مقابلے میں ایک عارضی اور سطحی مظہر ہے۔۱۰ ہن ٹنگٹن کو معلوم تھا کہ مغر ب، اسلام کے خلاف سیاسی پر وپیگنڈ ے اور سیا سی سازشوں سے زیا دہ دیر تک عا لم اسلام میں اپنا و جو د قائم نہیں رکھ سکتا اور نہ فو جی اور اقتصادی بنیادوں پر باقی دنیا کو اپنے پنجۂ استبداد میں رکھ سکتا ہے۔ اسی لیے اس نے اسلام اور اس کی تہذ یب کو مغر ب کے لیے خطرے کے طور پر پیش کیا :
مغر ب کا بنیادی مسئلہ اسلامی بنیاد پر ستی نہیں ہے، بلکہ یہ اسلام ہے جو ایک مختلف تہذیب ہے جس کے ماننے والے لوگ اپنی ثقافت کی بر تری کے قائل اور اپنی طاقت کی کم تری پر پر یشان ہیں۔ ۱۱
ہن ٹنگٹن مذ ہبی عالم گیریت، بالخصوص اسلامی عالم گیر یت کا اطلا قی اندازہ لگا تا ہے۔ مراد ہوف مین کے بقول: ہن ٹنگٹن غلط ہو سکتا ہے، لیکن وہ احمق ہر گز نہیں ہے۔ اسلامی بنیاد پرستی، دہشت گردی، انتہا پسندی اور سیاسی اسلام جیسے الزامات لگانے میں مغر ب کا بنیادی ہدف اسلام ہے۔ اور اس نے اس کے لیے بے شمار ذرائع کو استعمال میں لا کر راے عامہ کو ہموار کیا، تاکہ پو ری دنیا اسلام اور عالم اسلام کے خلاف صف آرا ہو جائے۔مغر ب کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ مغربی فکر اور تہذیب کا اگر کسی تہذ یب میں مقابلہ کر نے کی صلاحیت اور طاقت ہے تو وہ صرف اسلامی تہذیب ہے۔ اسلامی تہذیب میں متبادل پیش کر نے کی صلاحیت بھی پائی جاتی ہے، جو ان کے مطابق اگرچہ فی الوقت ایسا نہیں ہورہا ہے لیکن مستقبل میں ایسا ضرور ہو گا۔اسی لیے ان کے صحافی، مصنفین، ادبا، مفکر ین ، پا لیسی ساز، اداکار اور سیا ست داں اس بات کا بر ملا اظہار کرتے ہیں کہ The Red menace is gone, but here is Islam ۱۲(سرخ خطرے کا خاتمہ ہوگیا، لیکن اب اسلام ہے)۔
اسی لیے مغربی ماہرین ،اسلامی تحر یکات اور احیاے اسلام کو مغر ب کے لیے خطر ے کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اسلام کو اپنا اصل دشمن قرار دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے اسلام کو شکست دینا اپنا ہدف قرار دیا ہے۔ اسی طرح ایک مغر بی انتہاپسند ڈینیل پایپس [امریکی تھنک ٹینک Middle East Forum کے صدر] نے یروشلم پوسٹ میں The Enemy has a Name کے عنوان سے مضمون میں لکھا ہے:’’ اصل میں یہ دشمن ایک واضح اور جا مع نام رکھتاہے اور وہ ہے ’اسلام ازم‘ ۔اسلام کے تخیلاتی پہلو کا انقلابی تصور ،اسلام پر ست آمر انہ نظر یہ کہ جو بھر پور مالی مدد سے اسلامی قوانین( شر یعہ) کو عالمی اسلامی ضا بطے کے طور پر نافذ کر نے کا خواب ہے ‘‘۔۱۳ وہ ایک انٹرویو میں اس بات کا بھی برملا اظہار کرتا ہے:
میں کئی عشروں سے یہ بات کہتا آیا ہوں کہ ’ریڈیکل اسلام‘ مسئلہ بنا ہوا ہے اور ’جدید اسلام‘ ہی اس مسئلے کا حل ہے۔۱۴
ا س حوالے سے ایڈ ورڈ سعید کامشاہدہ اس طر ح ہے:
یو ر پ اور امریکا کے عام لو گوں کے لیے آج اسلام انتہائی ناگوار خبر کا عنوان بنا ہوا ہے۔ وہاں کا میڈیا ،حکو مت، پالیسی ساز اور محققین یہ تسلیم کیے بیٹھے ہیں کہ اسلام، مغربی تہذ یب کے لیے خطرہ ہے۔۱۵
یہ سلسلہ بیسویں صدی کے آٹھویں عشرے سے مسلسل آگے بڑھا یا جارہا ہے۔ پہلے اسلام کو خطر ے کے طور پر پیش کر نا اور اس کے بعد تہذ یبی تصادم کے نظریے کو وجود میں لانا مغر ب کی اہم کار ستانیاں ہیں۔۱۶ امریکی پالیسی ساز ادارے رینڈکارپوریشن نے ۲۰۰۴ء میں مسلمانانِ عالم پر ایک مفصل رپورٹ تیار کی۔ جس کا عنوان Civil Democratic Islam: partners resources and strategies ہے۔ اس رپورٹ کا خلاصہ یہ ہے کہ امریکا اور مسلمان ایک دوسرے کے حریف ہیں، جس کی بنیادی وجہ مسلمانوں کا دینی رجحان ہے۔۱۷مسلمانوں کی بڑ ھتی ہوئی آبادی سے ہن ٹنگٹن اور دیگرمغر بی مفکر ین کو زبردست تشویش لاحق ہے۔ ہن ٹنگٹن کے بقول: مسلمانوں کی بڑ ھتی ہو ئی آبادی مغر بی اور یو رپی ممالک کے لیے خطر ہ بنتی جارہی ہے۔ دنیا کے دوبڑے تبلیغی مذاہب اسلام اور عیسائیت کے ساتھ وابستگی رکھنے والوں کے تناسب میں گذشتہ ۸۰برسوں میں بے حد اضافہ ہو۔۱۹۰۰ء میں دنیا کی کل آبادی میں مغربی عیسائیوں کی تعداد کا اندازہ ۹ء۲۶فی صد اور ۱۹۸۰ء میں ۳۰ فی صد لگا یا گیا۔اس کے برعکس ۱۹۰۰ء میں مسلمانوں کی کل آبادی ۴ء۱۲فی صد اور ۱۹۸۰ء میں ۵ء۱۶ یا دوسرے اندازے کے مطابق ۱۸فی صد تک بڑھ گئی۔ ہن ٹنگٹن نے مغرب میں مسلمانوں کی مسلسل بڑھتی ہو ئی آبادی سے خبردار کر تے ہوئے لکھا ہے:
عیسائیت تبدیلیِ مذہب سے پھیلتی ہے، جب کہ اسلام تبد یلی مذ ہب اور افزایش نسل سے پھیلتا ہے۔ مسلمانوں کی آبادی کا تناسب ڈرامائی طور پر بڑھ کر بیسویں صدی کی تبد یلی کے وقت دنیا کی کل آبادی کا ۲۰ فی صد ہو گیا اور چند برسوں بعد ۲۰۲۵ء میں یہ تعداد دنیا کی کل آبادی کی تقریباً ۳۰ فی صد ہوگی‘‘۔۱۸
مغربی دانش وروں نے اسلام اور مغر بی تہذ یب کے درمیان تصادم، مختلف پہلوؤں سے ظاہر کرنے کے لیے بے شمار حر بے استعمال کیے۔ اسلام پرپہلے شبہا ت کو جنم دیا، اور پھر الزامات عائد کرکے تصادم کے لیے راہیں ہموار کی گئیں۔ وہ کہتے ہیں کہ: اسلام، جد ید یت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ مغر بی فکرو تہذیب، ثقافت اور عورتوں کی آزادی کے خلاف ہے۔ پھر اسلام اور جمہوریت میں کوئی مطابقت نہیں بلکہ واضح تضاد ہے۔
* تہذیب کی حقیقت: ’تہذ یب‘ عر بی زبان کا لفظ ہے۔ اس کا معنی تربیت، اصلاح، دوستی اور شائستگی کے ہیں۔ فیروزاللغات میں اس کے یہ معنی بیان کیے گئے ہیں:شائستگی، آراستگی، صفائی ،اصلاح اور خو ش اخلاقی ۔۱۹
مشہور انگریزی لغت یونیورسل انگلش ڈکشنری میں یہ معنی دیے گئے:
Civilization : A state of social, moral, intellectual and industrial development.۲۰
یعنی انسان کے سماجی،اخلاقی ،فکر ی اور اس کی ترقیاتی تعمیر کے مختلف پہلو ؤں کا نام تہذیب ہے۔
’تہذیب‘ ایک ایسی اصطلاح ہے، جس میں کافی وسعت پائی جاتی ہے۔اس میں تصورِزندگی، طرزِ زندگی، زبان ، علم وادب ،فنونِ لطیفہ،رسوم ورواج،اخلاق و عادات،رہن سہن، کھانے پینے کا انداز،خاندانی و قومی روایات ،فلسفہ و حکمت،لین دین،اور سماجی معاملات، سب شامل ہیں۔یہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زند گی سنوارنے کا بھی نام ہے۔
اسلام نے تہذ یب کو نہ صرف مزیدوسعت اور جامعیت بخشی بلکہ اسے اخلاق عالیہ کے مرتبے تک پہنچا یا۔ اسلام نے تہذ یب کو دین و دنیا سنوارنے اور اصلاح کر نے کا ذر یعہ بھی بتایا، کیوں کہ اس میں انسان کے اخلاق و کردار،معاملات و معاشرت ،تعلیم و تمدن،سیاست،معیشت، قانون اور اداروں کی اصلاح، ان کو درست رکھنے کے لیے اصل رہنمائی موجود ہے۔اسلام مکمل دین ہے۔ اس نے جہاں انسان کو کارِ جہاں چلانے کے لیے مکمل رہنمائی دی، وہیں اسے ایک مکمل تہذ یب بھی عطا کی۔
اسلام: تہذیبی تصادم یا مکالمہ اور مفاہمت
کیا تہذ یبوں کے درمیان تصادم ہو سکتا ؟ یا کیا تہذ یبیں تصادم کی طر ف جا رہی ہیں ؟ اس حوالے سے اسلام کا مو قف بہت واضح ہے۔
اسلام تہذیبوں کے تصادم کا قائل نہیں۔ اسلام نے تو ماضی میں بھی دوسری تہذیبوں سے تصادم اور جنگ کے بجاے دعوت کے راستے ہی کو اوّلیت دی ہے۔ بقول پروفیسر خورشیداحمد: ’’تہذیبوں میں مکالمہ، تعاون، مسابقت حتیٰ کہ مثبت مقابلہ سب درست لیکن تہذیبوں میں تصادم، جنگ و جدال، خون خرابا اور ایک دوسرے کو مغلوب اور محکوم بنانے کے لیے قوت کا استعمال انسانیت کے شر ف اور تر قی کا راستہ نہیں۔یہی وجہ ہے کہ تہذ یبوں کا تصادم ہمارا لائحہ عمل نہیں۔ یہ مسلمانوں پر زبردستی ٹھونسا جارہا ہے‘‘۔ ۲۱ مراد ہوف مین کے نزدیک: ’’ تہذیبوں کے ارتقا میں کبھی کو ئی زیرو پوائنٹ نہیں ہو تا۔ دنیا میں ہر شخص نے کسی دوسرے شخص سے فیض پایا اور ہر شخص نے کسی دوسرے شخص کی کامیا بیوں پر اپنی عمارت کھڑی کی ہے‘‘۔۲۲
اسلامی تہذ یب نے اپنا دامن بہت وسیع رکھا ہے، تنگنائیوں اور محدودیت کے دائرے کی کو ئی گنجایش نہیں رکھی ۔اسی لیے اس نے ہر دور میں اور ہر جگہ ہردل عزیز رہنما اور تاب ناک نقوش چھوڑے ہیں اور ہر تہذ یب کو فائدہ پہنچایا ہے۔ مغر بی دانش ور اس بات کا خو د بھی اعتراف کر تے ہیں۔برطانوی ولی عہد شہزادہ چارلس نے ستمبر ۱۹۹۲ء میں اوکسفرڈ یونی ورسٹی کے اسلامی سنٹر میں تقریر کر تے ہو ئے کہا کہ: ’’ہماری تہذ یب و تمدن پر اسلام کے جو احسانات ہیں، ہم ان سے بڑی حد تک ناواقف ہیں۔وسطی ایشیا سے بحراوقیانوس کے ساحلوں تک پھیلی ہو ئی اسلامی دنیاعلم و دانش کا گہوارہ تھی، لیکن اسلام کو ایک دشمن مذہب اور اجنبی تہذ یب قرار دینے کی وجہ سے ہمارے اندر اپنی تاریخ پر اس کے اثرات کو نظرانداز کرنے یا مٹانے کا رجحان رہا ۔ مغر ب میں احیا ے تہذ یب کی تحریک میں مسلم اسپین نے گہر ے اثرات ڈالے ۔یہاں علوم کی تر قی سے یو رپ نے صدیوں بعد تک فائدہ اٹھایا‘‘ ۔ ۲۴
اسلام نے کبھی عیسائیت کے خلاف جارحانہ محاذآرائی نہیں کی اور نہ عیسا ئیوں کو اپنا دشمن باور کیا، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر مسلمانوں نے عیسائیوں کو دوستانہ تعلقات قائم کر نے کے لیے نہ صرف اُبھارا بلکہ تاکید بھی کی ۔ اس بنیاد پر نہیں کہ وہ محض اللہ کے وجود کے قائل ہیں بلکہ وہ بہت سے انبیاے کرام ؑ پر ایمان رکھتے ہیں، جن میں حضرت ابراہیم ؑ ،حضر ت اسحاقؑ ، حضر ت یعقوب ؑ ، حضرت یو سفؑ ، حضرت مو سٰی ؑ شامل ہیں۔ان کے علاوہ اور بھی انبیاے کرام ؑ ہیں، جن پر وہ ایمان رکھتے ہے، جن کاتذکرہ قرآن مجید اوربائبل میں ہے۔جب دور نبوت میں مسلمان ابتلا وآزمایش کا شکار ہو ئے تو انھوں نے حبشہ کے ایک عیسا ئی بادشاہ کے ہاں ہجرت کی۔اس کے علاوہ اور بھی متعدد مثالیں مو جود ہیں۔ عیسائیت ہی کیا، اسلام نے کبھی بھی مذہب،تہذ یب ،نسل یا کسی بھی علاقے کے رہنے والوں کو اپنا دشمن تصور نہیں کیا ۔لیکن فساد پھیلانے والوں کی مذمت اور مزاحمت ضرور کی۔
مکالمے کی اہمیت
اللہ تعالیٰ نے لو گوں کو راہ حق کی طر ف دعوت دینے اور ان کے خدشات کو دور کر نے کے لیے متعدد ذرائع اختیار کر نے کی تعلیم دی ہے۔جن میں سے ایک ذریعہ مکالمہ (Dialogue)بھی ہے۔ یہ دعوت کا ایک انتہا ئی مؤثر ،پُرکشش اورآسان ذریعہ ہے۔قرآن کر یم میں متعدد مکالموں کا تذ کرہ آیا ہے، مثلاً: (۱) حضر ت ہودؑ کا اپنی قوم کے ساتھ مکالمہ، (۲) حضرت مو سٰیؑ کا اپنی قوم سے مکالمہ ،(۳) حضرت ابراہیم ؑ کا اپنے باپ آزر اور نمرود کے ساتھ مکالمہ، (۴) حضرت یو سف ؑ کا زنداں کے ساتھیوں کے ساتھ مکالمہ، (۵) ملحد اور موحد شخص کے درمیان مکالمہ ،وغیرہ وغیرہ۔
اسلام میں دوسرے مذ اہب اور تہذ یبوں سے مکالمہ کر نے پر ابھارا گیا ہے، تاکہ اللہ کی زمین پر عدل و انصاف،حقوق انسانی کا لحاظ اور فساد ،جنگ و جد ل قتل وغارت گری کا خاتمہ ہو، اور اقدار پر مبنی ایک پرامن اور صحت مند سماج وجود میں آ ئے ۔ اسلام کا مزاج عملاً دعوتی ہے۔ اس لیے مکالمہ اس کی بنیادی ضروریات میں شامل ہے۔ حتیٰ کہ اسلام کے سخت تر ین دشمن سے بھی مکالمے کے ذریعے تعلق پیدا کر نا فرائض دعوت میں شامل ہے۔شرک اور طاغوت سے نفر ت تو کی جائے گی، لیکن مشر ک اور طاغی کو مسلسل مکالمے کے ذریعے حق کی دعوت دی جاتی رہے گی، نفرت شرک سے ہے، مشرک سے نہیں۔ مکالمے میں مخاصمت، نزاع اور جرح کا کو ئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے، بلکہ باہم محبت و اُلفت اور عزت و اکرام کا خاص خیال رکھا جائے، نیز الزامات اور طعن و تشیع سے بالکل گریز کیا جائے۔ اس کے علاوہ خوش گوار انداز ،تعلقات اور ماحول میں مکالمہ کیا جائے اور خوش اسلو بی کوا ختیار کیا جائے۔
مکالمے کے تین بنیادی اصول
(۱) مشترکہ باتوں کو موضوعِ گفتگو بنانا (۲) تعارف اور (۳) دعوت وتبلیغ کے اصول
۱۔ قرآن کر یم نے اہل کتاب کے ساتھ مشتر کہ باتوں کو مو ضوعِ گفتگو بنا نے کے لیے ہدایت دی ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
قُلْ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍ م بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَ لَا نُشْرِکَ بِہٖ شَیْءًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ ط فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْھَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ o( اٰل عمرٰن۳:۶۴) ’’اے اہل کتاب، آؤ ایک ایسی بات کی طر ف جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے۔ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بند گی نہ کر یں،اس کے ساتھ کسی کو شر یک نہ ٹھیرائیں۔اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنا لے‘‘۔اس دعوت کو قبول کر نے سے اگر وہ منہ موڑیں تو صاف کہہ دو کہ گواہ رہو، ہم تو مسلم (صرف خدا کی بندگی و اطاعت کرنے والے)ہیں۔
اسی آیت میں یہود و نصاریٰ کو ان کے ظلم و جبر اور ان کے مشر کانہ عقائد کی بنیاد پر اے کافرو یا اے مشر کو! کہہ کر خطاب نہیں کیا گیا، بلکہ انھیں ایسے لقب سے خطاب کیا گیا ہے جس میں ان کا بھر پور عزت و اکرام کا لحاظ رکھا گیا۔
اسلام اور عیسائیت یا مغرب کے درمیان مکالمے کا آغاز دور نبوت سے ہی ہواتھا، جب اللہ کے رسول ؐ نے مشر ق و مغر ب کے حکمرانوں کو کھلے دل سے نیک تمناؤں اور خیر خواہی کے ساتھ اسلام کے عالم گیر پیغام پر غور اور تسلیم کر نے اور انھیں کفرو ظلمات سے نکل کر نو ر اسلام کو اختیار کرنے پر دعوت دی تھی۔قبولِ دعوت کی صورت میں انھیں دین و دنیا کی کامیابی اور سلامتی کی خوش خبر ی بھی سنائی گئی۔اہل کتاب کے فر ماں رواؤں کے نام اللہ کے رسول ؐ نے جو دعوتی خطوط بھیجے ہیں ان میں اسلام قبول کر نے کی دعوت دینے کے بعد یہ جملہ بھی ہے: یُؤْتِکَ اللّٰہُ اَجْرَکَ مَرَّتَیْنِ۲۴ اللہ تمھیں دہرے اجر سے نوازے گا۔
مغر ب سے مذ اکرات اور مکالمہ کی جتنی پہلے ضرورت تھی آج موجود ہ دور میں اس سے کئی درجے زیادہ ضرورت ہے۔اس سلسلے میں ۲۰۰۷ء میں عالم اسلام کے ۱۳۸؍اسلامی دانش وروں نے عیسا ئی رہنماؤں کے نام A common word between us and you کے عنوان سے ایک کھلا خط لکھا، جس میں بہت سی مشتر کہ باتوں کا تذکر ہ کیا گیا ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس طر ح کی پیش رفت کو آگے بڑھایا جائے ۔۲۵
مذاہب اور تہذ یبوں کے درمیان باہم تعارف ہو، تاکہ ایک دوسرے کے موقف کو سمجھ کر معاملات طے کر نے میں آسانی ہو۔تعارف سے ہی نزاع، ٹکراؤ، تصادم اور جنگ کے مختلف اسباب کو اچھی طر ح سے ختم کیا جاسکتا ہے ۔ایک دوسرے کو جاننے اور تعارف حاصل کر نے کے بے شمار فوائد ہیں،جیسے آپس میں محبت سے رہنا ،ایک دوسرے کے قریب آنا،ایک دوسرے سے اخذ و استفادہ کر نا وغیرہ وغیرہ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
ٰٓیاََیُّھَا النَّاسُ اِِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآءِلَ لِتَعَارَفُوْا ط اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ ط اِِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ o (الحجرات ۴۹:۱۳) لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمھاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ یقیناًاللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔
اس آیت مبارکہ میں تمام تہذ یبوں کی تعمیر و بقا اور باہم تال میل اور ساتھ رہنے کے رہنما اصول مو جود ہیں۔پہلے تمام انسانوں سے بلالحاظ مذ ہب و ملت خطاب کیا گیا:’’ اس لحا ظ سے تمام انسان اپنے اختلافات،تنوع اور زما ن ومکاں کی دوری کے باوجود ایک انسانی اصل سے باہم مربوط ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ لو گ اس حقیقت کو اچھی طر ح اپنے دل و دماغ میں جاگزیں کرلیں اور اس کو ایک اخلاقی ضابطے کی حیثیت سے اپنے لیے اختیار کر لیں ۔اور اسی نقطۂ نظر سے دیگر قوموں اور تہذیبوں کو بھی دیکھیں ۔گویا کہ وہ روے زمین پر بسنے والے ایک ہی خاندان کے افراد ہیں‘‘۔ ۲۶
لِتَعَارَفُوْا کے بارے میں علا مہ ابن کثیر لکھتے ہیں: ای لیحصل التعارف بینھم کل یر جع الی قبیلتہ ۲۷ یعنی قبیلے کا ہر آدمی باہم تعارف حاصل کر ے۔
دعوت و تبلیغ کے اصول
اسلام کے پیغام رحمت و عدل کو عام کر نا اور اس کو دوسرے مذاہب کے ماننے والوں تک پہنچانا مسلمانوں کا بنیادی اور سب سے اہم فر یضہ ہے۔ اس فر یضے سے غفلت اور کو تاہی بر تنا ایک مسلمان کے ہر گز شایان شان نہیں ہے۔دعوت و تبلیغ کے فر یضے کو انجام دینے کے لیے چند اہم باتوں کو ذہن میں تازہ رکھنابے حد ضروری ہے ۔اس میں حکمت ،خیر خواہی اورقولِ سدید خاص طور سے قابل ذکر ہے۔نیز مد عو قوم سے گفتگوانتہائی عمدہ طر یقے سے کر نے کی تاکید بھی کی گئی ہے:
اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَ جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ط اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہٖ وَ ھُوَ اَعْلَمُ بِالْمُھْتَدِیْنَ o (النحل ۱۶:۱۲۵)اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو۔ تمھارا رب ہی زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اورکون راہِ راست پر ہے۔
اس آیت میں تین بنیادی اصولوں کا تذ کر ہ کیا گیا کہ حق سے آشنا لوگوں تک کیسے پیغام الٰہی پہنچا یا جائے، اور ان کو کس طر ح سے پیغام حق کی طر ف دعوت دی جائے۔ دعوت و تبلیغ کے یہ تینوں اصول وہی ہیں جو منطقی استدلال میں عمو ماً کام میں لائے جاتے ہیں۔ایک تو برہانیات جن میں یقینی مقد مات کے ذر یعے سے دعوے کے ثبوت پر دلیلیں لا ئی جاتی ہیں۔دوسرے خطبات جن میں مؤ ثر اقوال سے مقصود کو ثابت کیا جاتا ہے، اور تیسرا اصول فریقین کے مسلّمہ مقدمات سے استدلال کیا جانا ہے۔ ۲۸لہٰذا، دعوت و تبلیغ کے یہ تین اصول، یعنی حکمت وموعظت حسنہ اور جدال احسن جواہر پاروں کی حیثیت رکھتے ہیں۔
_______________
مراجع ومصادر
۱۔ فوکویاما، The End of History، ۱۹۹۲ء ۲۔ برنارڈ لیوس، ماہ نامہ The Atlantic، ستمبر ۱۹۹۰ء
۳۔ لیوس کی چند کتب What Went Wrong? Western Impact and Middle Eastern Response ،۲۰۰۲ء، Crisis of Islam، ۲۰۰۳ء، مقالہ Muslims to the War on Europe، یروشلم پوسٹ، ۲۹ جنوری ۲۰۰۷ء۔ ۴۔ ہن ٹنگٹن ، مجلہ فارن افیئرز، گرما، ۱۹۹۰ء۔
۵۔ ہن ٹنگٹن، تہذیبوں کا تصادم، ترجمہ: محمد شفیع شریعتی، سری نگر، ۲۰۱۳ء، ص ۲۵۴۔
۶۔ حوالہ سابق، ص ۶۱ ۷۔ حوالہ سابق، ص ۲۳۹ ۸۔ہن ٹنگٹن ،مجلہ فارن افیئرز، گرما، ۱۹۹۰ء۔
۹۔ ایضاً ۱۰۔ ہن ٹنگٹن، تہذیبوں کا تصادم،ص ۲۹۰
۱۱۔ مراد ہوف مین، تہذیبوں کا تصادم، اکیسویں صدی میں،سہ ماہی مغرب اور اسلام، اسلام آباد، جولائی تا دسمبر۲۰۰۰ء۔
۱۲۔ عبداللہ احسن، The Clash of Civilizations Thesis and Muslims، مشمولہ Islamic Studies، گرما، ۲۰۰۹ء،ص ۱۹۸۔
۱۳۔ ڈینیل پایپس، The Enemy Has a Name، یروشلم پوسٹ، ۱۹ جون ۲۰۰۹ء۔
۱۴۔ ڈینیل پایپس، Radical Islam Creates Terrorism، دی ٹائمز آف انڈیا، ۲۱مارچ ۲۰۱۶ء
۱۵۔ ایڈورڈ سعید: Covering Islam، نیویارک ۱۹۸۱ء، ص ۱۳۶۔
۱۶۔ تفصیل دیکھیے: جان اسپوزٹیو، The Islamic Threat, Myth or Realty، نیویارک ۱۹۹۹ء۔
۱۷۔ احمد سجاد، مغرب سے نفرت کیوں؟ سہ ماہی مطالعات، جلد۶، شمارہ ۱۷، ۱۸،۱۹۔
۱۸۔ پروفیسر ہن ٹنگٹن ، تہذیبوں کا تصادم، ص ۹۰۔
۱۹۔ فیروز اللغات، دارالکتاب، دیوبند، یوپی، ۱۹۹۹ء، ص ۳۹۵۔
۲۰۔ The Universal English Dictionary
۲۱۔ پرو فیسر خورشید احمد،تہذیبوں کا تصادم۔حقیقت یا واہمہ ،تر جمان القرآن لاہور مئی ۲۰۰۶ء،ص۲۲
۲۲۔ مرادہوف مین ،تہذیبوں کا تصادم اکیسویں صدی میں،سہ ماہی مغرب اور اسلام،اسلام آباد، جولائی تا دسمبر ۲۰۰۰ء
۲۳۔ مولانا عیسیٰ منصوری، مغرب اور عالم اسلام کی فکری و تہذیبی کش مکش ،ورلڈ اسلامک فورم، ۲۰۰۰ء،ص:۸۸
۲۴۔ ڈاکٹر انیس احمد ،تہذیبی روایات کا مکالمہ، سہ ماہی مغرب اور اسلام، اسلام آباد، جنوری تا مارچ،۲۰۰۱ء۔
۲۵۔ تفصیل کے لیے دیکھیے،islamic studies ,A common word between us and you, 2008,p:243 to 263.
۲۶۔ زکی المیلاد ،تہذیبوں کے باہمی تعلقات: مفاہمت ومذاکرات،(اردوترجمہ،ڈاکٹر نگہت حسین ندوی)، انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹیڈیز، ۲۰۰۴،ص۳۱
۲۷۔ عمادالدین ابی الفداء اسماعیل بن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، دارالاشاعت دیو بند، ۲۰۰۲ء، ص۲۷۵
۲۸۔ علامہ سید سلیمان ندوی، سیرۃالنبی، دارالمصنفین، شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ،۲۰۰۳، جلد:۴، ص۲۵۷
۱۔ فوکویاما، The End of History، ۱۹۹۲ء ۲۔ برنارڈ لیوس، ماہ نامہ The Atlantic، ستمبر ۱۹۹۰ء
۳۔ لیوس کی چند کتب What Went Wrong? Western Impact and Middle Eastern Response ،۲۰۰۲ء، Crisis of Islam، ۲۰۰۳ء، مقالہ Muslims to the War on Europe، یروشلم پوسٹ، ۲۹ جنوری ۲۰۰۷ء۔ ۴۔ ہن ٹنگٹن ، مجلہ فارن افیئرز، گرما، ۱۹۹۰ء۔
۵۔ ہن ٹنگٹن، تہذیبوں کا تصادم، ترجمہ: محمد شفیع شریعتی، سری نگر، ۲۰۱۳ء، ص ۲۵۴۔
۶۔ حوالہ سابق، ص ۶۱ ۷۔ حوالہ سابق، ص ۲۳۹ ۸۔ہن ٹنگٹن ،مجلہ فارن افیئرز، گرما، ۱۹۹۰ء۔
۹۔ ایضاً ۱۰۔ ہن ٹنگٹن، تہذیبوں کا تصادم،ص ۲۹۰
۱۱۔ مراد ہوف مین، تہذیبوں کا تصادم، اکیسویں صدی میں،سہ ماہی مغرب اور اسلام، اسلام آباد، جولائی تا دسمبر۲۰۰۰ء۔
۱۲۔ عبداللہ احسن، The Clash of Civilizations Thesis and Muslims، مشمولہ Islamic Studies، گرما، ۲۰۰۹ء،ص ۱۹۸۔
۱۳۔ ڈینیل پایپس، The Enemy Has a Name، یروشلم پوسٹ، ۱۹ جون ۲۰۰۹ء۔
۱۴۔ ڈینیل پایپس، Radical Islam Creates Terrorism، دی ٹائمز آف انڈیا، ۲۱مارچ ۲۰۱۶ء
۱۵۔ ایڈورڈ سعید: Covering Islam، نیویارک ۱۹۸۱ء، ص ۱۳۶۔
۱۶۔ تفصیل دیکھیے: جان اسپوزٹیو، The Islamic Threat, Myth or Realty، نیویارک ۱۹۹۹ء۔
۱۷۔ احمد سجاد، مغرب سے نفرت کیوں؟ سہ ماہی مطالعات، جلد۶، شمارہ ۱۷، ۱۸،۱۹۔
۱۸۔ پروفیسر ہن ٹنگٹن ، تہذیبوں کا تصادم، ص ۹۰۔
۱۹۔ فیروز اللغات، دارالکتاب، دیوبند، یوپی، ۱۹۹۹ء، ص ۳۹۵۔
۲۰۔ The Universal English Dictionary
۲۱۔ پرو فیسر خورشید احمد،تہذیبوں کا تصادم۔حقیقت یا واہمہ ،تر جمان القرآن لاہور مئی ۲۰۰۶ء،ص۲۲
۲۲۔ مرادہوف مین ،تہذیبوں کا تصادم اکیسویں صدی میں،سہ ماہی مغرب اور اسلام،اسلام آباد، جولائی تا دسمبر ۲۰۰۰ء
۲۳۔ مولانا عیسیٰ منصوری، مغرب اور عالم اسلام کی فکری و تہذیبی کش مکش ،ورلڈ اسلامک فورم، ۲۰۰۰ء،ص:۸۸
۲۴۔ ڈاکٹر انیس احمد ،تہذیبی روایات کا مکالمہ، سہ ماہی مغرب اور اسلام، اسلام آباد، جنوری تا مارچ،۲۰۰۱ء۔
۲۵۔ تفصیل کے لیے دیکھیے،islamic studies ,A common word between us and you, 2008,p:243 to 263.
۲۶۔ زکی المیلاد ،تہذیبوں کے باہمی تعلقات: مفاہمت ومذاکرات،(اردوترجمہ،ڈاکٹر نگہت حسین ندوی)، انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹیڈیز، ۲۰۰۴،ص۳۱
۲۷۔ عمادالدین ابی الفداء اسماعیل بن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، دارالاشاعت دیو بند، ۲۰۰۲ء، ص۲۷۵
۲۸۔ علامہ سید سلیمان ندوی، سیرۃالنبی، دارالمصنفین، شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ،۲۰۰۳، جلد:۴، ص۲۵۷
Comments
Post a Comment