مسلم دنیا میں عوامی انقلابی لہر: چند مزید زاویے



ڈاکٹر انیس احمد
مسلم دنیا گذشتہ دو صدیوں میں عظیم سیاسی، معاشی، معاشرتی اور ثقافتی انقلابوں کا اور بیرونی طاقتوں کی خصوصی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ اُمت کے اندرونی خلفشار، انتشارِ فکری، معاشی اضمحلال اور عسکری پس ماندگی نے اسے بیرونی طاقتوں کے لیے ایک تر نوالہ بنا دیا۔ چنانچہ انیسویں صدی میں مشرق وسطیٰ اور افریقہ جو کل تک مسلمانوں کی عالمی طاقت کا مظہر تھے، دیکھتے ہی دیکھتے یورپی سامراجی طاقتوں کے زیراثر آگئے۔ برطانیہ نے ۱۸۸۲ء میں مصر کو زیرنگیں کیا اور اس دوران  فرانس نے الجزائر، تیونس، مراکش اور شام پر تسلط قائم کیا۔ سلطنت عثمانیہ کے زوال کے نتیجے میں اطالویوں نے لیبیا کو اپنے دائرۂ اثر میں شامل کرلیا۔
ایک جانب مغربی سامراج اپنے توسیعی عزائم کے ساتھ مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں اپنے قدم جما رہا تھااور دوسری جانب اللہ تعالیٰ کے قانون کی پیروی کرتے ہوئے اُمت مسلمہ میں بیداری کی تحریک اس کی بے سروسامانی کے باوجود اُبھر رہی تھی۔ چنانچہ شیخ عبدالکریم الریفی نے ۱۹۲۰ء میں ریف میں اسپین کی افواج کو شکست دے کر ایک اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی لیکن   جلد مراکش پر قابض فرانسیسی سامراج سے ٹکر ان کے لیے مہلک ثابت ہوئی۔ ادھر سوڈان میں محمداحمدالمہدی کی قیادت میں برطانیہ کے خلاف تحریکِ آزادی برپا ہوئی، اور اسی عرصے میں لیبیا میں افسانوی کردار کے حامل مجاہد عمرمختار نے اطالوی سامراج کا ۲۰سال تک پامردی سے مقابلہ کیا۔ یہ تحریکات اور ان کے بانی، گو مکمل طور پر اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے لیکن انھوں نے بیرونی سامراج کے خلاف جس جدوجہد کو اپنے خون سے سینچا وہ بالآخر نتیجہ خیز ثابت ہوئی۔
مسلم دنیا سے مغربی سامراج کے پسپا ہونے کے بعد حالات ایک نیا رُخ اختیار کرگئے۔ اب مغربی سامراج کی جگہ اس کے تربیت یافتہ فوجی سربراہ، سلاطین اور آمروں کا دور شروع ہوا۔ چنانچہ مصر میں جمال عبدالناصر کے بعد حسنی مبارک، لیبیا میں معمرقذافی، یمن میں علی عبداللہ صالح،  یا بحرین میں خلیفہ خاندان کی حکومت کو براہِ راست امریکی اور یورپی اقوام کی حمایت اور امداد حاصل رہی۔ ان آمروں اور بادشاہوں نے اپنے عوام کو اپنی ناجائز دولت اور ظلم و جور کے ذریعے خاموش رکھنے اور اپنے ذاتی اقتدار کو قائم رکھنے میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی۔
آج مسلم دنیا میں جو انقلابی لہر نظر آرہی ہے وہ اسی آمریت اور ملوکیت و سلطانی کے خلاف عوام الناس کے اتحاد کی مظہر ہے۔ لیکن بات اتنی آسان بھی نہیں ہے۔گو، بنیادی طور پر ہرانقلابی تحریک کا آغاز اندر سے ہوتا ہے اور جب تک اندرونی عناصر اس میں شامل نہ ہوں کوئی تحریک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتی، لیکن حالیہ تحریکات میں بیرونی ہاتھ، وسائل اور دولت کا استعمال جس آزادی سے کیا جا رہا ہے وہ مغربی لادینی جمہوریت کے اخلاقی دیوالیہ پن کا جیتا جاگتا ثبوت ہے اور مسلم دنیا کو کسی نہ کسی طرح اپنی گرفت میں رکھنے اور اس کے وسائل کو اپنے تصرف میں لانے کے ایجنڈے کا ایک اہم پہلو ہے۔
l یمن: یمن اس کی ایک نمایاں مثال ہے۔ امریکی نام نہاد جمہوریت کے علَم بردار، صدر اوباما، جن کے نام کے ایک حصے سے دھوکا کھاکر امریکا کے اکثر مسلم شہریوں نے انھیں اپنے ووٹ دیے، یمن سے گہری دل چسپی رکھتے ہیں۔ سی آئی اے کے سربراہان کے بقول یمن میں پائی جانے والی ’القاعدہ‘ کی قوت پاکستان یا کسی اور ملک سے کہیں زیادہ خطرناک اور نقصان دہ ہے۔ اس بنا پر پینٹاگون کی مشترکہ خصوصی کمانڈ، اور سی آئی اے کے اشتراک سے یمن سے بھاگ جانے والے صدر علی عبداللہ صالح کے تعاون سے یمن میں سرگرمِ عمل ہے۔ صدرصالح کے زخمی ہوکر سعودی عرب بغرض علاج جانے کے بعد صدر کے بیٹے اور خاندان کے افراد جو یمن کی حکومت، فوج اور دیگر کلیدی مناصب پر ۳۰سال سے قابض ہیں، عوامی انقلاب کو ناکام بنانے کے لیے امریکی امداد اور اپنی ناجائز دولت اور عسکری قوت کے سہارے ہرممکن کوشش کر رہے ہیں تاکہ ان کے ذاتی اقتدار اور امریکی مفادات کی حفاظت کی جاسکے۔
l لیبـیا: لیبیا میں بھی بیرونی مالی، عسکری اور سیاسی اثرات کو کھلے عام اس غرض سے استعمال کیا جارہا ہے کہ یا تو لیبیا کو مشرقی اور مغربی حصوں میں تقسیم کردیا جائے یا کرنل قذافی اور  ان کے حمایتی قبائل کو عسکری قوت کے ذریعے شکست دے کر لیبیا کے تیل کے ذخائر کو مغربی اقوام کے استعمال کے لیے آسان بنا دیا جائے۔ مغربی ذرائع کے مطابق اطالوی وزیرخارجہ فرانکو فریٹنی نے رائٹر کو بیان دیا کہ اٹلی ۴۰۰ ملین یورو نقد امداد قذافی کے مخالفین کو دے گا۔ ادھر کویت     نے ۱۸۰ملین ڈالر کی امداد کا اعلان کیا ہے۔ ناٹو کو ایک امریکی تجزیہ کار ولیم بلم نے Naked Aggression Treaty Organization(ننگی جارح تنظیم)کے نام سے یاد کرتے ہوئے اس کی کارگزاری پر سخت تنقید کی ہے۔ لیبیا پر اس کی کتاب Killing Hopeمیں تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ امریکا نے حالیہ چند برسوں میں عراق، افغانستان، پاکستان، صومالیہ، یمن اور لیبیا پر جس طرح جارحیت کی ہے اس سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر امریکی صدر کے ساتھ معاملہ کیا ہے؟ (what is wrong with the American President) ہم اسے یوں کہیں کہ what is not wrong with him? تو شاید زیادہ درست ہو۔ اس کا کہنا ہے کہ قطر سے جاری ہونے والی الجزیرہ کی نشریات امریکی پالیسی اور ناٹو کی تباہ کاریوں کی بھرپور توثیق کرنے کے سبب اپنا اعتبار کھو چکی ہیں۔ ناٹو کے ۱۳ہزار سے زائد فضائی حملوں میں ۴ہزار ۹سو ۶۳ بمباریوں میں ہزارہا افراد شہید اور زخمی ہوئے ہیں، جب کہ ذرائع ابلاغ صرف کرنل قذافی کی حمایتی فوج کی تباہ کاریوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔ اس پر ظلم یہ کہ ان تمام حملوں کو لیبیا کے خلاف جنگ نہیں قرار دیا جاتا۔ ولیم بلم سوال کرتا ہے کہ اگر کوئی بیرونی طاقت امریکا کی سرزمین پر میزائل داغے تو کیا اسے بھی ہلّہ بول دینا (strike sorties) کہا جائے گا یا جنگی اقدام قرار دیا جائے گا؟
لیبیا پر ناٹو کے ذریعے امریکی حملہ جس عنوان سے بھی کیا جا رہا ہو، اسے بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی اور ننگی جارحیت کے علاوہ کچھ اور نہیں کہا جاسکتا۔ بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ ۲۰۵۰ء تک محدود اندازوں کے مطابق توانائی کے جس بحران کی پیشن گوئی کی جارہی ہے، نہ صرف ناٹو کے ذریعے امریکی جارحیت بلکہ دیگر مسلم ممالک میں امریکی مداخلت کا اس کے ساتھ انتہائی منطقی تعلق ہے۔ لیبیا اور یمن میں خلافِ قانون کارروائی (dirty work) کے لیے امریکا اپنی فوج کی جگہ ان ممالک کو استعمال کر رہا ہے جو وہاں کے جغرافیائی، فضائی اور انسانی مسائل کے حوالے سے بطور سابقہ سامراجی حکمران ذاتی تجربہ رکھتے ہیں اور جو وہاں کی گلیوں اور شہروں سے مانوس ہیں۔ دوسری جانب قذافی اور یمن کے صدر کے خاندان کے افراد اپنی ناجائز جمع کردہ دولت اور تعلقات و وسائل کا پوری قوت سے استعمال کر رہے ہیں تاکہ انقلاب کی بڑھتی ہوئی لہروں کی شدت کو کم کیا جاسکے۔
l بحرین: بحرین کی صورت حال ان دونوں سے کسی قدر مختلف ہے۔ یہاں مسلکی اختلاف رکھنے والی منظم اقلیت جس کی مقامی جڑیں خاصی مضبوط ہیں، ایک عرصے سے برسرِاقتدار خاندان کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے اور پارلیمنٹ میں واضح تعداد میں ان کی موجودگی بھی ان کی حمایت کی توثیق کرتی ہے۔ یہاں فرماں روا خاندان بھی سلطانی ذرائع اور حربوں کا استعمال کرکے اپنی برتری قائم رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔ حزبِ اختلاف کی جماعت وفاق پارٹی ۴۰ممبران کی پارلیمنٹ میں ۱۸نشستوں پر قابض ہے اور کم آمدنی والے شیعہ ممبران اس کی اصل قوت ہیں۔ یہ قانون کا احترام کرنے اور منظم مظاہرے کرنے کی شہرت رکھتی ہے۔ مجمع العمل الاسلامی جو اسلامک فرنٹ کی جانشین جماعت ہے اس کا آیت اللہ محمد شیرازی سے قریبی تعلق بیان کیا جاتا ہے۔ اس کے بانی محمد علی المحفوظ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حکمران خلیفہ کا تختہ اُلٹنا چاہتے تھے۔
موجودہ صورت حال میں یمن پر ۳۳سال سے اور لیبیا پر چار عشروں سے حکومت کرنے والے آمروں کی حکمت عملی تقریباً وہی ہے جو حسنی مبارک نے ۳۰سال اختیار کیے رکھی، یعنی اگر ہمیں حکومت سے ہٹایا گیا تو ’اسلامیان‘ جنھیں مختلف عنوانات سے یاد کیا جاتا ہے، ملک پر قابض ہوجائیں گے۔ اسلامی شدت پسندی، بنیاد پرستی،اسلامی جہاد اور اس سے ملتے ہوئے دیگر الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے یورپ اور امریکا کو اسلامی ریاست کے خطرات دکھا کر اپنے اقتدار کو    مزید طول دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام کا ’خطرہ‘ نہ صرف مشرق وسطیٰ اور افریقہ بلکہ خود پاکستان کے حوالے سے بھی ایک سیاسی حقیقت ہے، اور اس خطرے کی گھنٹی کے بجنے میں گذشتہ عشرے میں اضافہ ہی ہوا ہے۔
اسلامی قیادت کے لیے چند غور طلب پھلو
اس تناظر میں مسلم قیادت کے لیے چند امور خاص طور پر قابلِ غور ہیں:
l مسلم دنیا اور امریکا کے تعلقات: اس امر میں کوئی شک نہیں کہ مسلم دنیا کے عوام گیلپ کے عالمی جائزے کے مطابق جسے ۲۰۰۶ء میں بڑے پیمانے پر کیا گیا، امریکی حکومت کی پالیسیوں خصوصاً فلسطین کے مسئلے پر اسرائیل کی مسلسل حمایت اور مسلم دنیا میں جابر اور غیراخلاقی طور پر قابض حکمرانوں کی حمایت کرنے کے سبب امریکا کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ لیکن امریکا کی عسکری طاقت اور دنیا کے مختلف ممالک خصوصاً عراق، افغانستان، شمالی پاکستان پر امریکی فوجی حملوں کے تناظر میں امریکا کا ہوّا اور اس کا ڈر بھی ایک زمینی حقیقت ہے۔ اس صورت حال میں مسلم قیادت کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ کیا امریکا پر محض لعن طعن اور عوامی خطابات میں اس کی واپسی کا مطالبہ کرنا مسائل کے حل کی طرف لے جاسکتا ہے یا اس بات کی ضرورت ہے کہ امریکی دراندازی کو ان عملی ملکی مسائل کے پس منظر میں پیش کیا جائے جن سے عوام دوچار ہیں۔ یہ کہ ملک میں غربت کے اضافے میں کس طرح امریکا کا دخل ہے۔ ملک میں دہشت گردی اور عدم تحفظ اور  جان و مال اور عزت پر حملے کاامریکی موجودگی سے کیا تعلق ہے؟ روزمرہ کی اجناس کی قیمتوں میں اضافے اور اس خطے میں امریکی پالیسی میں کیا اندرونی تعلق پایا جاتا ہے۔ عوامی مسائل پر توجہ  مرکوز کرتے ہوئے امریکا کو مسائل کا اصل سبب قرار دینا عوام اور خواص میں مسلم قیادت کے   مقام و کردار کی بہتر ترجمانی کرسکتا ہے۔
l ذرائع ابلاغ اور فکری خلفشار: مسلم قیادت کو اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ وہ خود کس حدتک ہمارے میڈیا، ذرائع ابلاغِ عامہ کے پیدا کردہ فکری خلفشار کی شکار ہے۔ اس وقت ملک کے بیش تر ٹی وی کے پروگرام اور تجزیے خواہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت یا مال دار ادارے سے تعلق رکھتے ہوں اجتماعی طور پر اپنے ناظرین کو ملک کے مستقبل سے مایوس کرنے، حالات کے بگڑنے کی ایسی تصویر پیش کرنے میں جس کی تان ملک کے ٹوٹنے پر جاکر رُکے، اور اسلام کے حوالے سے یہ تاثر دینے میں لگے ہیں کہ یا تووہ ماضی کا قصہ ہے یا اگر اسلام نافذ ہوا تو فرقہ واریت، بنیاد پرستی، انتہا پسندی، تشدد، ماردھاڑ، تکفیر اور خصوصاً خواتین کے حقوق کی پامالی ایک یقینی امر ہے۔ گویا اسلام کو بھیانک بنا کر پیش کرنے میں جو جتنی زیادہ فن کاری کا استعمال کرتا ہے، اتنا ہی لبرل، ترقی پسند اور رواداری کا علَم بردار سمجھا جاتا ہے۔
مسلم قیادت کے لیے قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ کیا وہ اس منفی اور تخریبی اندازِفکر کی جگہ ملک کے روشن مستقبل، یک جہتی اور محفوظ ہونے کے مثبت تصورات کو عوام تک پہنچارہی ہے، یا وہ بھی بیرونی قوتوں کی اس ابلاغی سازش سے جسے ملکی ذرائع ابلاغ کے ذریعے کیا جا رہا ہے غیرشعوری طور پر متاثر ہوجاتی ہے۔ اسلام اُمید، اللہ تعالیٰ سے بہترین توقع اورزندگی کے روشن پہلوئوں پر مبنی مستقبل کی تعمیر کی دعوت دیتا ہے۔ مایوسی اور نااُمیدی کورد کرتا ہے اور اسے ایمان کے منافی قرار دیتا ہے۔ مسلم قیادت کو اس طرف خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ اس کے طرزِعمل سے مایوسی کا اظہار نہ ہو بلکہ وہ اُمت مسلمہ میں اُمید، اعتماد اور منزل کا یقین پیدا کرنے کے لیے عملی اقدامات کرے۔
l معاشی خودانحصاری:مسلم قیادت کے لیے تیسرا قابلِ توجہ نکتہ معاشی خودانحصاری کا حصول ہے۔ عالمی معاشی مراکز سرمایہ دارانہ نظام کے نمایندہ شمالی ممالک کے ذریعے جنوب کے معاشی نظام کو اپنے قابو میں رکھے ہوئے ہیں۔ مسلم دنیا اپنے وسائل کے لحاظ سے غیرمعمولی طور پر مال دار لیکن اپنی معاشی حکمت عملی اور معاشی طرزِ فکر کے لحاظ سے انتہائی کنگال واقع ہوئی ہے۔ مغربی سرمایہ دارانہ فکر نے اس کی قیادت کو صرف ایک ہی معاشی حل سمجھایا ہے اور وہ ہے بیرونی امداد کے سہارے ترقی کے نام پر لیے گئے قرضوں کی جزوی ادایگی اور نتیجتاً اپنی معاشی بدحالی میں اضافہ۔ مسلم ممالک اگر انتہائی سادہ اور غیرترقی یافتہ حکمت عملی، یعنی مال کے بدلے مال ہی کو آپس میں متعارف کرا دیں توچندبرسوںمیں ڈالر کی غلامی سے نجات مل سکتی ہے۔ مسلم دنیا کے قدرتی وسائل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک انعام اور آزمایش کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان وسائل کو اگر امانت اور دیانت کے اسلامی اصولوں کے تحت استعمال میں لایا جائے تو مغرب پر انحصار کا خاتمہ آج ہوسکتا ہے۔ مسلم دنیا کا معاشی استحکام اور خودانحصاری نہ صرف معیشت بلکہ اس کی سیاست، معاشرت، تعلیم اور ثقافت، غرض ہرشعبۂ حیات پر اثرانداز ہوگی اور چاہے وہ سیاست ہو یا تعلیم و معاشرت، اس پر مغربی سرمایہ دارانہ نظام کے اثرات آہستہ آہستہ زائل ہوسکیں گے۔
جغرافیائی طور پر بھی اللہ تعالیٰ نے مسلم دنیا کو ایک سبزپٹی کی شکل دے رکھی ہے کہ تجارتی قافلوں اور ریل، شاہراہوں اور سمندری راستوں پر ہرطریقے سے اشیاے تجارت کے نقل و حمل میں کوئی دقت پیدا نہیں ہوسکتی۔ صرف مسلم قیادت کو اس طرف یکسوئی کے ساتھ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ مخفی سرمایہ نہ صرف مسلم دنیا کو معاشی خودانحصاری فراہم کرسکتا ہے بلکہ تھوڑے عرصے میں مسلم دنیا کو ایک متحدہ بلاک کی طرف لے جاسکتا ہے۔
یاد رہے معاشی تعلقات کی بنیاد محض معاشی مفاد کبھی نہیں ہونی چاہیے بلکہ حلال اور مباح تجارت و معیشت کی ترقی اور حرام سرمایہ دارانہ استحصالی معیشت سے نجات کی بنیاد پر مسلم دنیا کا  اتحاد یورپی معاشی اتحاد سے زیادہ حقیقی، پایدار اور باہمی منفعت کا حامل ہوسکتا ہے کیونکہ اس کی بنیاد اخوت، خوفِ خدا اور بھلائی میں تعاون اور برائی کے خلاف اتحاد پر ہوگی۔ آج جب امریکا کے معاشی، سیاسی اور اخلاقی زوال کی پیشن گوئی خود امریکی ماہرین علومِ عمرانیات و معاشیات کر رہے ہیں، مسلم قیادت کے لیے معاشی خودانحصاری کا حصول ایک اہم ضرورت کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ اس ضمن میں عملی اقدامات میںتاخیر مزید مسائل و مشکلات پیدا کرسکتی ہے۔
l بڑہتی ھوئی عصبیت کے خلاف جدوجھد:مسلم قیادت کے لیے چوتھا قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی لسانی اور نسلی عصبیت جو ہربرسرِاقتدار مفاد پرست آمر اور سیاسی بازی گر کا حربہ ہوتی ہے اور جس کے ذریعے وہ بندربانٹ کرکے خود کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، اُس عصبیت کی آگ کو بجھانے اور دونوں فریقوں کے درمیان مفاہمت پیدا کرنے میں کیا کردار ادا کرسکتی ہے۔
مسلم قیادت ہی وہ واحد عنصر ہے جو پاکستان میں بڑھتی ہوئی عصبیت اور لسانی منافرت کے مظاہر کے خاتمے اور مختلف المسالک و مذاہب گروہوں کے درمیان غلط فہمیوں اور نفرتوں کو   دُور کرنے میں اپنا مثبت کردارادا کرسکتی ہے۔ کیا ایک دن میں ۸۰؍افراد کا ظالمانہ قتل تحریکی فکر   سے وابستہ افراد کو اُس مثبت کردار کی دعوت نہیں دیتا جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سورئہ حجرات (۴۹:۹-۱۰) میں فرمایا گیا ہے کہ اگر دو مسلم گروہوں میں جھگڑا ہوجائے تو اپنے بھائیوں میں صلح کرائو، اگر وہ اس پر آمادہ نہ ہوں تو تحقیق کرنے کے بعد دونوں میں سے جو ظالم ہو اس کے خلاف مظلوم کا ساتھ دو، اور جب وہ ظلم سے باز آجائیں تو اپنا ہاتھ روک کردلوں کو جوڑتے ہوئے اخوت پیدا کرنے اور عدل کے رویے پر عامل ہونے کی کوشش کرو۔
l اندازِ فکر میں جدت: اسلامی فکر رکھنے والے افراد خصوصاً تحریکی فکر کے افراد کے لیے ایک قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ مسلم معاشرے میں جو فساد اور انتشار پایا جاتا ہے اسے دُور کرنے کے لیے انھوں نے اسلام کے صحیح علم کو کم تعلیم یافتہ اور تعلیم یافتہ طبقات تک کس حد تک پہنچایا ہے۔ کیا روایتی اجتماعات، تقاریر کافی ہیں یا جمعہ کے اجتماعات کا حکمت دین کے ساتھ استعمال، مساجد میں ایک ورقہ پمفلٹ کی تقسیم، معاشی، معاشرتی مسائل پر مختصر خطابات کا استعمال مؤثر طور پر کیا جارہا ہے۔
یمن میں خواتین نے جمعہ کے اجتماع میں سڑکوں پر مساجد کے باہر نماز قائم کرکے، اپنے  غم و غصے اور احتجاج کا اظہار کیا۔ یہ ایک پُرامن طریقہ ہے جو عوام کو متحرک کرنے اور انھیں مسائل کے حل کے لیے متحد کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ہم لگے بندھے انداز سے ہٹ کر سوچنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ کیا ہم اس دائرے کوتوڑنے کی شعوری کوشش کرسکتے ہیں جس میں مفاد پرست سیاست دان عصبیتوں کو ہوا دے کر، بعض اوقات امن عامہ کو خراب کرکے، اور بعض اوقات محلاتی سازشوں کے ذریعے فوج یا سیاسی جماعتوں میں وقتی اتحاد پیدا کرکے اپنا مطلب پورا کرتے رہے ہیں۔ یہ عمل ایک تسلسل سے ہمارے سامنے ہو رہا ہے۔ مسلم دنیا کے انقلابات خصوصی طور پر پیغام رسانی کے ذریعے انقلاب کے طریقے کو اگر صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بناتے ہوئے ایک صحت مند، اسلامی تبدیلی کے لیے راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔
مسلم قیادت کو لیبیا، یمن، اور بحرین کے واقعات دعوت دیتے ہیں کہ وہ لگے بندھے انداز سے ہٹ کر غور کرے اور عوامی مسائل و مشکلات پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے حالاتِ حاضرہ کے لحاظ سے ایسی حکمت عملی وضع کرے جو اُمت کو مکڑی کے جالے سے آزاد ہونے، اپنے پائوں پر کھڑے ہونے، اور تحریکاتِ اسلامی کے نصب العین، یعنی رضاے الٰہی کے حصول میں کامیابی سے ہم کنار کرسکے۔
شام کی صورت حال
مغربی ابلاغ میں ’عرب بہار‘ (Arab Spring) کا ذکر ۲۰۱۱ء کے آغاز سے اُبھرنے والی انقلابی تحریک کے حوالے سے مسلسل کیا جا رہا ہے۔ تیونس کے چنبلی یا سفید انقلاب اور اس کے متوازی مصری انقلاب نے اردگرد کے مسلم ممالک میں ایک نئی فضا پیدا کردی جس میں یمن، بحرین، لیبیا اور شام دنیا کی توجہ کا مرکز بن گئے۔ شام کی صورت حال دیگر ممالک کے تناظر میں خاصی پیچیدہ ہے۔ اختصار کے پیش نظر ہم صرف پانچ نکات پر بات کریں گے۔
کسی بھی ملک میں انقلابی صورت حال اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب اس کے اپنے شہری صورت حال کے پیش نظر پیش قدمی کریں لیکن مسلم دنیا میں خصوصاً اللہ تعالیٰ کی طرف سے تیل اور دیگر ذخائر کا پایا جانا مغربی سامراجیوں کی توجہ اور دل چسپی کا مستقبل سبب رہا ہے، چنانچہ شام کے حوالے سے امریکی کردار بہت پرانا ہے۔ ۱۹۴۷ء اور ۱۹۴۹ء کے درمیان امریکی حکومت نے  حسبِ عادت عوام کو ’جمہوریت‘ کا تحفہ دینے کے بہانے دخل اندازی کا آغاز کیا۔ چنانچہ برطانوی اور امریکی خفیہ اداروں نے مشترکہ طور پر بادشاہت کا تختہ اُلٹنے کی سازش میں شرکت کی اور حالات کو بد سے بد تر کی طرف لے جانے میں کامیابی حاصل کی۔ اسی دوران ۱۹۵۳ء میں دونوں اداروں نے وزیراعظم مصدق کے خلاف ایران میں کھل کر مالی اور افرادی قوت کا استعمال کیا۔
ـموجودہ صورت حال میں امریکا دمشق کے انسانی حقوق کے مرکز صَبا، جس کا براہِ راست تعلق (U.S. National Endowment for Democracy) سے ہے، اور دیگر اداروں، مثلاً ڈیموکریسی کونسل اور انٹرنیشنل ری پبلکن انسٹی ٹیوٹ کے ذریعے کھلے عام مالی امداد دی جارہی ہے اور سیاسی کارکنوں اور عسکری گروہوں کی تربیت کا کام کیا جا رہا ہے۔ امریکا کی یہ دوعملی کوئی    نیا معاملہ نہیں ہے۔ جہاں یہ آمروں، فوجی ڈکٹیٹروں کی پشت پناہی میں سب سے آگے ہے وہیں ’جمہوریت‘ کے نام پر سیاسی خلفشار پیدا کر کے اور ملک میں خانہ جنگی پیدا کرکے براہِ راست اقوام متحدہ یا اپنی فوجی مداخلت کے لیے فضا تیار کرنا اس کی حکمت عملی کا ایک ستون ہے۔ یہ شکل مکمل طور پر  شام میں پائی جارہی ہے۔
دوسرا اہم پہلو شام میں شیعہ اور سُنّی اختلافات کے ذریعے صورت حال کو نازک بنانا ہے۔ اس میں نہ صرف امریکا اور اسرائیل بلکہ ایران اور عراق کی پالیسیوں کا بھی بڑا دخل ہے۔ چنانچہ شام نے عراق میں شیعوں کی حمایت کے ذریعے مالکی کی حکومت کی حمایت اور فوجی امداد کے ذریعے عراق میں شیعہ اقتدار کے قیام میں سرگرمی سے حصہ لیا جس کے نتیجے میں نہ صرف شام کی سُنّی آبادی بلکہ اردگرد کے ممالک خصوصاً سعودی عرب اور خلیج کے امرا نے ردعمل کے طور پر سنیوں کی حمایت میں اپنی بھلائی محسوس کی۔ اس سلسلے میں الجزیرہ کا کردار غیرمعمولی طور پر اہم ہے۔ خلیجی ممالک نے شام کو ۲۰ ملین ڈالر کی امداد کی پیش کش اسی غرض سے کی ہے۔
تیسری جانب ابوموسیٰ الزرقاوی کی فکر رکھنے والے گروہوں نے جن کی تعداد اچھی خاصی ہے اور جو عراق کی جنگ میں حصہ لے چکے تھے، شام کی سُنّی آبادی کے تحفظ کے لیے ملک گیر مہم شروع کی جس میں بیرونِ ملک کے سُنّی عناصر نے جنھیں مغربی ابلاغ عامہ ’سلفی‘ کے لقب سے یاد کرتا ہے، حصہ لیا اور اس وقت ان کا بنیادی نعرہ یہ ہے کہ اصلاً بلدالشام جو جغرافیائی طور پر لبنان، شام، فلسطین پر مبنی تھا، اس کی آزادی ہونی چاہیے کیونکہ اس خطے پر اب شیعہ بلکہ علوی اقتدار ہے، جو خود معروف شیعہ مذہب سے کٹا ہوا ایک فرقہ ہے۔ اسد اور اس کے حامی جن کا تعلق علوی فرقے سے تمام کلیدی مناصب پر قابض ہیں۔
چوتھی جانب یورپی ممالک خصوصاً فرانس یہ چاہتا ہے کہ ملک میں انتشار میںاضافہ ہو اور اس طرح اسرائیل کو جو خطرہ شام یا ایران سے ہوسکتا ہے اس میں کمی واقع ہو اور اسرائیل کی دفاعی قوت میں اضافے کا باعث ہو۔
پانچواں پہلو تحریکِ اسلامی کے حوالے سے خصوصی طور پر قابلِ غور ہے۔ شیخ یوسف قرضاوی جو نہ صرف ایک اعلیٰ درجے کے عالم اور فقیہ ہیں، ان کا اخوان المسلمون سے تعلق ان کی ہربات کو براہِ راست یا بالواسطہ مشرق وسطیٰ کی تحریک اسلامی سے منسلک کردیتا ہے۔ انھوں نے اپنے بعض بیانات میں شدت سے بشارالاسد کی حکومت کی مخالفت کا اظہار کیا ہے، جب کہ شام کے بعض دینی عناصر بشارالاسد کے واضح شیعہ طرزِعمل اور سُنّیوں کو نظرانداز کرنے کی پالیسی کے باوجود یہ محسوس کر رہے ہیں کہ اسد کے جانے کے بعد اس کے جانشین اس سے بہتر نہیں ہوں گے۔
ان حالات میں مسلم قیادت کے لیے غور کرنے کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ سیاسی انتشار و انقلاب کی اس فضا میں کیا وہ اپنا وزن کسی ایک فریق کی طرف ڈال کر کوئی فوری ہدف حاصل کریں یا اس دورِ فتنہ میں اپنا الگ تشخص برقرار رکھتے ہوئے قیادت اور معاشرے کی اصلاح کے طویل المیعاد ہدف کے لیے کام کریں۔ یہ سوال غالباً صرف شام کے لیے نہیں بلکہ دیگر مسلم ممالک میں بھی دینی قیادت کے لیے ایک کلیدی سوال ہے جس پر غور کرنے کی ضرورت پہلے سے زیادہ شدید ہے۔
 



Comments