پاکستان میں مولانا وحید الدین کی سوچ کے حاملین کا اپنی موجودگی کا احساس دلانا
پروفیسر ڈاکٹر سہیل انصاری
مسلمانوں کو ہی مسلمانوں پر ہونے والےمظالم کا ذمہ دار
ٹھہرانا اور ہر ظلم و زیادتی کو خاموشی کے ساتھ برداشت نہ کرنے کو قرآن و سنت کے
خلاف قرار دینا ایک ایسی سوچ ہے جس کے پیچھے بہت ہی سوچی سمجھی حکمت عملی کارفرما
ہے
پی جا ایام کی تلخی کو بھی ہنس کر ناصرؔ
غم کو سہنے میں بھی قدرت نے مزا رکھا ہے
اس سوچ کی نمائندہ مثال انڈیا کے معروف دینی
دانشور مولانا وحید الدین صاحب ہیں پاکستان میں بھی مولانا وحید الدین صاحب کے
فکری دسترخوان کے خوشہ چین تیزی سے بڑھ رہے ہیں مولانا وحید الدین کے فکری طرز عمل
کو اپنانے والوں کو مولانا کی سوچ کے حاملین کہا جاسکتا ہے
اور اگرعوامی زبان میں کہا
جائے تو پھر حاملین کو مولانا وحید الدین صاحب کے فکری چیلے کہا جاسکتا ہے
کسی بھی شخص کی سوچ کو کوئی شخص
بھی اپنا سکتا ہے تاہم مولانا روم کی یہ بات پیش نظر رہے کہ
تمہاری اصل
ہستی تمہاری سوچ ہے باقی صرف گوشت اور ہڈیاں ہیں
مولانا وحید الدین صاحب مسلمانوں
کو جو ہر معاملے میں قصوروار ٹھہرانے میں ید طو لیٰ رکھتے ہیں اسی کو شاید دیکھتے
ہوئے شاعر نے یہ کہاں ہوگا
قاتل کی یہ دلیل منصف نے مان لی
مقتول خود گرا تھا خنجر کی نوک پر
قاتل سے مراد ہندوانتہاءپسند لے
لیجیے جو مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں اور منصف سے مراد
ہمارے پیارے اور بہت ہی محترم مولانا وحید الدین صاحب کے علاوہ تو کوئی اور ہو ہی نہیں
سکتا
بھرے ہیں تجھ میں وہ لاکھوں ہنر اے مجمع خوبی
ملاقاتی ترا گویا بھری محفل سے ملتا ہے
مولانا وحید الدین صاحب کی مریضانہ
حد تک غلامانہ سوچ نے پاکستان میں اپنی موجودگی کا
احساس جب کروایا جب ایک تحریر جس میں عالم اسلام
کے ان ممتاز سائنسدانوں کا تذکرہ تھا جن کو اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد نے قتل
کر دیا تھا کے جواب میں ذیل میں درج ایک بلیغ عبارت موصول ہوئی۔
"ہم کب تک اپنی ناکامیوں کاالزام غیروں کو دیتے رہیں گے"
بے اختیار منہ سے سبحان اللہ نکلا
میں
نے عبارت کے اندر اتر کر اس کی گہرائی کو
ناپنے کا سوچا مگر ڈوبنے کے اندیشے کے پیش نظر سطح پر رہتے ہوئے ہی اندازہ لگانے میں عافیت جانی۔
سطح پر رہنے کے باوجود مریضانہ
اور غلامانہ سوچ
اظہر من الشمس
تھی۔
اسرائیل کی خفیہ ایجنسی کے ہاتھوں ان افراد کا جو کہ
امت مسلمہ کا اثاثہ تھے قتل ہوا مگر قتل کے واضح ذمہ دار اسرائیل پر تنقید کرنے کے
بجائے ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہم کب تک اپنی ناکامیوں کا ذمہ داروں غیروں کو
ٹھہراتے رہیں گے۔
اسرائیل نے عالم اسلام کے ممتاز
سائنسدانوں کو قتل کروا کر امت مسلمہ کو جو ناقابل
تلافی نقصان پہنچا یا اس
پر بھی اسرائیل کو نہیں بلکہ اپنے آپ کو ملامت کرنی چاہیے۔
ماشاءاللہ کیا کہنے!
فیصلہ کیجئے جناب تالیاں بجا نی
ہیں یا سر پیٹنا ہے فیصلہ اتنا مشکل تو نہیں چلے آپ جب تک فیصلہ کریں ہم اس وقت تک
اس نرالی منطق پر تھوڑی سی گفتگو کرنے کی جسارت کر لیتے ہیں۔
غلامانہ
ذہنیت کی ذرا کرشمہ سازیاں تو دیکھے کیسے عقل پر پتھر پڑتے ہیں ہیں متاثرین کو ہی مورد
الزام ٹہرایا جا رہا ہے یعنی یہ جو افراد اسرائیل نے شہید کریں ہیں اس کے ذمہ دار
بھی ہم ہیں:
کیا قیامت ہے کہ خاطرؔ کشتۂ شب تھے بھی ہم
صبح بھی آئی تو مجرم ہم ہی گردانے گئے
اس مختصر سی عبارت
"ہم کب تک اپنی ناکامیوں
کاالزام غیروں کو دیتے رہیں گے"
نے
جس جامعیت کے ساتھ
اپنے اندر اس
سوچ کو جو
ہر شر کا ذمہ دار کھینچ تان کر مسلمانوں کو ہی ٹھہراتی ہیں کو سمویا ہے اس کا بلا شک و شبہ کوئی
جواب نہیں البتہ اس قماش کے جملوں کا جواب دینے کے لیے دور جانے کی بھی چنداں
ضرورت نہیں۔
ذرا
یہ تو بتائیں کہ
ان اشخاص کے قتل کا اسرائیل کے بجائے ہم اپنے آپ کو کیوں مورد الزام ٹھہرا یں
اور اسرائیل کے بجائے ہم اپنے آپ کو کیوں ملامت کریں۔
تو ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
جوہر قابل کی محرومی سے امت مسلمہ
کو جو نقصان ہوا تھا اس کو
تو
الفاظ میں بیان بھی نہیں کیا جا سکتا یوں سمجھ لیئجے کہ اگر کام کے شروع کرنے سے
پہلے ہی یا پھر کام کے ابتدائی دور میں ہی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو خدانخواستہ قتل
کر دیا جاتا تو
آج پاکستان ایٹمی قوت نہ ہوتا ہے ہم شاید اپنا وجود بھی کھو بیٹھتے اگر یہ سائنسدان
قتل نہ ہوتے تو آج امت مسلمہ کی
قوت میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا۔
کہیں یہ مطلب تو نہیں ہے کہ چونکہ
ہم نے ان کی حفاظت کا خاطرخواہ بندوبست نہیں کیا تھا لہذا ان کے قتل کے ذمہ دار
بھی ہم ہیں اگر بہت کھینچ تان کر یہ مطلب نکال بھی لیا جائے تو بھی حفاظت میں
کوتائی برتنے کے ذمہ دار توہم ہوسکتے ہیں ۔
مگر ہم ان کے قتل کے ذمہ دار کیسے
ہو سکتے ہیں کوتائی برتنے پر ہمیں شرمندگی کا اظہار تو کرنا چاہیے مگر اپنے گربان
میں جھانکنے کی بات سمجھ میں نہیں آتی۔
ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے کی
نصیحت کرنے والے ذرا یہ تو بتائیں اسرائیل نے کس بنا پر ان لوگوں کو مارا تھا
اسرائیل کی ان اشخاص سے کوئی ذاتی دشمنی تو نہیں تھی۔
جن کو جواب دینا چاہیے وہ تو دینگے
نہیں۔ چلیں میں ان مہربان دوستوں کی جانب سے جواب دینے کا فریضہ ادا کرنے کی کوشش کرتا
ہوں۔
کی بات سے بات کا
آغاز کرتا ہوں Gabrie Garcia Marquez
"What matters in life is not what happens to you
but what you remember and how you remember it."
آزاد ذہن رکھنے والوں کو جب جوتے پڑتے
ہیں تو وہ غیرت مندی کے جذبے کے ساتھ سب یاد رکھتے ہیں۔
خاک اور خون سے اک شمع جلائی ہے نشورؔ
موت سے ہم نے بھی سیکھی ہے حیات آرائی
اور اسی وجہ سے وہ جوتے لگانے والے
ہاتھوں کو پہلے روکنے کی اور پھر توڑنے کی فکر کرتے ہیں۔
اٹھو یہ منظر شب تاب دیکھنے کے لیے
کہ نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے
لیے
ذہنی غلاموں کا معاملہ یکسر مختلف
ہوتا ہے۔
جن آنکھوں سے مجھے تم دیکھتے ہو
میں ان آنکھوں سے دنیا دیکھتا
ہوں
کیونکہ غلام حقیقی معنوں میں غلام ہی
جب بنتا ہے جب آقا کی ناراضگی کی فکر ہر لمحہ ہر آن اس کو دامن گیر رہتی ہے۔
جوتے کھانے کو اپنی خوش
بختی سمجھتے ہوئے وہ مسلسل اپنے گریبان میں جھانکتا رہتا ہے تاکہ آقا کی وجہ
ناراضگی کو اپنی کسی کوتائی میں ڈھونڈ سکے۔
زمانہ اور ابھی ٹھوکریں لگائے ہمیں
ابھی کچھ اور سنور جانا چاہتے
ہیں ہم
سوال یہ ہے کہ ہم نے ایسا کیا
کردیا ہم سے ایسی کونسی گستاخی سرزد ہوگئی کہ ہمارے عظیم سائنسدانوں کو موت کی
نیند سلا دیا گیا جواب یہ ہے کہ ایسے دماغ پیدا کرکے ہم دراصل اپنی اوقات بھول گئے
تھے ہم اپنے آقاوں کے مقابلے میں آنا چاہتے تھے قصور ہمارا تھا بروقت اصلاح بھی
کردی گئی اچھے آقا غلاموں کی تربیت سے کبھی بھی غافل نہیں رہتے ۔
"پھر بھی
ہم اپنی کوتاہیوں کاالزام آقاوں کو دیتے ہیں"
Comments
Post a Comment