علمی دجل
پروفیسر ڈاکٹر سہیل انصاری
نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کے قتل عام کے بعد قبول اسلام کے واقعات پر ذیل میں درج ایک عبارت موصول ہوئی
یہ سب اللہ کا کرم ہے جو کام ہمیں دعوت اور اپنی شخصیت سے کرنا چاہیے تھا وہ کام اللہ تعالی نے اپنے طریقے سے لے لیا ورنہ ہم نے تو کوئی کسر غیر قوموں کو دین کا دشمن بنانے میں نہیں چھوڑی ورنہ ہم نے تو کوئی کسر غیر قوموں کو دین کا دشمن بنانے میں نہیں چھوڑی
اگر ایسی ہی بات ہے تو اس قتل عام کرنے والے شخص کو بھی ہم نے اپنا دشمن بنا لیا ہوگا یعنی قصور ہمارا اور بے قصور یہ بیچارا قاتل تھا
میرے علم کی حد تک تو نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کی کوئی عکسری تحریک نہیں چل رہی ہے ایسا تو نہیں کہ حافظ سعید اور مولانا مسعود اظہر کے جہاد کی بنا پر یا پھر تعبیر کی غلطی کو غلطی نہ ماننے والوں کی اصطلاح میں فساد کے ردعمل میں قاتل موصوف نے اشتعال میں آکر مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگے تھے یعنی نیوزی لینڈ کا یہ شخص رد عمل میں قاتل بن گیا یہ قاتل بیچارہ تو معصوم نکلا لہذا حافظ سعید اور مولانا مسعود اظہر کو نیوزی لینڈ میں ہونے والے قتل عام کا ذمہ دار سمجھتے ہوئے میں ان لوگوں کی جانب سے قاتل کی باعزت رہائی اور ان دونوں اشخاص کی ذلت آمیز گرفتاری کا مطالبہ کرتا ہوں
وہ کام اللہ تعالی نے اپنے طریقے سے لے لیا
اللہ تعالی نے اگر اسی طریقہ سے کام لینا شروع کر دیا تو پھر ہمیں ذہنی طور پر اور مغرب میں بسنے والے مسلمانوں کو ذہنی اور جسمانی طور پر ایسے قتل عام کے لیے تیار رہنا چاہیے اور ساتھ ساتھ ہر قتل عام کے بعد ہونے والے قبول اسلام کے واقعات پر اللہ کا شکر بھی ادا کرتے رہنا چاہیے
اس منطق کو ذرا مزید آگے بڑھاتے ہیں توہین آمیز گستاخانہ خاکے بنانے والے کی بھی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے کیونکہ ان خاکوں پر مسلمانوں کے شدید رد عمل کی بنا پر مغرب اسلام کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور لوگوں کے اسلام قبول کرنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ذہن نے لقمہ دیا کہ
حالیہ دنوں میں تو ایک شخص گستاخانہ خاکے بناتے بناتے مسلمان بھی ہو گیا
لیجئے جناب اب تو ثبوت بھی مل گیا زیادہ سے زیادہ لوگوں کو گستاخانہ خاکے بنانے کے لیے تیار کرنا چاہیے اور
بعد میں مسلسل انکی حوصلہ افزائی بھی ہوتی رہنی چاہیے کیونکہ گستاخانہ خاکے بنانے والے پر گستاخانہ خاکے بنانے کے دوران اور ان خاکوں کو دیکھنے والوں پر دیکھنے کے دوران اسلام کی حقانیت واضح ہو سکے
کتنا بڑا مسئلہ حل ہو گیا لوگ تو خواہ مخواہ گستاخی کرنے والوں کی جان کے درپے ہو جاتے ہیں
وہ کام اللہ تعالی نے اپنے طریقے سے لے لیا
یہ سوچ کہ اللہ نے اپنے طریقے سے کام لے لیا بذات خود بتاتی ہے کہ یہ مولانا وحیدالدین صاحب کا طرز فکر ہے اندیشہ ہے کہ مولانا وحید الدین صاحب کی سوچ کے حاملین نے کہیں ہندو مذہب کا اثر تو قبول نہیں کرلیا کیونکہ دیوتاؤں کو بذریعہ بھینٹ خوش کرکے کام لینے کا عقیدہ تو ہندو مذہب میں پایا جاتا ہے نیوزی لینڈ کے مظلوم مسلمانوں کی بھینٹ کی اللہ تعالی کو کیا ضرورت پڑ گئی
اس منطق کا جو نتیجہ نکل رہا ہے وہ منطقی اور اصولی اعتبار سے غلط ہے
گستاخانہ خاکے بنانے سے حضور کی توہین ہوتی ہے اور حضور کی توہین کو اس امید پر برداشت نہیں کیا جاسکتا کہ توہین کرنے والا یا پھر توہین کا مشاہدہ کرنے والے
شاید مسلمان ہوجائے یہاں تک کہ اگر یہ یہ امکان امید کے درجے سے بلند ہوکر یقین کے درجے میں بھی داخل ہو جائے تو بھی توہین کو برداشت نہیں کیا جاسکتا
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مسلمانوں کے قتل عام کے پیچھے کارفرما جذبے اور محرکات کا جائزہ لے کر اس انتہا پسندی کے سد باب پر تجاویز دی جاتی تا کہ عیسائی انتہا پسندی کے ممکنہ خطرات کے حوالے سے پیش بندی کی جا سکتی مگر انتہائی بددیانتی اور چالاکی کے ساتھ اس قتل عام کو نیوزی لینڈ میں اسلام کے پھیلنے کا ذریعہ بتایا جارہا ہے دیکھو اللہ کس طرح سے شر سے خیر کو نکالتا ہے ورنہ ہم نے تو دنیا کو اسلام کا دشمن بنانے ہیں کوئی کسر نہیں چھوڑی مسلسل بتایا جارہا ہے اور سروں کو بھی مسلسل سوچے سمجھے بغیر تائید میں ہلتا دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے کہ جس انداز میں اس قتل عام نے نیوزی لینڈ میں اسلام کی طرف رجحان کو پیدا کیا ہے تو اس قتل عام کو رجحان ساز قتل عام کہنا غلط نہ ہو گا
وجہ قتل پر سے توجہ کو ہٹا کر وجہ رجحان کی طرح اس عمدگی کے ساتھ منتقل کیا گیا ہے کہ لوگ قتل عام پر غم غصے کے بجائے نیوزی لینڈ میں اسلام کی طرف لوگوں کو متوجہ ہونے کی خبروں پر سجدہ شکر بجا لا رہے یہ کرشمہ سازی نہیں ہے تو اور کیا ہے قابل اجمیری کا ایک خوبصورت شعر ہے
تمہارے جلووں کی روشنی میں نظر کی حیرانیاں مسلم
مگر کسی نے نظر کے بدلے جو دل آزمایا تو کیا کرو گے
حسن فریب کے علاوہ کچھ نہیں زمانے کی چال حسن کے دھوکے کو آشکار کرتی چلی جاتی ہے علمی دجل بھی ذرا سا غوروخوص کا محتمل نہیں ہوپاتا
قابل کے اس شعر کو ذرا تصرف کے ساتھ پڑھیں
اگر کسی نے چالاکی کے بدلے عقل لڑائی تو کیا کرو گے
حضور وہی کریں گے جو اب تک کرتے چلے آرہے ہیں یعنی مرغی کی ایک ٹانگ کی رٹ لگاتے رہیں گے
نیوزی لینڈ میں اسلام کے حوالے سے آگہی میں اضافہ اور لوگوں کے قبول اسلام کی خبروں پر بغلیں بجانے والے کے رنگ میں بھنگ ڈالنے پر معذرت کرتے ہوئے کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں
نیوزی لینڈ کے بہترین تعلیمی نظام سے مستفید عوام کے فہم اور ادراک سے وجہ قتل کا احاطہ نہ کرنا بعید ہے وہ بخوبی سمجھ گئے ہونگے کہ قتل ہونے والے معصوم لوگوں کا جرم صرف اور صرف مسلمان ہونا تھا لہذا نیوزی لینڈ کی عوام کا اسلام کی طرف متوجہ ہونا ایک فطری اور منطقی عمل تھا اور یہ متوجہ ہونا عمومی طور پر جاننے کی حد تک تھا مگرجاننے کو قلب ماہیت کی تبدیلی سمجھ لینا حماقت کے علاوہ کچھ نہیں
البتہ بہت سے لوگوں نے محض جاننے پر اکتفا نہیں کیا ہوگا جاننے سے گزر کر جانچنے اور پھر کچھ ایسے بھی ہونگے جنہوں نے جانچنے سے گزر کر قبول کرنے کا سفر بھی کیا ہوگا
اگر یہ معلوم بھی ہوجائے کہ ہزاروں لوگ مسلمان ہوگئے ہیں تو بھی ایک بات ذہن نشین رہے نیوزی لینڈ میں لوگوں کا اسلام قبول کرنا
فوری رد عمل کے نتیجے میں لگتا ہے اگر قبول اسلام کے پیچھے غوروخوص نہ ہو تو جس تیز رفتاری سے آدمی اسلام داخل ہوتا ہے اسی تیز رفتاری سے نکل بھی جاتا ہے مغرب میں مذہب کو وہ درجہ حاصل نہیں ہے اس کا مشاہدہ اور تجربہ ہم اپنی زندگی میں اور اپنے ملک میں کرتے ہیں مغرب میں تبدیلی مذہب تبدیلی لباس سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتا لہذا یہ معلوم ہونا چاہیے کہ فوری ردعمل سے نکلنے کے بعد کتنے واپس لوٹ گئے اسلام کو قبول کرنے والے افراد کس درجے میں مسلمان ہوئے اور کتنے تبدیلی نام سے آگے نہ بڑھ سکے اور کتنے صحیح معنوں میں مسلمان بن گئے جب تک والےبغلیں بجانے والوں کے پاس یہ اعدادوشمار نہ آجائیں اس وقت تک برائے مہربانی بغلیں بجانے کا کام مؤخر کردیا جائے
جاری ہے-----
نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کے قتل عام کے بعد قبول اسلام کے واقعات پر ذیل میں درج ایک عبارت موصول ہوئی
یہ سب اللہ کا کرم ہے جو کام ہمیں دعوت اور اپنی شخصیت سے کرنا چاہیے تھا وہ کام اللہ تعالی نے اپنے طریقے سے لے لیا ورنہ ہم نے تو کوئی کسر غیر قوموں کو دین کا دشمن بنانے میں نہیں چھوڑی ورنہ ہم نے تو کوئی کسر غیر قوموں کو دین کا دشمن بنانے میں نہیں چھوڑی
اگر ایسی ہی بات ہے تو اس قتل عام کرنے والے شخص کو بھی ہم نے اپنا دشمن بنا لیا ہوگا یعنی قصور ہمارا اور بے قصور یہ بیچارا قاتل تھا
میرے علم کی حد تک تو نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کی کوئی عکسری تحریک نہیں چل رہی ہے ایسا تو نہیں کہ حافظ سعید اور مولانا مسعود اظہر کے جہاد کی بنا پر یا پھر تعبیر کی غلطی کو غلطی نہ ماننے والوں کی اصطلاح میں فساد کے ردعمل میں قاتل موصوف نے اشتعال میں آکر مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگے تھے یعنی نیوزی لینڈ کا یہ شخص رد عمل میں قاتل بن گیا یہ قاتل بیچارہ تو معصوم نکلا لہذا حافظ سعید اور مولانا مسعود اظہر کو نیوزی لینڈ میں ہونے والے قتل عام کا ذمہ دار سمجھتے ہوئے میں ان لوگوں کی جانب سے قاتل کی باعزت رہائی اور ان دونوں اشخاص کی ذلت آمیز گرفتاری کا مطالبہ کرتا ہوں
وہ کام اللہ تعالی نے اپنے طریقے سے لے لیا
اللہ تعالی نے اگر اسی طریقہ سے کام لینا شروع کر دیا تو پھر ہمیں ذہنی طور پر اور مغرب میں بسنے والے مسلمانوں کو ذہنی اور جسمانی طور پر ایسے قتل عام کے لیے تیار رہنا چاہیے اور ساتھ ساتھ ہر قتل عام کے بعد ہونے والے قبول اسلام کے واقعات پر اللہ کا شکر بھی ادا کرتے رہنا چاہیے
اس منطق کو ذرا مزید آگے بڑھاتے ہیں توہین آمیز گستاخانہ خاکے بنانے والے کی بھی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے کیونکہ ان خاکوں پر مسلمانوں کے شدید رد عمل کی بنا پر مغرب اسلام کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور لوگوں کے اسلام قبول کرنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ذہن نے لقمہ دیا کہ
حالیہ دنوں میں تو ایک شخص گستاخانہ خاکے بناتے بناتے مسلمان بھی ہو گیا
لیجئے جناب اب تو ثبوت بھی مل گیا زیادہ سے زیادہ لوگوں کو گستاخانہ خاکے بنانے کے لیے تیار کرنا چاہیے اور
بعد میں مسلسل انکی حوصلہ افزائی بھی ہوتی رہنی چاہیے کیونکہ گستاخانہ خاکے بنانے والے پر گستاخانہ خاکے بنانے کے دوران اور ان خاکوں کو دیکھنے والوں پر دیکھنے کے دوران اسلام کی حقانیت واضح ہو سکے
کتنا بڑا مسئلہ حل ہو گیا لوگ تو خواہ مخواہ گستاخی کرنے والوں کی جان کے درپے ہو جاتے ہیں
وہ کام اللہ تعالی نے اپنے طریقے سے لے لیا
یہ سوچ کہ اللہ نے اپنے طریقے سے کام لے لیا بذات خود بتاتی ہے کہ یہ مولانا وحیدالدین صاحب کا طرز فکر ہے اندیشہ ہے کہ مولانا وحید الدین صاحب کی سوچ کے حاملین نے کہیں ہندو مذہب کا اثر تو قبول نہیں کرلیا کیونکہ دیوتاؤں کو بذریعہ بھینٹ خوش کرکے کام لینے کا عقیدہ تو ہندو مذہب میں پایا جاتا ہے نیوزی لینڈ کے مظلوم مسلمانوں کی بھینٹ کی اللہ تعالی کو کیا ضرورت پڑ گئی
اس منطق کا جو نتیجہ نکل رہا ہے وہ منطقی اور اصولی اعتبار سے غلط ہے
گستاخانہ خاکے بنانے سے حضور کی توہین ہوتی ہے اور حضور کی توہین کو اس امید پر برداشت نہیں کیا جاسکتا کہ توہین کرنے والا یا پھر توہین کا مشاہدہ کرنے والے
شاید مسلمان ہوجائے یہاں تک کہ اگر یہ یہ امکان امید کے درجے سے بلند ہوکر یقین کے درجے میں بھی داخل ہو جائے تو بھی توہین کو برداشت نہیں کیا جاسکتا
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مسلمانوں کے قتل عام کے پیچھے کارفرما جذبے اور محرکات کا جائزہ لے کر اس انتہا پسندی کے سد باب پر تجاویز دی جاتی تا کہ عیسائی انتہا پسندی کے ممکنہ خطرات کے حوالے سے پیش بندی کی جا سکتی مگر انتہائی بددیانتی اور چالاکی کے ساتھ اس قتل عام کو نیوزی لینڈ میں اسلام کے پھیلنے کا ذریعہ بتایا جارہا ہے دیکھو اللہ کس طرح سے شر سے خیر کو نکالتا ہے ورنہ ہم نے تو دنیا کو اسلام کا دشمن بنانے ہیں کوئی کسر نہیں چھوڑی مسلسل بتایا جارہا ہے اور سروں کو بھی مسلسل سوچے سمجھے بغیر تائید میں ہلتا دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے کہ جس انداز میں اس قتل عام نے نیوزی لینڈ میں اسلام کی طرف رجحان کو پیدا کیا ہے تو اس قتل عام کو رجحان ساز قتل عام کہنا غلط نہ ہو گا
وجہ قتل پر سے توجہ کو ہٹا کر وجہ رجحان کی طرح اس عمدگی کے ساتھ منتقل کیا گیا ہے کہ لوگ قتل عام پر غم غصے کے بجائے نیوزی لینڈ میں اسلام کی طرف لوگوں کو متوجہ ہونے کی خبروں پر سجدہ شکر بجا لا رہے یہ کرشمہ سازی نہیں ہے تو اور کیا ہے قابل اجمیری کا ایک خوبصورت شعر ہے
تمہارے جلووں کی روشنی میں نظر کی حیرانیاں مسلم
مگر کسی نے نظر کے بدلے جو دل آزمایا تو کیا کرو گے
حسن فریب کے علاوہ کچھ نہیں زمانے کی چال حسن کے دھوکے کو آشکار کرتی چلی جاتی ہے علمی دجل بھی ذرا سا غوروخوص کا محتمل نہیں ہوپاتا
قابل کے اس شعر کو ذرا تصرف کے ساتھ پڑھیں
اگر کسی نے چالاکی کے بدلے عقل لڑائی تو کیا کرو گے
حضور وہی کریں گے جو اب تک کرتے چلے آرہے ہیں یعنی مرغی کی ایک ٹانگ کی رٹ لگاتے رہیں گے
نیوزی لینڈ میں اسلام کے حوالے سے آگہی میں اضافہ اور لوگوں کے قبول اسلام کی خبروں پر بغلیں بجانے والے کے رنگ میں بھنگ ڈالنے پر معذرت کرتے ہوئے کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں
نیوزی لینڈ کے بہترین تعلیمی نظام سے مستفید عوام کے فہم اور ادراک سے وجہ قتل کا احاطہ نہ کرنا بعید ہے وہ بخوبی سمجھ گئے ہونگے کہ قتل ہونے والے معصوم لوگوں کا جرم صرف اور صرف مسلمان ہونا تھا لہذا نیوزی لینڈ کی عوام کا اسلام کی طرف متوجہ ہونا ایک فطری اور منطقی عمل تھا اور یہ متوجہ ہونا عمومی طور پر جاننے کی حد تک تھا مگرجاننے کو قلب ماہیت کی تبدیلی سمجھ لینا حماقت کے علاوہ کچھ نہیں
البتہ بہت سے لوگوں نے محض جاننے پر اکتفا نہیں کیا ہوگا جاننے سے گزر کر جانچنے اور پھر کچھ ایسے بھی ہونگے جنہوں نے جانچنے سے گزر کر قبول کرنے کا سفر بھی کیا ہوگا
اگر یہ معلوم بھی ہوجائے کہ ہزاروں لوگ مسلمان ہوگئے ہیں تو بھی ایک بات ذہن نشین رہے نیوزی لینڈ میں لوگوں کا اسلام قبول کرنا
فوری رد عمل کے نتیجے میں لگتا ہے اگر قبول اسلام کے پیچھے غوروخوص نہ ہو تو جس تیز رفتاری سے آدمی اسلام داخل ہوتا ہے اسی تیز رفتاری سے نکل بھی جاتا ہے مغرب میں مذہب کو وہ درجہ حاصل نہیں ہے اس کا مشاہدہ اور تجربہ ہم اپنی زندگی میں اور اپنے ملک میں کرتے ہیں مغرب میں تبدیلی مذہب تبدیلی لباس سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتا لہذا یہ معلوم ہونا چاہیے کہ فوری ردعمل سے نکلنے کے بعد کتنے واپس لوٹ گئے اسلام کو قبول کرنے والے افراد کس درجے میں مسلمان ہوئے اور کتنے تبدیلی نام سے آگے نہ بڑھ سکے اور کتنے صحیح معنوں میں مسلمان بن گئے جب تک والےبغلیں بجانے والوں کے پاس یہ اعدادوشمار نہ آجائیں اس وقت تک برائے مہربانی بغلیں بجانے کا کام مؤخر کردیا جائے
جاری ہے-----
Comments
Post a Comment