قسط نمبر 1
علمی جارحیت کے شکار ایک مظلوم شخص کا عرض معروض کرنا
پروفیسر ڈاکٹر سہیل انصاری
نیوزی لینڈ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے والےاندوہ ناک سانحہ
کے حوالے سے کافی عرصے سے مجھے احباب کی طرف سے مختلف تحریریں موصول ہو رہی ہیں بلکہ شاید یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ یہ
غریب ایسی تحریروں کا نشانہ بنا ہوا ہے
تاخیر جواب کا سبب کبھی بھی موضوع کو درخورِاعتنا نہ سمجھنا نہ تھا میرا اپنا ابتدائی تاثر گوناگوں مصروفیات کا تھا مگر اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میرا یہ یقین کہ واقعے کی سنگینی کو صرف وسیع تناظر میں ہی محسوس کیا جا سکتا ہے اور موصول شدہ تحریروں کی سطحیت نے جو اس سانحہ کو مسجد تک محدود کرنے میں عیاں تھی مجھے ان تحریروں کی طرح متوجہ ہونے نہ دیا
طبیعت کا تحریروں پر تبصرے کی طرح مائل ہونے میں مانع تحریروں کا مروبیت سے مغلوب اسلوب اور علمی بددیانتی کے ساتھ چیزوں کو باہم مربوط کرنا بھی تھا اگر حسن ظن کےساتھ کہا جائے تو پھر علمی بددیانتی کی جگہ بچکانہ انداز کے علاوہ کوئی دوسرا لفظ موضوع نہیں لگتا
کثرت گو کے کبھی بھی معیار نہیں ہوتی مگر خطرناک میشہ ہوتی ہے جیسا کہ گوبلز کہتا ہے جھوٹ اتنا بولو کہ سچ لگے مروبیت سے عبارت بچکانہ تحریروں کے سیلاب میں بہت سےسادہ لوح افراد کو بہتا دیکھ کر سلیم کوثر کے اس شعر نے کچھ لکھنے پر مجبور کر ہی دیا
اور اس سے پہلے کہ ثابت ہو جرم خاموشی
ہم اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہتے ہیں
تحریر کو ٹکڑوں میں اقساط کے انداز میں تقسیم کرنے کا میرا انداز تو نہیں مگر بہت طویل تحریر جیسے جملوں کی آڑ میں جواب دینے سے گریز کا اب تک جو انداز اپنایا گیا ہے اس سے نمٹنے کا ایک اندازہ ضرور ہے
چوٹ جب ہی لگتی ہے جب لوھا گرم ہوتا ہے تاخیر سبب کچھ بھی ہو تاخیر کی بنا پر ہونے والی بے اثری کا مداوا نہیں بن سکتا یہ تبصرہ لازماً بعد از وقت محسوس ہوگا تاہم اس نوعیت کے آنے والے واقعات اور اس پر مغرب اور مغرب زدہ لوگوں کے ردعمل پر ایک پیشگی جواب ضرور ہو سکتا ہے میری دعا ہے کہ خدا کرے آئندہ ایسے واقعات نہ ہوں
تمام تحریروں کی کچھ مشترک باتیں اس قسط کے حوالے سے درج کر دیتا ہوں نیوزی لینڈ کی وزیراعظم مسلمانوں سے محبت کرنے والی ایک لاجواب خاتون ہیں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلے جانے پر اپنے رنج و غم کا اظہار نہوں نے بذات خود مسلمانوں کے پاس اسلامی لباس میں جاکر کیا ہے
نیوزی لینڈ کی حکومت کی جو مستعدی مختلف اقدامات اٹھانے میں نظر آتی ہے وہ یہ ظاہر کرتی ہے وزیراعظم اپنے رویے میں تنہا نہیں ہیں لہذا
نیوزی لینڈ کی حکومت اسلام دوست اور مسلمان دوست حکومت ہے
میری کچھ گزارشات
نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کے ساتھ حسن سلوک ان کے مسلمان ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ نیوزی لینڈ کے شہری ہونے کی وجہ سے کیا گیا تھا نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے ظلم پر وہاں کی وزیراعظم نے مسلمانوں سے نہیں بلکہ اپنے ملک کی عوام سے ہمدردی کا اظہار کیا تھا
لہذا یہ کہنا ہی غلط ہے
کہ نیوزی لینڈ کی حکومت کا مسلمانوں کے ساتھ بہت اچھا رویہ تھا
نیوزی لینڈ کی وزیراعظم مسلمانوں کے پاس تعزیت کے لئے نہیں گئی تھی وہ در حقیقت اپنے ملک کے ان باشندوں کے پاس تعزیت کے لئے گئی تھی جو کے بدقسمتی سے مسلمان تھے اور اپنے ملک کے ان شہریوں سے اظہار یکجہتی کے لئے یا پھر انہیں اور ہمیں بے وقوف بنا کر خوش کرنے کے لئے اسلامی لباس بھی پہنا تھا
نیوزی لینڈ بسنے والے مسلمان نیوزی لینڈ کے شہری تھے مسلمانوں کو بطور شہری تحفظ فراہم کرنے کی ناکامی پر یہ یا تو معافی مانگنے کا یا پھر ہمیں اور دنیا کو خاموش کرانے کا یہ ایک انداز تھا
لہذا یہ کوئی احسان نہیں تھا جیسا کہ دکھایا اور بتایا جارہا ہے بلکہ یہاں کے مسلمانوں کا بطور شہری حق تھا مگر مغربی دنیا اور مروبیت کے مارے جس انداز میں اس واقعے( وزیراعظم صاحبہ کے آنے کو) کے ذریعے مغرب کو مسلمانوں کا خیر خواہ دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں یہ یا تو نادانی ہے یا پھر ذہنی غلامی کی ایک تکلیف دہ مثال
نیوزی لینڈ بسنے والے مسلمان نیوزی لینڈ کی حکومتکو ٹیکس کی مد میں رقوم ادا کرنے کے بعد نیوزی لینڈ کی حکومت کی حفاظت میں تھے اور بطور شہری انہیں جو تحفظ حاصل تھا اس تحفظ کو یقینی بنانے میں نیوزی لینڈ کی حکومت سنگین کوتاہی کے مرتکب ہوئی تھی لہٰذا نیوزی لینڈ کی وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ کیا جانا چاہیے تھا
اور ساتھ ساتھ یہ مطالبہ بھی کیا جاتا اب تک مسلمانوں سے بذریعہ ٹیکس جو رقوم مسلمانوں کے جان و مال کے تحفظ کے لیے لی ہے وہ اسے واپس کرے اور جانی نقصان کا ہر جانا بھی ادا کرے مگر مروبیت زدہ لوگوں کے حاشیہ خیال میں بھی یہ مطالبہ نہیں آسکتا کیونکہ یہ لوگ تو نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کے اسلامی لباس پہن کر مسلمانوں تعزیت کرنے پر مر مٹے جا رہے ہیں قصیدہ گوئی کی ایک دوڑ لگی ہوئی
جتنا زور توصیفی راگ الاپنے میں لگایا گیا ہے اگر اس کا نصف بھی یہ مطالبہ کرنے میں لگ جاتا تو شاید ہماری طرف سے بھی ایک غیرت مندانہ موقف آ جاتا
مسلمانوں کی تاریخ کا حوالہ دینا بڑا برمحل لگتا ہے جا بجا ایسے واقعات ملتے ہیں کہ جب مسلمان یہ سمجھتے تھے کہ وہ غیر مسلموں کے جان و مال کا تحفظ نہ کرسکیں گے تو سارا جزیہ غیر مسلموں واپس کر دیتے تھے
اس ناچیز کی رائے میں نیوزی لینڈ کے واقعے پر ہونے والی گفتگو کا آغاز نیوزی لینڈ کی حکومت اور نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کی مذمت سے ہونا چاہیے تھا
وزیراعظم صاحبہ آپ کو تو ہدف ملامت ہونا چاہیے تھا مگر آپ نے تو اسلامی لباس پہن کر جس انداز میں محفل لوٹی اور داد و تحسین کے ڈونگرے سمیٹے ہیں تو بے اختیار جی یہ کہنے کو چاہتا ہے کہ آپ تو واقعی ایک لاجواب عورت ہیں
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
دور کی کوڑی لانے والے عام طور پر قریب بھی ہوتے ہیں اور قریبی بھی ہوتے ہیں لہذا عین ممکن ہے کہ قریبی قریب یہ ڈھول پیٹنا شروع کر دیں
جناب پاکستان میں آئے دن ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں وزیراعظم تو دور کی بات ہے کوئی چھوٹا موٹا وزیر بھی نظر نہیں آتا نیوزی لینڈ کی وزیراعظم صاحبہ کم ازکم آئی تو تھیں اس کی تو تحسین کی جائے تو ان تمام قریبی قریب لوگوں سے یہ التماس ہے کہ پہلے ایک بہت اہم مضمون کا مطالعہ کرلیا جائے
Cultural relativism
یہ بات ذہن نشین رہے کہ ہم دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کے طرز عمل کا تقابلی جائزہ نہیں لے رہے ہیں اگر کسی قوم میں پائے جانے والے رسم و رواج کا جائزہ ان کے عقائد تہذیبی اور تمدنی روایات کی روشنی میں لینے کے بجائے کسی دوسرے تمدن کے معیارات کی روشنی میں لیا جائے تو اسے علمی بددیانتی کہتے ہیں
معیارات تہذیب و تمدن سے پھوٹتے ہیں افریقہ کے قبائل کے تہذیبی اور تمدنی معیارات کی رو سے جو شخص مہذب قرار پائے گا وہ موجودہ مہذب دنیا کے معیارات کے اعتبار سے جاھل اجڈ گنوار قرار پائے گا لہٰذا دیانت کا تقاضہ یہ ہے کہ مہذب آدمی کاتعین افریقہ کے معیارات کی روشنی میں کیا جائے
نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کے رویے کا جائزہ پاکستان میں پائے جانے والے معیارات کی روشنی میں نہیں نیوزی لینڈ میں پائے جانے والے معیارات کی روشنی میں لیا جائے گا
کیونکہ یہ مسلمان پاکستان کے نہیں بلکہ نیوزی لینڈ کے شہری تھے لہٰذا یہ دیکھنا چاہیے کہ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم صاحبہ کا رویہ دوسرے مذاہب اور دوسری قوموں کے ساتھ اگر ان کے ساتھ یہ واقعہ ہو جاتا کیسا ہوتا میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر ایسا واقعہ کسی گرجا گھر میں ہوتا اور مرنے والے عیسائی اور اور مارنے والا کوئی مسلمان ہوتا تو آپ کو نیوزی لینڈ کی حکومت نیوزی لینڈ کی حزب اختلاف اور عوام کے رویے میں بہت واضح فرق محسوس ہوتا مسلمانوں کے خلاف سخت اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا جاتا اور ہو سکتا ہے بہت سے مسلمانوں کو ملک بدر بھی کر دیا جاتا نیوزی لینڈ کی وزیراعظم صاحبہ سے اور ان کی حکومت سے فوری طور پر مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کیا جاتا اور وزیر اعظم صاحبہ عیسائیوں کی اشک شوئی کے علاوہ مالی اعتبار سے بھی بہت کچھ کر چکی ہوتی اگر استیفی دینے سے بچ جاتیں اور نہ بچنے کی صورت میں بھی ان کی جگہ جو بھی کوئی دوسرا آتا تو وہ بھی بہت کچھ کرتا
لہٰذا نیوزی لینڈ کی وزیراعظم سے استعفے کا اور ان کی حکومت سے مستعفی ہونے اور جانی نقصان کا ہر جانا ادا کرنے کا مطالبہ کیا جانا عین تقاضائے انصاف تھا
اگر مرنے والے عیسائی اور مارنے والا کوئی مسلمان ہوتا تو پوری دنیا کے ابلاغ اور مغرب کو ہر قیمت پر خوش کرنے والے مروبیت کے مارے مذہبی اور پاکستان کے مذہب دشمن لوگوں کی ساری توانائیاں اسلام کو ہدف تنقید بنانے میں اور مدرسوں کو دہشت گردی کی نرسریاں اور دہشت گردی کی پناہ گاہیں قرار دینے میں صرف ہو جاتی
اس حملے کے بعد مسلمانوں کی طرف سے مطالبہ سامنے آنا چاہیے تھا کہ قاتل کو عیسائی دہشت گرد کہا جائے اور اس واقعے کو عیسائیت کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جائے مغرب کے
متوقع انکار کے بعد مطالبہ کیا جاتا کہ مسلمان دہشت گرد کی اصطلاح استعمال کرکے مغرب نے جس انداز میں دہشت گردی کو مذہب اسلام سے جوڑا ہے اس پر مغرب معافی مانگے مغرب کی یہ معذرت اس بات کو تسلیم کرنے کے مترادف ہوتی کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا
مغرب معذرت کرتا یا نہ کرتا یہ بات طے ہے کہ اس مطالبے کی گونج پوری دنیا میں سنائی دیتی عالمی ضمیر کو اس حوالے سے متوجہ اور بیدار کرنے کا یہ نادر موقع نیوزی لینڈ کی وزیراعظم اور قاتل کی ماں اور وہاں کی حکومت کے اقدامات کی مدح سرائی میں مصروف مروبیت کے ماروں نے ضائع کر دیا
جاری ہے --------

Comments