Assignment #34: Redefining or stretching the concept: Inculturation hermeneutics and its implications for the study of the Quran.For the Departments of English & Media Studies by Prof Dr Sohail Ansari
We need to re-think engagement between the Quran and a Pakistani culture because it seems as if that the Quranic text is supposed to be studied as an
end in itself, not as a means to an end;
therefore, now read the material below
تعلیم ،اسلام اور زندگی
ملک خدا بخش بُچہ
آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ علم کی ترقی کے ساتھ ساتھ ہم میں
زندگی کی توانائی روز بروز کم ہوتی جا رہی ہے۔ علم کے لیے بالعموم مشعل ، شمع یا چراغ
کی تمثیل استعمال کی جاتی ہے، جس سے نور اور روشنی کا تصور ملتا ہے۔ لیکن یہ یاد
رکھنا چاہیے کہ جس طرح شعلے کی روشنی سے حرارت کو جدا نہیں کیا جا سکتا ، اسی طرح
علم بھی اگر زندگی کی حرارت سے محروم ہو جائے، تو اس کا نور بھی تاریکیوں میں
تحلیل ہوجاتا ہے۔ علم میں حرارت ،ایمان سے پیدا ہوتی ہے ۔ اور جیسا کہ انگریز شاعر
ولیم بلیک [م:۱۸۲۷ء] نے کہا ہے کہ
’اگر کہیں چاند اور سورج بھی شک میں مبتلا ہو کر ایمان کھو بیٹھیں تو فوراً بجھ کر
تاریکیوں میں تبدیل ہو جائیں ‘۔ آپ کے لیے آپ کا علم نا کافی ہی نہیں بلکہ سراسر
وبالِ جان ہے اگر یہ آپ کے باطن میں ایمان کی حرارت نہیں پیدا کر سکتا ۔ انسان
بننے کے لیے علم ضروری ہے ۔ لیکن اس کے ظلمت کدۂ خاک میں علم کی ایسی قندیل روشن
کرنے کی ضرورت ہے جو اس کے دماغ کو منور کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے دل کو بھی گرم
رکھ سکے۔ علم کی آخری منزل دماغ نہیں بلکہ دل ہے۔ بقول اقبال:
گزر جا عقل سے آگے
کہ یہ نُور
چراغِ راہ ہے ، منزل
نہیں ہے
اور یہ بھی کہ:
یا مُردہ ہے یا نزع
کی حالت میں گرفتار
جو فلسفہ لکھا نہ
گیا خونِ جگر سے
- علم اور تعلیم
کے بارے میں اگرچہ سوچنے اور لکھنے والے حضرات و خواتین نے مختلف طریق سے سوچا اور
مختلف پیرایوں میں اسے پیش کیا، لیکن ایک بات پر شاید سبھی لوگ متفق نظر آتے ہیں
کہ: ’تعلیم کا مقصد انسان کی مخفی اور خوابیدہ صلاحیتوں اور قوتوں کو بیدار اور
اُجاگر کر کے آپ کی شخصیت کو نشوو نما دینا ہے، اور آپ میں سودو زیاں اور خیر وشر
کی تمیز کی ایسی اہلیت پیدا کرنا ہے، جس سے آپ اپنی منزل مقصود کے لیے
راہیں متعین کر سکیں‘۔ اسی بات کو بعض لوگ یوں بیان کرتے ہیں کہ: ’تعلیم انسانی
صلاحیتوں اور استعدادوں کی اس نشو ونما اور ارتقا کا نام ہے، جس کی بدولت ہمارے
اخلاقی رویے اور معاشرتی طرزِ عمل صحت واستدلال کے ساتھ طے پاتے ہیں‘۔ اب بہت سے
لوگ انسانی شخصیت کی نشوو نما اورترقی کے لیے ایمان کو بنیادی ضرورت خیال نہیں
کرتے اور ’بے ایمان ‘ علم کو ہی کافی سمجھ لیتے ہیں۔ کہا یہ جاتا ہے کہ: ’سائنس
اور فلسفے میں بالخصوص اور دوسرے علوم میں بالعموم عقیدہ (dogma ) نہیں چل سکتا ۔ اگر اسے اس میدان میں لایا جائے گا تو
علم کی ساری ترقی رُک جائے گی‘۔
میں یہاں بحث میں نہیں اُلجھنا چاہتا، ور نہ آپ کو بتاتا کہ ہر
علم اور ہر سائنس بالآخر کسی نہ کسی عقیدے کا سہارا لینے پر مجبور ہے۔ بہرحال یہ
ضرور عرض کروں گاکہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ لیبارٹری میں داخل ہونے سے پہلے خدا
کا عقیدہ کوٹ کی طرح اتار کر کھونٹی پر لٹکا دینا ضروری ہے، وہ درحقیقت ہمارے اندر
ایک ایسی داخلی کش مکش کو جنم دینا چاہتے ہیں، جس سے ہماری شخصیت کی ترقی رُک جاتی
ہے اور ہم کفرو الحاد کی راہ پر چل نکلتے ہیں۔ سائنس اور ٹکنالوجی کے علوم انسان
کو بے پناہ طبعی قوت تو فراہم کر دیتے ہیں، لیکن جب علوم وفنون ایمان کے تابع نہیں
رہتے تو سراسر شیطنت کے ساتھ انسان اور انسانیت کو تباہی کے ہولناک ہتھیاروں کا
سامان مہیا کرتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر نامرادیِ آدم اور کیا ہو سکتی ہے؟ اسی
نامرادیِ آدم کا ذکر کرتے ہوئے اقبال نے کہا ہے:
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا
۱۲- انسان کے لیے
وہی علم مفید ثابت ہو سکتا ہے، جو زندگی کے تمام تقاضوں پر پورا اُتر سکے۔ ظاہر ہے
کہ ایمان ، اعتقاد اور آئیڈیالوجی کا مسئلہ ہماری زندگی کا بنیادی مسئلہ ہے۔ عقل
کی آزادی اچھی چیز سہی لیکن خیالات کا بے ربط وبے لگام ہو جانا یقینا کوئی اچھی
بات نہیں ہے ۔ ہم مسلمانوں میں لادینیِ افکار، بے ربطیِ افکار سے پیدا ہوئی
ہے، سائنس کی راہ سے نہیں آئی۔ بلکہ فرانسیسی معالج و مفکر رابرٹ ایس بریفالٹ [م:
۱۹۴۸ء] تو یہاں تک کہتا ہے کہ: ’سائنس اپنی ہستی اور وجود کے لیے قرآن
کی مرہونِ منت ہے‘۔ وہ نزولِ قرآن سے پہلے کے زمانے کو قبل سائنس کا زمانہ اور
قرآن کے بعد کا دور سائنس کا زما نہ قرار دیتا ہے۔ تاریخی واقعات کو بھی آیات
الٰہی قرار دیتا ہے اور خود اپنے جملوں اور فقروں کو بھی آیات الٰہی قرار دیتا
ہے، تو قرآن اور سائنس میں مغائرت کہاں سے پیدا ہو گئی؟
کیا ابھی اس کا وقت نہیں آیا کہ ہم اپنے فکر ونظر کے پرانے انداز
بدل ڈالیں ؟ دنیا کے سب سائنس دان اور علما وفضلا اپنی تمام علمی جستجوئوں اور
کاوشوں کا نصب العین اور منتہاے مقصود، حقیقت کی تلاش قرار دیتے ہیں۔ ہمارے نزدیک
اوّل وآخر، ظاہر وباطن حقیقت ، اللہ کی ذات ہے، چنانچہ اپنے سائنس دانوں اور عالم
وفاضل اساتذہ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا ہم اپنے علوم کو خدایابی کا ذریعہ نہیں
بنا سکے ؟ ہمارے طریقۂ تعلیم میں اس خلا کی وجہ سے ہمارے علوم میں ایک بہت بڑی
کمی محسوس ہوتی ہے، جسے اقبال کم بصری کا نام دیتا ہے:
وہ علم ، کم بصری جس میں ہم کنار نہیں
تجلّیات کلیم و مشاہداتِ حکیم
ہماری علمی کاوشوں میں مشاہداتِ حکیم تو ملتے ہیں لیکن تجلیاتِ
کلیم مفقود ہیں۔
۱۳- یہاں علم کے
بارے میں ایک بات کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں اپنی درس گاہوں سے جو علم
حاصل ہوتا ہے وہ قرض حسنہ کے طور پر ملتا ہے اور اسے چکانا ہی نیک روی کی دلیل ہے
۔ علم تن کی دولت تو ہے نہیں کہ آپ اسے چھپا چھپا کر تجوریوں میں رکھیں ۔ یہ تو
من کی دولت ہے، جسے آپ جتنا بھی لٹائیں اتنا ہی آپ کے لیے اور آپ کے ملک وملت
کے لیے مفید ہے۔
۱۴- امریکی صدر
وڈرو ولسن [م: ۱۹۲۴ء] نے ایک بار نوجوانوں سے خطاب
کرتے ہوئے کہا تھا کہ: ’آپ مجھے اپنی ڈگریاں اور ڈپلومے دکھلا کر اس بات کا قائل
نہیں کر سکتے کہ آپ تعلیم یافتہ ہیں۔ کیوںکہ اس کا ثبوت تو آپ کے ذہنی
اُفق کی وسعتوں ہی سے مل سکتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ جو علوم ہمیں پڑھائے جاتے ہیں ان
کی سرحدیں ’خبر ‘ تک ہی محدود رہتی ہیں‘۔ اقبال نے غایت آدم کے بارے میں پیررومی
[م: ۱۲۷۳ء] سے پوچھا تھا۔ غایت آدم ، خبر یا نظر؟ جس کے جواب میں
پیر رومی نے فرمایا تھا :
آدمی دید است ، باقی پوست است
دید آں باشد کہ دیدِ دوست است
حواس کی فراہم کردہ ’خبر ‘ کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن اس ’خبر
‘ پر ہی مطمئن ہو کر بیٹھ رہنا بھی علم کے منافی ہے۔ بصارت کا مقصد یہ ہونا چاہیے
کہ اس کی عطا کردہ خبر ہم میں ایسی بصیرت پیدا کر دے جو ہمیں اشیا کی اندرونی
حقیقت کا نظارہ کرائے ۔ سماعت کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ اس کی عطا کردہ خبر ہمیں
ساز حقیقت سنائے، بقول اقبال ع
علمِ حق اوّل حواس ، آخر حضور
اگر یہ سارے علوم جنھیں ہم زندگی کے اتنے سال صرف کر کے سیکھتے
ہیں، ہمارے اندر بصیرت اور لذتِ حضوری نہیں پیدا کر پاتے تو ہماری شخصیت کا جزو
نہیں بن سکتے، بلکہ محض ایک لبادے کی حیثیت رکھتے ہیں مگر اب تو ہم لبادے کو ہی سب
کچھ سمجھے بیٹھے ہیں۔ اور جس زمانے سے ہمارا ذوقِ علمی افرنگ کے حواسی علوم کی
’خبریت ‘ سے سیراب ہونا شروع ہوا ہے، ہماری جبینیں سجدوں کی لذت سے نا آشنا ہو
گئی ہیں۔ اور ’لباس مجاز ‘ میں ’حقیقتِ منتظر‘ کو دیکھنے کی ہماری روحوں کو آرزو
نہیں رہی ہے۔ ہماری زندگیوں پر اب ’رنگ مجاز ‘ اتنا گہرا چڑھ گیا ہے کہ ہمیں علم
کی آخری منزل بھی کوٹ اور پتلون نظر آتی ہے۔
عزیزانِ محترم ! قومی آزادی کی کئی منزلیں ہیں۔ آزادی کی
سیاسی منزل پر تو ہم پہنچ گئے ہیں۔ اقتصادی جدوجہد کی راہ میں بھی ہم بہت سی
مسافتیں طے کر چکے ہیں، مگر ہمارے تہذیب وتمدن پر یہ غیر ملکی چھاپ کب دُور ہو گی
؟ جس دن ہم نے اپنے کھوئے ہوئے تمدنی اور ثقافتی ورثے کو دوبارہ پا لیا، تو سمجھ
لیجیے کہ ہم نے تمام مرحلہ ہاے آزادی طے کر لیے، اور مجھے اُمید ہے کہ اسی روز
اسلام کی نشاتِ ثانیہ کا وہ دور شروع ہو جائے گا، جس کے لیے پاکستان معرض وجود میں
آیا تھا اور جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے پاکستان کی حفاظت کی ہے۔ یہاں ذہن میں بار
بار یہ خیال ابھرتا ہے کہ جہاں ہماری بری افواج زمینی سرحدوں کی حفاظت کرتی ہیں
،فضائی افواج ملک کی فضائی سرحد کی حفاظت کرتی ہیں اور بحری افواج بحری سرحدوں کا
دفاع کرتی ہیں، کسان زرعی محاذ پر کارنامے انجام دیتے ہیں، لیکن کیا میں پوچھ سکتا
ہوں کہ ہمارے تمدن وثقافت کی حفاظت کس کے ذمے ہے ؟ اور کیا اس محاذ پر ہمارے دفاعی
انتظامات کافی ہیں ؟ اگلے وقتوں میں
ہماری تہذیب وثقافت، خانقاہی نظام کے روحانی سرچشموں سے سیراب ہوا کرتی تھی۔ یہ وہ
زمانہ تھا کہ زندگی میں اوقاتِ فرصت میسر آنے کے زیادہ مواقع حاصل تھے، جن کی وجہ
سے مطالعہ باطن کے لیے کافی وقت مل جاتا تھا۔ دورِ حاضر میں زندگی کی مصروفیات کچھ
اتنی بڑھ گئی ہیں کہ انسان کوشش بھی کرے تو اسے اپنی باطنی واردات پر توجہ دینے اور
ان کا مطالعہ کرنے کا وقت کم ہی ملتا ہے۔ البتہ قرآن حکیم کے اس حکیمانہ قول کی
روشنی میں کہ اللہ تعالیٰ، انفس و آفاق میں ہر کہیں انسان کو دعوتِ نظارہ دیتا ہے
اس کمی کو ایک دوسری طرح یوں پورا کیا جاسکتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو مظاہرات آفاق
کے مطالعے میں آیاتِ الٰہی کے مشاہدات کا عادی بنائیں، اور یہ ایک ایسی پُرتجسس
علمی وسائنسی تحریک کے ذریعے ہی ممکن ہے، جس کا منتہاے مقصود خدا شناسی ہو۔ چنانچہ
میں آپ سے اور بالخصوص فاضل اساتذہ سے پوری دلِ سوزی کے ساتھ اپیل کرتا ہوں کہ
آپ اس تحریک کا آغاز کریں ، دنیا اس کا پُرجوش خیرمقدم کرے گی :
ہر اک منتظر تیری یلغار کا
تری شوخیِ فکر و کردار کا
Ruminating
on Justin S. Ukpong’s inculturation hermeneutics and its implications for the
study of African Biblical Hermeneutics today
Abstract
In African biblical
scholarship, the concept of inculturation hermeneutics has come to be almost,
if not always, linked to the late Professor Justin S. Ukpong, the Nigerian New
Testament scholar. In culturation hermeneutics, argued Ukpong, the past of the
biblical text is not supposed to be studied as an end in itself, but as a means
to an end. Ukpong (2002) could thus argue: ‘Thus in inculturation hermeneutics,
the past collapses into the present, and exegesis fuses with hermeneutics’
Inculturation hermeneutics is a contextual hermeneutic methodology
that seeks to make any community of ordinary people and their social-cultural
context the subject of interpretation of the Bible through the
use of the conceptual frame of reference of the people and the involvement of
the ordinary people in the interpretation process.
·
Dennis M. Doyle
Inculturation
is the term that Catholic leaders and theologians have used in recent decades
to denote a process of engagement between the Christian Gospel and a particular
culture. The term is intended conceptually both to safeguard the integrity of
the Gospel and to encourage sensitivity to various cultural contexts.
Inculturation as a theological notion has been specifically associated with
John Paul II’s strategy for evangelization, including what is known as the “new
evangelization” that focuses on cultures that had traditionally been Christian
but which are now not clearly so. Yet inculturation, understood with a somewhat
different emphasis, has also been associated with the Jesuit theologian Karl
Rahner’s theological interpretation of Vatican II.
Inculturation,
Theology Of
New Catholic Encyclopedia
COPYRIGHT 2003 The Gale Group Inc.
COPYRIGHT 2003 The Gale Group Inc.
INCULTURATION,
THEOLOGY
The term "inculturation," as
applied to Christianity, denotes the presentation and re-expression of the
Gospel in forms and terms proper to a culture. It results in the creative
reinterpretation of both, without being unfaithful to either. Evangelization respects
culture as part of the human phenomenon and as a human right. The manipulation
or oppression of culture is, therefore, an abuse. Culture is a coherent system
of meanings embodied in images and symbols that enables the individual to
relate cognitively, emotionally, and behaviorally to the world and to
communicate this understanding to others. It is the prism through which a human
society views the whole of its experience, domestic, political, social,
economic, and political. Culture is learned by the human being through
socialization and is developed throughout life. It gives identity to a human
group and controls its perception of reality. For the purposes of theology, it
is at once more positive and more precise than the term "context." Syncretism
denotes an anomalous conflict of meaning when, in the process of
evangelization, cultures "domesticate" the Gospel and distort its
meaning. No culture is deemed to be unfailingly Christian, since inculturation
is a constant call to conversion and renewal.
Exercise:
Read the
material below to find out the conceptual possibility of safeguarding the
integrity of the Quran and to encourage sensitivity to various cultural
contexts.
60 سال پہلے
رسمیں اور گمراہی
’شب ِ برات‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی
دراصل اسلام رسموں اور تہواروں کا مذہب ہے ہی نہیں۔ یہ تو ایک
سیدھا اور معقول مذہب ہے، جو انسان کو رسموں کی جکڑبندیوں سے، کھیل تماشے کی بے
فائدہ مشغولیتوں سے، اور فضول کاموں میں وقت، محنت اور دولت کی بربادیوں سے بچاکر،
زندگی کی ٹھوس حقیقتوں کی طرف توجہ دلاتا ہے اور اُن کاموں میں آدمی کو مشغول
کرنا چاہتا ہے جو دنیا اور آخرت کی فلاح و بہبود کا ذریعہ ہوں۔
ایسے مذہب کی فطرت سے یہ بالکل بعید ہے کہ وہ سال میں ایک دن حلوے پکانے اور آتش بازیاں چھوڑنے کے لیے مخصوص کردے اور آدمی سے کہے کہ تو مستقل طور پر ہرسال اپنی زندگی کے چند قیمتی گھنٹے اور اپنی محنت سے کمائے ہوئے بہت سے روپے ضائع کرتا رہا کر۔ اور اس سے بھی زیادہ بعید یہ ہے کہ وہ کسی ایسی رسم کا انسان کو پابند بنائے جو صرف وقت اور روپیہ ہی برباد نہیں کرتی بلکہ بعض اوقات جانوں کو بھی ضائع کرتی ہے اور گھر تک پھونک ڈالتی ہے۔
اس قسم کی فضولیات کا حکم دینا تو درکنار، اگر ایسی کوئی رسم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موجود ہوتی تو یقینا اس کو حکماً روک دیا جاتا، اور جو ایسی رسمیں اس زمانے میں موجود تھیں اُن کو روکا ہی گیا۔
ابتدائی زمانے میں جو لوگ شریعت محمدی کی روح کو سمجھتے تھے انھوں نے نئی رسمیں ایجاد کرنے سے انتہائی پرہیز کیا، اور جو چیز لازمی رسم بنتی نظر آئی اس کی فوراً جڑ کاٹ کر رکھ دی۔ انھیں معلوم تھا کہ ایک چیز جس کو نیکی اور ثواب کا کام سمجھ کر ابتدا میں بڑی نیک نیتی کے ساتھ شروع کیا جاتا ہے، وہ رفتہ رفتہ کس طرح سنت، پھر واجب، پھر فرض، اور آخرکار فرضوں سے بھی زیادہ اہم بنتی چلی جاتی ہے اور جہالت کی بنا پر لوگ اس نیکی کے ساتھ کس طرح بہت سی بُرائیاں ملا جلا کر ایک قبیح رسم بنا ڈالتے ہیں۔ اس لیے ابتدائی دور کے علما اور امام اس بات کی سخت احتیاط ملحوظ رکھتے تھے کہ شریعت میں کسی نئی چیز کا اضافہ نہ ہونے پائے۔ ان کا یہ مستقل عقیدہ تھا کہ جو چیز شریعت میں نہیں ہے اسے شرعی حیثیت دینا، یا جس چیز کی شریعت میں جو حیثیت ہے اس سے زیادہ اہمیت اس کو دینا بدعت ہے، اور ہربدعت گمراہی ہے۔
لیکن افسوس ہے کہ بعد کی صدیوں میں اس طرف سے انتہائی غفلت برتی گئی اور بتدریج مسلمان بھی اپنی خودساختہ رسموں کے جال میں اسی طرح پھنستے چلے گئے، جس طرح دنیا کی دوسری قومیں پھنسی ہوئی تھیں۔ (، ترجمان القرآن ، جلد۵۱، عدد۵، فروری ۱۹۵۹ء، ص۱۷، ۲۰)
ایسے مذہب کی فطرت سے یہ بالکل بعید ہے کہ وہ سال میں ایک دن حلوے پکانے اور آتش بازیاں چھوڑنے کے لیے مخصوص کردے اور آدمی سے کہے کہ تو مستقل طور پر ہرسال اپنی زندگی کے چند قیمتی گھنٹے اور اپنی محنت سے کمائے ہوئے بہت سے روپے ضائع کرتا رہا کر۔ اور اس سے بھی زیادہ بعید یہ ہے کہ وہ کسی ایسی رسم کا انسان کو پابند بنائے جو صرف وقت اور روپیہ ہی برباد نہیں کرتی بلکہ بعض اوقات جانوں کو بھی ضائع کرتی ہے اور گھر تک پھونک ڈالتی ہے۔
اس قسم کی فضولیات کا حکم دینا تو درکنار، اگر ایسی کوئی رسم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موجود ہوتی تو یقینا اس کو حکماً روک دیا جاتا، اور جو ایسی رسمیں اس زمانے میں موجود تھیں اُن کو روکا ہی گیا۔
ابتدائی زمانے میں جو لوگ شریعت محمدی کی روح کو سمجھتے تھے انھوں نے نئی رسمیں ایجاد کرنے سے انتہائی پرہیز کیا، اور جو چیز لازمی رسم بنتی نظر آئی اس کی فوراً جڑ کاٹ کر رکھ دی۔ انھیں معلوم تھا کہ ایک چیز جس کو نیکی اور ثواب کا کام سمجھ کر ابتدا میں بڑی نیک نیتی کے ساتھ شروع کیا جاتا ہے، وہ رفتہ رفتہ کس طرح سنت، پھر واجب، پھر فرض، اور آخرکار فرضوں سے بھی زیادہ اہم بنتی چلی جاتی ہے اور جہالت کی بنا پر لوگ اس نیکی کے ساتھ کس طرح بہت سی بُرائیاں ملا جلا کر ایک قبیح رسم بنا ڈالتے ہیں۔ اس لیے ابتدائی دور کے علما اور امام اس بات کی سخت احتیاط ملحوظ رکھتے تھے کہ شریعت میں کسی نئی چیز کا اضافہ نہ ہونے پائے۔ ان کا یہ مستقل عقیدہ تھا کہ جو چیز شریعت میں نہیں ہے اسے شرعی حیثیت دینا، یا جس چیز کی شریعت میں جو حیثیت ہے اس سے زیادہ اہمیت اس کو دینا بدعت ہے، اور ہربدعت گمراہی ہے۔
لیکن افسوس ہے کہ بعد کی صدیوں میں اس طرف سے انتہائی غفلت برتی گئی اور بتدریج مسلمان بھی اپنی خودساختہ رسموں کے جال میں اسی طرح پھنستے چلے گئے، جس طرح دنیا کی دوسری قومیں پھنسی ہوئی تھیں۔ (، ترجمان القرآن ، جلد۵۱، عدد۵، فروری ۱۹۵۹ء، ص۱۷، ۲۰)
Exercise: Pakistani
culture
"domesticates" the Quran and distorts its meaning or has overlooked
its application to economic activity. Read material below and tell how?
تعلیم ،اسلام اور زندگی
ملک خدا بخش بُچہ
علم وحکمت زاید از نانِ حلال
عشق و رِقّت آید از نانِ حلال
اسی معنویت اور مفہوم کا ایک قول بائبل میں بھی ملتا ہے اور وہ یہ ہے کہ: ’’ خوراک وپوشاک حاصل کرو اور تمھیں انعام میں آسمان کی باد شاہت بھی عطا کی جائے گی‘‘۔ لہٰذا، خوراک وپو شاک حاصل کرنے کے لیے ہمیں ایسا ہی طریقہ اپنانا چاہیے، جس کے انعام اور صلے میں آسمان کی بادشاہت بھی مل سکے۔ قرآن حکیم میں بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حالات کے بیان میں یہ ذکر ملتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی ایک ضرورتِ زندگی کو پورا کرنے کے لیے آگ کی تلاش میں نکلے تھے ۔ لیکن سامانِ زندگی کی اس تلاش میں وہ تجلیِ خدا اور نورِ وحی سے فیض یاب ہو کر واپس لوٹے اور انھیں یہ سبق ملا کہ سامانِ زندگی معاش تک محدود نہیں۔ اس لیے عزیز انِ من ! ضروریاتِ زندگی کی تلاش کو بھی اللہ تعالیٰ کی تلاش کا ایک وسیلہ بنا لیجیے۔ ’’جان لا غر وتن فربہ ‘‘ صحت مند زندگی کی علامت نہیں ہے۔ اس لیے معاش کی تلاش میں جسم کی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ روح کی ضرورت پوری کرنے کی بھی فکر کیجیے اور اس دو مقصدی تلاش کی راہ پر پوری ثابت قدمی اور استقامت سے قائم رہیے۔
۳- ’آسان روزی ‘ (easy money)کا فلسفہ چوںکہ آج کل کچھ زیادہ ہی کشش رکھتا ہے اور مقبول ہے، اس لیے میں آپ کو خبر دار کرنا چاہتا ہوں کہ اس میں یقین رکھنے والوں کی بے اعتدالیوں اور بے احتیاطیوں کو دیکھ کر کہیں آپ کے قدم ڈگمگا نہ جائیں۔ یاد رکھیے، جو لطف وکیفیت اپنی ہڈیوں کا گودا پگھلا کر رزق حاصل کرنے میں ہے، وہ دوسروں کے حقوق کا خون کرکے خوان یغما پانے میں نہیں۔ ایک جنت وہ تھی جو حضرت آدم ؑ کو انعام کے طور پر عطا کی گئی تھی مگر وہ جلدہی ان سے چھن گئی۔ اور ایک جنت وہ بھی ہے جو انسان کو اعمالِ حسنہ کے بدلے میں عطا کی جائے گی اور اس کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ انسان کے قبضے میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہے گی۔
۴- یہ سچ ہے کہ اس دو مقصدی تلاش معاش میں آپ کو اپنے کم تر مقصد میں کچھ ناکامیاں بھی ہوں گی۔ یعنی سامان شکم مہیا کرنے کی دوڑ میں بعض اوقات آپ دوسروں سے پیچھے رہ جائیں گے، لیکن اعلیٰ تر مقصد ہمیشہ آپ کی پشت پناہی کرے گا اور آ پ کو کسی محرومی کا احساس نہیں ہونے پائے گا۔ اگر آپ اپنی ’روح کو خوابیدہ‘ اور ’بدن کو بیدار‘ رکھنا چاہتے ہیں تو الگ بات ہے ۔ ورنہ زندگی کے ہزار ہا پہلو ایسے ہیں کہ جن پر توجہ کر کے انسان اپنی محرومیوں کا بڑی حد تک مداوا کرسکتا ہے۔ ہیلن کیلر [م: ۱۹۶۸ء] جیسی اندھی ، بہری اور گونگی عورت بھی اپنے من میں ڈوب کر سراغِ زندگی پا لیتی ہے۔ ایک جگہ اس نے لکھا ہے کہ: ’’یہ مسرت بخش یقین واعتماد کہ میری طبعی رکاوٹیں میرے وجود کا لازمی جزو نہیں ہیں۔ وہ میرے جسم کے روگ سہی لیکن میرے من کا روگ نہیں بن سکتیں اور رنگ وآہنگ کی آواز سے یکسر خالی دنیا میں رہتے ہوئے میرا تجربہ بہت محدود سہی، لیکن میں نے یہ عرفان حاصل کر لیا ہے کہ میرا من مسرت کا ایک ایسا مثبت ذریعہ ہے، جو تاریکیوں اور خاموشیوں کے اتھاہ سمندر میں بھی نوروارتعاش سے لبریز تصورات کی بدولت مسرتیں اور خوشیاں نچوڑ سکتا ہے۔ میں نے زندگی سے یہ سبق سیکھا ہے کہ خواہ ہمیں خارجی دنیا میںکسی بڑی سے بڑی مصیبت کا سامنا ہی کیوں نہ ہو، ہم پھر بھی نور ، آواز اور نظم کو خود اپنے من کی دنیا کے اندر بھی تخلیق کرسکتے ہیں
Comments
Post a Comment