Assignment #1 of Media laws and Ethics.
To George Jacob Holyoake ‘secularism is not an argument against
Christianity, it is one independent of it’; however in Pakistan secularism is
an argument against Islam and it thrives on vehement opposition to it. The
Secular lobby of Pakistan has monopolized the
all means of communication; and for these highly unethical secular professionals
“media ethics” is an oxymoron; providing the public, without compunction,, with inaccurate information. Media
content affect consumers in a way that they fail to spot falsities thus these unethical
secular professionals promote an unfair democracy.
Media
ethics require the representation of both ends of spectrum; but the “Point-of-view” journalists feel no any
obligation to
provide even false balance. A narrative that constructs secular Quaid-e-Azam being peddled as
if it is minus the counter one, hence it appears not the one but the only one
Students
must know that without getting a full understanding of the ethical choices that
weigh on media professionals, they
cannot go out in the world and practice their profession in such a way that
they are a living example that media ethics are real and meaningful.
Raúl Alberto
Mora says : ‘The idea of “counter-“ itself implies a space of resistance
against traditional domination. A counter-narrative goes beyond the notion that
those in relative positions of power can just tell the stories of those in the
margins’. Instead, these must come from the margins, from the perspectives and
voices of those individuals. The effect of a counter-narrative is to empower
and give agency to those communities. By choosing their own words and telling
their own stories, members of marginalized communities’
In
Pakistan mainstream ideas
garner no news coverage; therefore majority appears in the margins. Marginalized
community is in majority_ perhaps an interesting paradox: marginalized
majority.
An
article below provides the alternative points of view, helping to create alternative
narrative truly presenting the realities of majority.
The research article
below serves as a counter-narrative, a
positive alternative to extremist propaganda, or alternatively aims to
deconstruct or delegitimise extremist narratives.
Students are required to explain how it does by juxtaposing its lines with a narrative that goes against or endorse either of the
narrative and proffer rational arguments for seconding it.
Capitalize
on scruples as a kind of moral compass to know truth
By Prof Dr Sohail Ansari
By Prof Dr Sohail Ansari
پاکستانیات
سیکولرجناح؟
احمد سعید
قائداعظم محمد علی جناحؒ نے دُنیا کے نقشے پر ایک نئی مملکت قائم کر کے جو
کرشمہ کر دکھایا
ان کے مخالفین ابھی تک اس صدمے سے نڈھال ہیں۔ کبھی وہ ابوالکلام آزاد کے اس قول کا سہارا لیتے ہیں کہ: ’’پاکستان
صرف چند برسوں کے لیے معرضِ وجود میں آیا ہے‘‘، کبھی پاکستان کی بنیادوں پر
کلہاڑی چلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ: ’’مذہب کی بنیاد پر قائم ہونے والا ملک زیادہ دیر تک قائم نہیں
رہ سکتا‘‘۔معاندین
قائداعظم کی ذاتی زندگی پر بے بنیاد الزامات عائد کرنے سے بھی نہیں چُوکتے۔ ان پر ہندستان کی ’وحدت پر
کلہاڑی چلانے‘ کا
الزام عائد کیا جاتا ہے۔ ایک صاحب کچھ عرصے سے انھیں ’سیکولر‘ ثابت کرنے کی ناکام
سعی میں مصروف ہیں۔
اگر آ پ کوئی بھی لغت اُٹھا کر دیکھیں تو آپ کو ’سیکولر‘ کے پانچ معنی نظر آئیں گے:
۱- عمر میں ایک دفعہ آنے والا۔
۲- صدیوں رہنے والا دوامی جیسے ’چرچ‘ اور ’سٹیٹ‘ کے درمیان مخاصمت۔
۳- دُنیوی و دُنیاوی ، غیر مذہبی اور غیر دینی۔
۴- متشکک، دینی صداقت میں شک کرنے والا یا دینی تعلیم کا مخالف۔
۵- دُنیا دار پادری، متاہلِ پادری، گر ہست پادری۔
ان معنوں میں سے پہلے دو کا اطلاق تو کسی بھی صورت قائداعظم پر نہیں ہوسکتا۔یورپ میں چرچ اور سٹیٹ میں مغائرت کا جو تصور ہے وہ اسلام پر منطبق نہیں کیا جاسکتا۔ کیوں کہ اسلام میں چرچ اور سٹیٹ کی علیحدگی کا کوئی تصور موجود نہیں۔ یورپ میں اس تصور کی ضرورت یوں پیش آئی کہ چوں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی کُل زندگی کا صرف ۳۵ سالہ دور محفوظ ہے، اس لیے ان کے لیے ممکن نہیں کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے تمام پہلوئوں کو بطور نمونہ پیش کرسکیں، جب کہ احادیث کے ذریعے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے تمام پہلوئوں کا ایک ایسا بھرپور نقشہ سامنے آتا ہے، جس میں تمام مسلمانوں کے لیے ہدایت کا پیغام موجود ہے۔ صبح سے شام تک زندگی گزارنے کا عمل، پیدایش سے موت تک کے سفر کے لیے ہدایات، ناخن کاٹنے، بیت الخلا جانے، غسل کرنے، کاروبار کرنے، اولاد کی پرورش، جنگ کرنے، صلح کرنے، معاہدہ کرنے، حکومت کرنے، گھر چلانے، غرض زندگی کا کوئی ایسا پہلونہیں جس کے بارے میں کوئی ہدایت نہ ملتی ہو اور جس پر آپؐ کی رہنمائی نظر نہ آتی ہو، لہٰذا اسلام میں چرچ اور سٹیٹ ایک ہی ہیں اور ان میں مخاصمت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
قائداعظم کو سیکولر ثابت کرنے کے لیے معاندین اور دوست نُما دشمن مختلف ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ ایک دور میں یہ کہا جاتا رہا کہ ان کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں، نہ تو انھیں نماز آتی ہے اور نہ وہ نماز پڑھتے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ الزام لگانے والوں میں آل انڈیا مسلم لیگ کے ایک نام نہاد ’ستون‘ سرسکندر حیات بھی شامل تھے۔ ملک برکت علی نے ۲۱جولائی ۱۹۴۱ء کو قائداعظم کو لکھا تھا کہ سر سکندر حیات نے لائل پور [فیصل آباد] میں تقریرکرتے ہوئے کہا ہے کہ: میں گناہ گار ہوسکتا ہوں، لیکن باقاعدگی کے ساتھ نماز پڑھتا ہوں، جب کہ آپ کے قائداعظم دن میں ایک بھی نماز نہیں پڑھتے۔(رضوان احمد، Quaid-i-Azam Papers, 1941، کراچی، ۱۹۷۶ء، ص ۶۴)
قائداعظم کی زندگی کے اس پہلو پر کوئی خاص کام نہیں ہوا، اس لیے اخبارات میں شائع شدہ خبروں سے اس بے بنیاد الزام کا جائزہ لیتے ہیں:
قائداعظم نے ۱۹۳۵ء میں عیدالفطر کی نماز بمبئی کی کرکٹ گرائونڈ میں ادا کی تھی۔ اس موقعے پر ہندستان میں افغانستان کے سفیر مارشل شاہ ولی بھی موجود تھے۔(رحیم بخش شاہین، نقوشِ قائداعظم ، لاہور، ۱۹۷۶ء، ص ۷۶)
یکم مئی ۱۹۳۶ء کو قائداعظم نے بادشاہی مسجد لاہور میں نمازِ جمعہ ادا کی۔ ہنگری کے مفتیِ اعظم علّامہ آفندی نے بھی ان کی ہمراہی میں نماز ادا کی۔ (گفتارِ قائداعظم، (مرتبہ: احمد سعید)۱۹۷۶ء، ص ۱۵۱ بحوالہ انقلاب ، ۳مئی ۱۹۳۶ء)
۳نومبر ۱۹۴۰ء کو آزاد میدان پارک بمبئی میں نمازِ عید کے بعد مسلمانوں سے خطاب کیا تھا۔(ایضاً، ص ۲۵۱)
۳مارچ ۱۹۴۱ء کو آسٹریلیشا مسجد، لاہور میں نمازِ عصر ادا کی تھی۔ اس موقعے پر آپ نے چوڑی دار پاجامہ اور اچکن زیب ِ تن کر رکھی تھی۔ چوں کہ مسجد میں تاخیر سے پہنچے تھے اس لیے صفیں پھلانگ کر آگے جانے کی بجاے پچھلی صف میں آبیٹھے تھے۔ نماز سے فراغت کے بعد اپنے جوتے خود اُٹھائے تھے۔
۲۹دسمبر ۱۹۴۱ء کو آپ نے عیدالاضحی ناگ پور میں ادا کی تھی۔ اس موقعے پر خطبے اور دُعا کے بعد لوگ آپ سے مصافحہ کے لیے بے چین تھے۔ آپ مائیک پر تشریف لائے اور سب کو عیدمبارک کہہ کر نہایت شگفتہ انداز میں کہا کہ: ’اگر آپ سب لوگ میرے ساتھ ہاتھ ملائیں تو میرا ہاتھ یہیں رہ جائے گا‘۔(نواب صدیق علی خان، بے تیغ سپاہی، کراچی، ۱۹۷۱ء، ص ۴۲۸)
آل انڈیا مسلم لیگ کے کراچی اجلاس (۱۹۴۳ء) کے موقعے پر قائداعظم نے نمازِجمعہ سندھ مدرسۃ الاسلام کی مسجد میں ادا کی تھی۔(صادق قصوری، تحریکِ پاکستان اور مشائخِ عظام، لاہور، ص ۲۲-۲۳)
۳۰نومبر ۱۹۴۴ء کو نئی دہلی میں نمازِ عید ادا کی اور اس موقعے پر مسلمانوں سے خطاب بھی کیا۔ اسی طرح ۵نومبر ۱۹۴۵ء کو نماز عیدالاضحی کے بعد مسلمانانِ بمبئی سے خطاب کیا تھا۔ دسمبر ۱۹۴۶ء میں قائداعظم لندن تشریف لے گئے تھے۔ اس موقعے پر ممتاز حسن بھی ان کے ہمراہ تھے۔ ممتاز حسن نے اس سفر کا حال بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: لندن میں قائداعظم نے اس مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے جانا پسند کیا جہاں عام مسلمان نماز پڑھتے ہوں۔ چنانچہ آپ نے ایسٹ اینڈ کی مسجد میں، جو غریب مسلمانوں کی آباد کی ہوئی تھی ، نماز ادا کی۔ قائداعظم کی آمد پر خطبہ ہو رہا تھا تو کچھ لوگ کھڑے ہوگئے۔ اس پر آپ نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ: ’میں دیر سے آیا ہوں اس لیے مجھے جہاں جگہ ملی ہے وہی میرے لیے مناسب ہے‘۔(سہ ماہی صحیفہ ، ’قائداعظم نمبر‘لاہور، ۱۹۷۶ء، ص ۶۴)
یہاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا، جس میں آپؐ نے لوگوں کے سروں کو پھلانگتے ہوئے آگے صف میں جانے سے منع فرمایا تھا۔ زیڈ اے سلہری بھی اس موقعے پر قائداعظم کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے۔ ان کی روایت ہے کہ قائداعظم آخری صف میں بیٹھے بڑے روایتی انداز میں خطبہ پوری توجہ سے سن رہے تھے۔ میں نماز میں ان کے ساتھ ہی کھڑا تھا۔ ایک شخص نے نماز کے بعد ان کے جوتوں کے تسمے باندھنے چاہے مگر آپ نے اسے ایسا نہ کرنے دیا۔
۱۲جولائی ۱۹۴۶ء کو قائداعظم نے حیدرآباد دکن کی مسجد میں نمازِ جمعہ ادا کی تھی۔
اسلامیہ کالج لاہور میں پنجاب مسلم سٹودنٹس فیڈریشن کے ایک جلسے میں علامہ مشرقی کے اذان دینے کا واقعہ تو ۱۳جنوری ۱۹۴۶ء کی بات ہے جب قائداعظم نے دن بارہ بجے اذان سنی تو کہا کہ یہ تو نماز کا کوئی وقت نہیں۔ ظاہر ہے کہ ایک شخص نماز نہیں پڑھتا، اس کو یہ کیسے معلوم ہوگیا کہ کون سی نماز کس وقت پڑھی جاتی ہے؟(بیدار ملک، یارانِ مکتب، جلد دوم، پاکستان سٹڈی سنٹر، لاہور، ۱۹۹۲ء، ص۴۲-۴۳)
سیکولر کا تیسرا معنی، یعنی دُنیوی، دُنیاوی، غیر مذہبی اور غیردینی۔ آیئے اس کو قائداعظم پر منطبق کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر قائداعظم کی ابتدائی زندگی پر ایک غائر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ معاندین کے دعویٰ کے برعکس ایک مذہبی اور دینی ذہن رکھنے والے انسان تھے۔
بمبئی پریذیڈنسی سے شائع ہونے والے ایک اخبار بمبے گزٹ نے اپنی ۱۳؍اگست ۱۸۹۷ء کی اشاعت میں شہر کی مشہور و معروف سماجی تنظیم انجمن اسلام کے زیرِاہتمام ۱۲؍اگست ۱۸۹۷ء بروز جمعرات منعقدہ ایک محفلِ میلاد کی تفصیل دی ہے۔ انجمن اسلام کی عمارت میں محمد جعفری کی تحریک اور نواب محسن الملک کی زیرصدارت یہ جلسہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یومِ ولادت منانے کے سلسلے میں منعقد ہوا تھا اور اس میں ہرطبقے کے مسلمان مغل، عرب، میمن اور بوہرے شریک ہوئے تھے۔ نواب محسن الملک نے اپنی صدارتی تقریر میں اسلام نے مسلمانوں پر جو فرائض عائد کیے ان کا ذکر کیا اور مسلمانوں سے کہا کہ وہ اپنی زندگیاں احکامِ اسلام کے مطابق پرہیزگاری، تقویٰ و طہارت اور راست بازی سے بسر کریں۔ صدارتی تقریر سے قبل سامعین نے بھرپور توجہ اور دھیان سے مولود شریف سنا۔ اس مولود شریف میں ۲۱سالہ ’سیکولر‘ جناح بھی موجود تھے۔(ریاض احمد (مرتب): The Works of Quaid-i-Azam Mohammad Ali Jinnah، جلد۱، اسلام آباد، ۱۹۹۶ء، ص ۴)
تقریباً چار سال بعد انجمنِ اسلام نے ۳۰جون ۱۹۰۱ء بروز اتوار کو اپنے سکول کے ہال میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یومِ ولادت منایا جس میں چار سو کے قریب مسلمانوں نے شرکت کی تھی۔ مرزا علی محمد خان نے اپنی صدارتی تقریر میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور تعلیمات کا بھرپور احاطہ کیا اور آپؐ کے کردار کی سادگی، عالی حوصلگی، عالی ظرفی، شرافت و نجابت کا ذکر کیا۔ اس تقریب میں بھی ’سیکولر‘جناح موجود تھا۔(ایضاً، ص ۶۷-۶۸)
۳۲سال بعد ۷دسمبر ۱۹۳۳ء بروز بدھ لندن کے میٹروپول ہوٹل میں مسلم سوسائٹی برطانیہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے سر اکبر حیدری کی زیرِ صدارت ایک تقریب کا اہتمام کیا تھا۔ اس تقریب میں علامہ اقبال، عباس علی بیگ، لارڈ ہیڈلے (نومسلم)، ڈاکٹر شفاعت احمد خان، اے ایچ غزنوی اور سردار اقبال علی شاہ کے علاوہ ایران، البانیہ، مصر اور سعودی عرب کے وزرا بھی شامل تھے۔ شرکا میں محمدعلی جناح کا نام نمایاں تھا۔(جمیل الدین احمد،Quaid-i-Azam as Seen by His Contemporaries،پبلشرز یونائیٹڈ، لاہور، دسمبر ۱۹۶۶ء)
تقریباً ۱۴سال بعد ۲۵ جنوری ۱۹۴۸ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن نے عیدمیلاد النبیؐ کی تقریب کا اہتمام کیا۔ قائداعظم نے اس تقریب کی صدارت کی تھی۔ اس موقعے پر خطاب کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ: ’’میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک طبقہ دانستہ طور پر یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان کے دستور کی اساس شریعت پر استوار نہیں کی جائے گی۔ آج بھی اسلامی اصولوں کا اطلاق زندگی پر اسی طرح ہوتا ہے جس طرح آج سے ۱۳سوسال پہلے ہوتا تھا۔ جو لوگ گمراہ ہوگئے ہیں یا کچھ لوگ جو اس پروپیگنڈے سے متاثر ہیں، میں انھیں بتلا دینا چاہتا ہوں کہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیرمسلموں کو بھی خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ اسلام اور اس کے اعلیٰ نصب العین نے ہمیں جمہوریت کا سبق سکھایا ہے۔ اسلام نے ہرشخص کو مساوات، عدل اور انصاف کا درس دیا ہے‘‘۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شان دار الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ:’’ آج ہم اس عظیم ہستی کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں جن کے لیے نہ صرف لاکھوں دل احترام سے لبریز ہیں بلکہ جو دنیا کے عظیم ترین لوگوں کی نظر میں بھی محترم ہیں۔ میں ایک حقیر آدمی اس عظیم المرتبت شخصیت کو کیا خراجِ عقیدت پیش کرسکتا ہوں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک عظیم رہبر تھے۔ آپؐ ایک عظیم قانون عطا کرنے والے تھے، آپؐ ایک عظم مدبّر تھے، آپؐ ایک عظیم فرماں روا تھے۔ جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو بلاشبہہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اس بات کو بالکل نہیں سراہتے۔ اسلام نہ صرف رسوم و رواج، روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ ہے، بلکہ اسلام ہرمسلمان کے لیے ضابطہ بھی ہے جو اس کی زندگی کے رویے، بلکہ اس کی سیاست و اقتصادیات وغیرہ پر محیط ہے‘‘۔(وحید احمد(مرتب) ، The Nation's Voice جلد ہفتم، قائداعظم اکادمی، کراچی،۲۰۰۳ء، ص ۱۵۳)
گویا ایک شخص ۲۱سال کی عمر سے لے کر ۷۲سال کی عمر تک مذہبی مجالس میں شرکت کرتا رہا، عام مسلمانوں کے ساتھ نمازیں ادا کرتا رہا اور مختلف خطابات میں آں حضوؐر کو خراجِ عقیدت پیش کرتا رہا، لیکن اس کے باوجود اس پر سیکولرہونے کا الزام ہے۔
یہ بات بھی کیسی عجیب لگتی ہے کہ ۱۹۱۲ء میں اسی سیکولر جناح نے بحیثیت ِ رکن امپریل قانون ساز کونسل میں اسلامی قانون وقف علی الاولاد کا مسودہ پیش کیا اور اسے قانونی حیثیت دلوائی۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ہندستان کی آئینی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ کونسل نے ایک پرائیویٹ ممبر (Private Member) کے بل کو قانونی شکل دی تھی۔(وحید احمد(مرتب) ، The Nation's Voice جلد ہفتم، قائداعظم اکادمی، کراچی،۲۰۰۳ء، ص ۱۵۳)
قائداعظم کو’سیکولر‘ بنانے کے لیے ان کی ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کا سہارا لیا جاتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ قائداعظم نے شاید اپنی تمام سیاسی زندگی میں صرف ۱۱؍اگست کو ہی تقریر کی تھی، نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد۔ آیئے اس تقریر کا جائزہ لیتے ہیں:
سب سے پہلے تو یہ وضاحت کر دی جائے کہ قائداعظم کی تقاریر کے مندرجہ ذیل مجموعے اب تک شائع ہوچکے ہیں: ٭محمدعمر کی مرتبہ: Rare Speeches ، ۱۹۱۰ء تا ۱۹۱۸ء(مطبوعہ صفحات:۲۵۱)، ٭جمیل الدین احمد مرحوم کی مرتبہ: Speeches and Writings of Mr. Jinnah (شیخ محمد اشرف، لاہور، ۲جلدیں)، ٭ڈاکٹر وحید احمد کی مرتب کردہ: The Nation's Voice (چھے جلدیں)، ٭ ڈاکٹر ایم رفیق افضل کی مرتبہ: Speeches in the Legislative Assembly (مطبوعہ ریسرچ سوسائٹی آف پاکستان، لاہور، صفحات:۳۸۸)، ٭ڈاکٹر ایم رفیق افضل ہی کی Selected Speeches and Statements of the Quaid-i-Azam ، ریسرچ سوسائٹی آف پاکستان، لاہور، مئی ۱۹۷۳ء، صفحات: ۴۷۵، قائداعظم کی تقاریر بحیثیت گورنر جنرل ۱۹۴۷ء تا ۱۹۴۸ء، ٭گفتارِ قائداعظم، ۱۹۱۱ء تا ۱۹۴۷ء، مرتبہ احمد سعید۔
تقاریر کے یہ مجموعے ثابت کرتے ہیں کہ قائداعظم نے ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کے علاوہ بھی تقاریر کی تھیں۔ قائداعظم کی پبلک زندگی کی آخری تقریب سٹیٹ بنک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب تھی جس میں آپ نے معاشی ماہرین پر زور دیا تھا کہ چوں کہ سرمایہ داری نظام اور سوشلسٹ نظام انسانی مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہے ہیں اس لیے وہ دُنیا کے سامنے اسلامی نظام کی خصوصیات لے کر آئیں۔
۱۱؍اگست کی تقریر کے بارے میں بے شمار غلط فہمیاں پیدا ہوچکی ہیں جن کا دُور کیا جانا نہایت ضروری ہے۔ ۲۰۰۵ء میں اے آر وائی ٹیلی ویژن پر ایک مؤرخ نما دانش ور نے ایک مضحکہ خیز دعویٰ یہ کیا ہے کہ ’حکومت نے قائداعظم کی اس تقریر پر پابندی لگا دی تھی‘۔ اور یہی غیرمنطقی بات ضمیر نیازی نے بھی لکھی۔
سوال یہ ہے کہ آیا یہ پابندی حکومت ِ پاکستان نے عائد کی تھی یا جواہر لال نہرو کی حکومت ِ ہند نے یا پھر برطانوی حکومت نے؟ ۱۱؍اگست کو حکومت ِ پاکستان تو ابھی معرضِ وجود میں بھی نہیں آئی تھی۔ ابھی تک حکومت انگریز کی تھی۔ بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ پاکستان بننے سے تین دن پہلے ہی مسلم لیگ کاروبارِ حکومت و ریاست پر کنٹرول حاصل کرلے؟ اگر ایسا ہونا ممکن نہیں تو پھر وہ کس طرح یہ پابندی عائد کرسکتی تھی۔ دوسرا یہ کہ پنڈت نہرو کی حکومت کے لیے یہ بہترین موقع تھا کہ وہ قائداعظم کے نظریات میں تبدیلی کے معاملے کو اُچھالتی لیکن مسئلہ یہاں بھی یہی ہے کہ پنڈت جی نے ۱۴؍اگست کو اپنے عہدے کا حلف اُٹھایا تھا۔ رہی برطانوی حکومت تو اس کا بھی مفاد اسی میں تھا کہ وہ اس تقریر پر پابندی لگانے کے بجاے اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی، مگر اس کے بھی کوئی مظاہر سامنے نہیں آتے۔
قائداعظم کی ۱۱؍اگست۱۹۴۷ء کی تقریر کو اس کے سیاق و سباق سے علیحدہ کرکے اس کے اصل مفہوم کو سمجھنا ایک لاحاصل امر ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ قائداعظم نے اپنی اس تقریر میں اقلیتوں کے حوالے سے جو کچھ کہا، وہ کوئی اَنہونی یا نئی بات نہیں تھی۔ قائداعظم کی تقاریر میں آپ کو جابجا اقلیتوں کے حوالے سے یہی کچھ نظر آتا ہے، مثلاً ۱۰نومبر ۱۹۴۶ء کو بنگال کے فرقہ وارانہ فسادات پر اظہارِ افسوس کرتے ہوئے آپ نے ہندو اور مسلمانوں دونوں سے اس قتل و غارت کو بند کرنے کی اپیل کی۔(احمد سعید (مرتب) گفتارِ قائداعظم، اسلام آباد، ۱۹۷۶ء،ص ۳۰۳)
۲۶مارچ ۱۹۴۶ء کو قائداعظم نے گوہاٹی میں ایک جلسۂ عام سے خطاب کرتےہوئے یقین دلایا کہ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کا پورا تحفظ کیا جائے گا اور انھیں تمام جائز مراعات حاصل ہوں گی۔ اس کے متعلق کسی قسم کے خوف یا بدگمانی کی ضرورت نہیں۔ وہ پاکستان کے ایسے ہی آزاد شہری ہوں گے جیسے کسی اور مہذب ملک کے ہوسکتے ہیں‘‘۔(بحوالہ پیسہ اخبار، ۱۰مارچ ۱۹۴۶ء، گفتارِقائداعظم، ص ۲۹۴)
یکم جولائی ۱۹۴۷ء کو پاکستان اچھوت فیڈریشن کے صدر اور لاہور میونسپل کارپوریشن کے ڈپٹی میئر سکھ لال نے قائداعظم سے دہلی میں ملاقات کی۔ ملاقات کے بعد ایک بیان میں انھوں نے اس ملاقات کو تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا کہ: ’’قائداعظم نے مہربانی سے پاکستان میں اقلیتوں کے بارے میں تمام شکوک و شبہات کو دُور کردیا ہے اور مسٹر جناح نے یہاں تک کہا ہے کہ ہم رنگ و نسل اور ذات پات کی تمیز کے بغیر بھائیوں کی طرح رہیں گے‘‘۔(وحید احمد (مرتب)،The Nation's Voice، جلدششم، قائداعظم اکادمی، کراچی ، ۲۰۰۲ء،ص ۲۵)
۱۳جولائی ۱۹۴۷ء کو قائداعظم نے نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس میں اقلیتوں کو یقین دلایا کہ’’ ان کے مذہب، ثقافت، جان اور جایداد کی حفاظت کی جائے گی اور وہ پاکستان کے مکمل شہری ہوں گے اور اس سلسلے میں کسی سے کوئی امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جائے گا۔(بحوالہ پیسہ اخبار، ۲۴جولائی ۱۹۴۷ء، گفتارِقائداعظم، ص ۳۱۳)
۱۳جولائی ۱۹۴۷ء کو قائداعظم کی پریس کانفرنس کے بعد آئین ساز اسمبلی کی ۱۱؍اگست کی تقریر ایک تسلسل ہے اور اس پس منظر میں کی گئی ہے کہ نہ صرف مشرقی پنجاب بلکہ دہلی، یوپی اور ہندستان کے دیگر صوبوں میں مسلم کش فسادات اپنے عروج پر تھے جس کا ردعمل مغربی پنجاب میں بھی ظاہر ہوا۔ اب ایک طرف تو انسانی جانیں ضائع ہورہی ہیں اور دوسری جانب ہندو اور سکھ صنعت کار اپنا سرمایہ سمیٹ کر ہندستان منتقل ہورہے ہیں اور یوں پاکستان کو دہری ضرب لگ رہی ہے۔ اس آگ و خون کے پس منظر میں قائداقلیتوں کو یقین دلا رہے ہیں نہ کہ وہ اپنے ’سیکولر‘ ہونے کا اعلان کر رہے ہیں۔ اپنے اس دعوے کے ثبوت میں ہم اس دور کے چند اخبارات کے تراشے پیش کرتے ہیں:
آل انڈیا مسلم لیگ کا ترجمان ڈان ابھی دہلی سے شائع ہورہا تھا۔ قائدکی یہ تقریر ۱۲؍اگست کے شمارے میں شائع ہوئی تھی۔ ڈان نے اس تقریر کی جو سرخیاں جمائیں وہ ملاحظہ فرمایئے: Jinnah Assures Minorities of Full Citizenship and asks for Co-operation
ایک سابق کانگریسی اور اشتراکی خیالات کے طرف دار لیڈر میاں افتخار الدین کے اخبار پاکستان ٹائمز نے اپنی ۱۳؍اگست کی اشاعت میں قائداعظم کی مذکورہ تقریر کا مکمل متن جس پر درج ذیل سرخیاں لگائی گئی تھیں، شائع کیا۔ اگر یہ تقریر قائد کے پرانے خیالات سے براءت اور سیکولرازم کی قبولیت کا اظہار ہوتی تو کم از کم میاں افتخار الدین کا اخبار اس طرف تھوڑا بہت اشارہ ضرور کرتا۔ اخبار پاکستان ٹائمز کی سرخیاں اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ یہ تقریر اقلیتوں کو یقین دہانیوں کا چارٹر ہے نہ کہ اپنے سیکولر ہونے کا اعلان۔ تین سرخیاں ملاحظہ ہوں:
- Jinnah calls to concentrate on Mass welfare.
- Hope for End of Hindu-Muslim distinction in Politics.
- Equal rights for all citizens in Pakistan State.
قائداعظم کے متعلق برطانوی سیاست دانوں اور اخبارات کا معاندانہ رویہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ لارڈ لنلتھگو (Linlithgow) کی سوانح، پنڈرل مون کی مرتب کردہ لارڈ ویول کی ڈائری اور مائونٹ بیٹن کی سوانح اور انٹرویو کا ایک ایک لفظ قائد کے خلاف زہر اُگلتا نظر آتا ہے۔ برطانوی پریس کے معاندانہ رویے کے جائزے کے لیے ڈاکٹر کے کے عزیز کی کتاب Britain, India and Pakistan کا مطالعہ کافی ہوگا۔ اب اگر قائداعظم اپنی اس تقریر کو سیکولرازم کی قبولیت کا ذریعہ بنا رہے ہیں تو کم از کم لندن کے اخبار ٹائمز کے پاس سنہری موقع تھا کہ وہ قائداعظم کے کردار کی منافقت کو ظاہر کرتا۔ ٹائمز کے ۱۳؍اگست کے شمارے میں ص۶ پر یہ تقریر اس سرخی کے ساتھ شائع ہوئی تھی: A Call for Tolerance۔یاد رہے کہ اخبار نے یہ تقریر کراچی میں اپنے خاص نمایندے کے حوالے سے شائع کی تھی۔
۱۹۴۹ء میں ایس اے آر بلگرامی نے کراچی سے ایک کتاب Pakistan Yearbook شائع کی تھی، جس میں قائداعظم کی مذکورہ بالا تقریر ص ۸ تا ۱۵ پر موجود ہے۔ اس تقریر پر یہ سرخی جمائی گئی ہے: Jinnah's Charter of Minorities Announced
اقلیتوں ہی کے حوالے سے ایک اور نہایت اہم واقعہ اس تقریر کے ٹھیک تین دن بعد پیش آتا ہے، جو ہمارے اس دعوے کو مزید تقویت بخشتا ہے کہ قائد ہرگز ہرگز اپنے گذشتہ عقائد و نظریات سے دست بردار نہیں ہوئے تھے۔ ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو مائونٹ بیٹن نے انتقالِ اقتدار کے وقت اپنی تقریر میں یہ اُمید ظاہر کی کہ: ’پاکستان میں اقلیتوں کے سلسلے میں اکبر بادشاہ کی تقلید کی جائے گی‘۔ اس کے جواب میں قائداعظم نے کہا کہ:
اکبر بادشاہ کی وہ رواداری اور نوازش جو اس نے اپنی غیرمسلم رعایا پر کی، کوئی حالیہ اختراع نہیں بلکہ تیرہ سو سال قبل ہمارے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے عیسائیوں اور یہودیوں پر فتح حاصل کرنے کے بعد نہ صرف لفظی بلکہ عملی طور پر عالی ظرفی اور فیاضی کا سلوک کیا تھا۔ آپؐ نے ان سے حددرجہ رواداری کا برتائو کیا اور ان کے مذہب اور عقائد کا احترام کیا۔ مسلمانوں کی تمام تاریخ جہاں جہاں انھوں نے حکمرانی کی، ایسے ہی تہذیب و شائستگی سکھانے والے عظیم اصولوں سے بھری ہوئی ہے جن پر ہمیں عمل کرنا چاہیے۔(وحید احمد (مرتب) ،The Nation's Voice،جلدششم، ص ۳۷۷)
قائداعظم کے سیکولر ہونے والے معاملے کا ایک اور دل چسپ پہلو یہ ہے کہ اگر وہ سیکولر تھے تو ان کی قائم ہونے والی ریاست بھی سیکولر ہونی چاہیے۔ اس بارے میں خود قائداعظم کا کیا موقف تھا؟ سنیے: ۱۳جولائی ۱۹۴۷ء کو دہلی میں آخری پریس کانفرنس کے دوران آپ نے کہا کہ پاکستان میں اقلیتوں کے مذہب، عقیدہ، زندگیوں، جایدادوں اور ثقافت کی مکمل حفاظت کی جائے گی اور وہ تمام معاملات میں پاکستان کے مکمل شہری تصور ہوں گے۔
پریس کانفرنس میں ایک اخباری نمایندے نے سوال کیا کہ:’کیا پاکستان ایک سیکولر ریاست ہوگی یا مذہبی (Theocratic)؟‘ قائداعظم نے اس پر کہا کہ: ’آپ جو سوال پوچھ رہے ہیں وہ بے معنی اور فضول(absurd) ہے۔ مَیں نہیں جانتا کہ تھیوکریٹک سٹیٹ کا کیا معنی ہے۔ ایک اخباری نمایندے نے کہا کہ: ’تھیوکریٹک سٹیٹ کا مطلب ہے کہ وہ ریاست جہاں مسلمانوں کو تو مکمل شہریت حاصل ہو، جب کہ غیرمسلموں کو یہ حیثیت حاصل نہ ہو‘۔ قائداعظم نے کہا کہ: ’اس کا مطلب ہے کہ اس سے پہلے میں نے جو کچھ کہا وہ بطخ کی پشت پر پانی ڈالنے کے مترادف ہوا۔ خدا کے لیے اپنے ذہنوں سے اس بکواس (nonsense) کو نکال دو‘۔ ایک اور نمایندے نے گرہ لگائی کہ: ’شاید سوال پوچھنے والے کا مطلب یہ ہے کہ مذہبی ریاست، جسے مولانا حضرات چلائیں گے‘۔ اس پر جب قائداعظم نے کہا کہ: ’ہندستان میں پنڈتوں کی حکومت کے متعلق کیا خیال ہے؟‘ تو سب نے ایک زوردار قہقہہ لگایا۔(وحید احمد (مرتب) ،The Nation's Voice،جلدششم، ص۲۸۳)
اگر آ پ کوئی بھی لغت اُٹھا کر دیکھیں تو آپ کو ’سیکولر‘ کے پانچ معنی نظر آئیں گے:
۱- عمر میں ایک دفعہ آنے والا۔
۲- صدیوں رہنے والا دوامی جیسے ’چرچ‘ اور ’سٹیٹ‘ کے درمیان مخاصمت۔
۳- دُنیوی و دُنیاوی ، غیر مذہبی اور غیر دینی۔
۴- متشکک، دینی صداقت میں شک کرنے والا یا دینی تعلیم کا مخالف۔
۵- دُنیا دار پادری، متاہلِ پادری، گر ہست پادری۔
ان معنوں میں سے پہلے دو کا اطلاق تو کسی بھی صورت قائداعظم پر نہیں ہوسکتا۔یورپ میں چرچ اور سٹیٹ میں مغائرت کا جو تصور ہے وہ اسلام پر منطبق نہیں کیا جاسکتا۔ کیوں کہ اسلام میں چرچ اور سٹیٹ کی علیحدگی کا کوئی تصور موجود نہیں۔ یورپ میں اس تصور کی ضرورت یوں پیش آئی کہ چوں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی کُل زندگی کا صرف ۳۵ سالہ دور محفوظ ہے، اس لیے ان کے لیے ممکن نہیں کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے تمام پہلوئوں کو بطور نمونہ پیش کرسکیں، جب کہ احادیث کے ذریعے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے تمام پہلوئوں کا ایک ایسا بھرپور نقشہ سامنے آتا ہے، جس میں تمام مسلمانوں کے لیے ہدایت کا پیغام موجود ہے۔ صبح سے شام تک زندگی گزارنے کا عمل، پیدایش سے موت تک کے سفر کے لیے ہدایات، ناخن کاٹنے، بیت الخلا جانے، غسل کرنے، کاروبار کرنے، اولاد کی پرورش، جنگ کرنے، صلح کرنے، معاہدہ کرنے، حکومت کرنے، گھر چلانے، غرض زندگی کا کوئی ایسا پہلونہیں جس کے بارے میں کوئی ہدایت نہ ملتی ہو اور جس پر آپؐ کی رہنمائی نظر نہ آتی ہو، لہٰذا اسلام میں چرچ اور سٹیٹ ایک ہی ہیں اور ان میں مخاصمت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
قائداعظم کو سیکولر ثابت کرنے کے لیے معاندین اور دوست نُما دشمن مختلف ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ ایک دور میں یہ کہا جاتا رہا کہ ان کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں، نہ تو انھیں نماز آتی ہے اور نہ وہ نماز پڑھتے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ الزام لگانے والوں میں آل انڈیا مسلم لیگ کے ایک نام نہاد ’ستون‘ سرسکندر حیات بھی شامل تھے۔ ملک برکت علی نے ۲۱جولائی ۱۹۴۱ء کو قائداعظم کو لکھا تھا کہ سر سکندر حیات نے لائل پور [فیصل آباد] میں تقریرکرتے ہوئے کہا ہے کہ: میں گناہ گار ہوسکتا ہوں، لیکن باقاعدگی کے ساتھ نماز پڑھتا ہوں، جب کہ آپ کے قائداعظم دن میں ایک بھی نماز نہیں پڑھتے۔(رضوان احمد، Quaid-i-Azam Papers, 1941، کراچی، ۱۹۷۶ء، ص ۶۴)
قائداعظم کی زندگی کے اس پہلو پر کوئی خاص کام نہیں ہوا، اس لیے اخبارات میں شائع شدہ خبروں سے اس بے بنیاد الزام کا جائزہ لیتے ہیں:
قائداعظم نے ۱۹۳۵ء میں عیدالفطر کی نماز بمبئی کی کرکٹ گرائونڈ میں ادا کی تھی۔ اس موقعے پر ہندستان میں افغانستان کے سفیر مارشل شاہ ولی بھی موجود تھے۔(رحیم بخش شاہین، نقوشِ قائداعظم ، لاہور، ۱۹۷۶ء، ص ۷۶)
یکم مئی ۱۹۳۶ء کو قائداعظم نے بادشاہی مسجد لاہور میں نمازِ جمعہ ادا کی۔ ہنگری کے مفتیِ اعظم علّامہ آفندی نے بھی ان کی ہمراہی میں نماز ادا کی۔ (گفتارِ قائداعظم، (مرتبہ: احمد سعید)۱۹۷۶ء، ص ۱۵۱ بحوالہ انقلاب ، ۳مئی ۱۹۳۶ء)
۳نومبر ۱۹۴۰ء کو آزاد میدان پارک بمبئی میں نمازِ عید کے بعد مسلمانوں سے خطاب کیا تھا۔(ایضاً، ص ۲۵۱)
۳مارچ ۱۹۴۱ء کو آسٹریلیشا مسجد، لاہور میں نمازِ عصر ادا کی تھی۔ اس موقعے پر آپ نے چوڑی دار پاجامہ اور اچکن زیب ِ تن کر رکھی تھی۔ چوں کہ مسجد میں تاخیر سے پہنچے تھے اس لیے صفیں پھلانگ کر آگے جانے کی بجاے پچھلی صف میں آبیٹھے تھے۔ نماز سے فراغت کے بعد اپنے جوتے خود اُٹھائے تھے۔
۲۹دسمبر ۱۹۴۱ء کو آپ نے عیدالاضحی ناگ پور میں ادا کی تھی۔ اس موقعے پر خطبے اور دُعا کے بعد لوگ آپ سے مصافحہ کے لیے بے چین تھے۔ آپ مائیک پر تشریف لائے اور سب کو عیدمبارک کہہ کر نہایت شگفتہ انداز میں کہا کہ: ’اگر آپ سب لوگ میرے ساتھ ہاتھ ملائیں تو میرا ہاتھ یہیں رہ جائے گا‘۔(نواب صدیق علی خان، بے تیغ سپاہی، کراچی، ۱۹۷۱ء، ص ۴۲۸)
آل انڈیا مسلم لیگ کے کراچی اجلاس (۱۹۴۳ء) کے موقعے پر قائداعظم نے نمازِجمعہ سندھ مدرسۃ الاسلام کی مسجد میں ادا کی تھی۔(صادق قصوری، تحریکِ پاکستان اور مشائخِ عظام، لاہور، ص ۲۲-۲۳)
۳۰نومبر ۱۹۴۴ء کو نئی دہلی میں نمازِ عید ادا کی اور اس موقعے پر مسلمانوں سے خطاب بھی کیا۔ اسی طرح ۵نومبر ۱۹۴۵ء کو نماز عیدالاضحی کے بعد مسلمانانِ بمبئی سے خطاب کیا تھا۔ دسمبر ۱۹۴۶ء میں قائداعظم لندن تشریف لے گئے تھے۔ اس موقعے پر ممتاز حسن بھی ان کے ہمراہ تھے۔ ممتاز حسن نے اس سفر کا حال بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: لندن میں قائداعظم نے اس مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے جانا پسند کیا جہاں عام مسلمان نماز پڑھتے ہوں۔ چنانچہ آپ نے ایسٹ اینڈ کی مسجد میں، جو غریب مسلمانوں کی آباد کی ہوئی تھی ، نماز ادا کی۔ قائداعظم کی آمد پر خطبہ ہو رہا تھا تو کچھ لوگ کھڑے ہوگئے۔ اس پر آپ نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ: ’میں دیر سے آیا ہوں اس لیے مجھے جہاں جگہ ملی ہے وہی میرے لیے مناسب ہے‘۔(سہ ماہی صحیفہ ، ’قائداعظم نمبر‘لاہور، ۱۹۷۶ء، ص ۶۴)
یہاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا، جس میں آپؐ نے لوگوں کے سروں کو پھلانگتے ہوئے آگے صف میں جانے سے منع فرمایا تھا۔ زیڈ اے سلہری بھی اس موقعے پر قائداعظم کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے۔ ان کی روایت ہے کہ قائداعظم آخری صف میں بیٹھے بڑے روایتی انداز میں خطبہ پوری توجہ سے سن رہے تھے۔ میں نماز میں ان کے ساتھ ہی کھڑا تھا۔ ایک شخص نے نماز کے بعد ان کے جوتوں کے تسمے باندھنے چاہے مگر آپ نے اسے ایسا نہ کرنے دیا۔
۱۲جولائی ۱۹۴۶ء کو قائداعظم نے حیدرآباد دکن کی مسجد میں نمازِ جمعہ ادا کی تھی۔
اسلامیہ کالج لاہور میں پنجاب مسلم سٹودنٹس فیڈریشن کے ایک جلسے میں علامہ مشرقی کے اذان دینے کا واقعہ تو ۱۳جنوری ۱۹۴۶ء کی بات ہے جب قائداعظم نے دن بارہ بجے اذان سنی تو کہا کہ یہ تو نماز کا کوئی وقت نہیں۔ ظاہر ہے کہ ایک شخص نماز نہیں پڑھتا، اس کو یہ کیسے معلوم ہوگیا کہ کون سی نماز کس وقت پڑھی جاتی ہے؟(بیدار ملک، یارانِ مکتب، جلد دوم، پاکستان سٹڈی سنٹر، لاہور، ۱۹۹۲ء، ص۴۲-۴۳)
سیکولر کا تیسرا معنی، یعنی دُنیوی، دُنیاوی، غیر مذہبی اور غیردینی۔ آیئے اس کو قائداعظم پر منطبق کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر قائداعظم کی ابتدائی زندگی پر ایک غائر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ معاندین کے دعویٰ کے برعکس ایک مذہبی اور دینی ذہن رکھنے والے انسان تھے۔
بمبئی پریذیڈنسی سے شائع ہونے والے ایک اخبار بمبے گزٹ نے اپنی ۱۳؍اگست ۱۸۹۷ء کی اشاعت میں شہر کی مشہور و معروف سماجی تنظیم انجمن اسلام کے زیرِاہتمام ۱۲؍اگست ۱۸۹۷ء بروز جمعرات منعقدہ ایک محفلِ میلاد کی تفصیل دی ہے۔ انجمن اسلام کی عمارت میں محمد جعفری کی تحریک اور نواب محسن الملک کی زیرصدارت یہ جلسہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یومِ ولادت منانے کے سلسلے میں منعقد ہوا تھا اور اس میں ہرطبقے کے مسلمان مغل، عرب، میمن اور بوہرے شریک ہوئے تھے۔ نواب محسن الملک نے اپنی صدارتی تقریر میں اسلام نے مسلمانوں پر جو فرائض عائد کیے ان کا ذکر کیا اور مسلمانوں سے کہا کہ وہ اپنی زندگیاں احکامِ اسلام کے مطابق پرہیزگاری، تقویٰ و طہارت اور راست بازی سے بسر کریں۔ صدارتی تقریر سے قبل سامعین نے بھرپور توجہ اور دھیان سے مولود شریف سنا۔ اس مولود شریف میں ۲۱سالہ ’سیکولر‘ جناح بھی موجود تھے۔(ریاض احمد (مرتب): The Works of Quaid-i-Azam Mohammad Ali Jinnah، جلد۱، اسلام آباد، ۱۹۹۶ء، ص ۴)
تقریباً چار سال بعد انجمنِ اسلام نے ۳۰جون ۱۹۰۱ء بروز اتوار کو اپنے سکول کے ہال میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یومِ ولادت منایا جس میں چار سو کے قریب مسلمانوں نے شرکت کی تھی۔ مرزا علی محمد خان نے اپنی صدارتی تقریر میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور تعلیمات کا بھرپور احاطہ کیا اور آپؐ کے کردار کی سادگی، عالی حوصلگی، عالی ظرفی، شرافت و نجابت کا ذکر کیا۔ اس تقریب میں بھی ’سیکولر‘جناح موجود تھا۔(ایضاً، ص ۶۷-۶۸)
۳۲سال بعد ۷دسمبر ۱۹۳۳ء بروز بدھ لندن کے میٹروپول ہوٹل میں مسلم سوسائٹی برطانیہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے سر اکبر حیدری کی زیرِ صدارت ایک تقریب کا اہتمام کیا تھا۔ اس تقریب میں علامہ اقبال، عباس علی بیگ، لارڈ ہیڈلے (نومسلم)، ڈاکٹر شفاعت احمد خان، اے ایچ غزنوی اور سردار اقبال علی شاہ کے علاوہ ایران، البانیہ، مصر اور سعودی عرب کے وزرا بھی شامل تھے۔ شرکا میں محمدعلی جناح کا نام نمایاں تھا۔(جمیل الدین احمد،Quaid-i-Azam as Seen by His Contemporaries،پبلشرز یونائیٹڈ، لاہور، دسمبر ۱۹۶۶ء)
تقریباً ۱۴سال بعد ۲۵ جنوری ۱۹۴۸ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن نے عیدمیلاد النبیؐ کی تقریب کا اہتمام کیا۔ قائداعظم نے اس تقریب کی صدارت کی تھی۔ اس موقعے پر خطاب کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ: ’’میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک طبقہ دانستہ طور پر یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان کے دستور کی اساس شریعت پر استوار نہیں کی جائے گی۔ آج بھی اسلامی اصولوں کا اطلاق زندگی پر اسی طرح ہوتا ہے جس طرح آج سے ۱۳سوسال پہلے ہوتا تھا۔ جو لوگ گمراہ ہوگئے ہیں یا کچھ لوگ جو اس پروپیگنڈے سے متاثر ہیں، میں انھیں بتلا دینا چاہتا ہوں کہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیرمسلموں کو بھی خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ اسلام اور اس کے اعلیٰ نصب العین نے ہمیں جمہوریت کا سبق سکھایا ہے۔ اسلام نے ہرشخص کو مساوات، عدل اور انصاف کا درس دیا ہے‘‘۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شان دار الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ:’’ آج ہم اس عظیم ہستی کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں جن کے لیے نہ صرف لاکھوں دل احترام سے لبریز ہیں بلکہ جو دنیا کے عظیم ترین لوگوں کی نظر میں بھی محترم ہیں۔ میں ایک حقیر آدمی اس عظیم المرتبت شخصیت کو کیا خراجِ عقیدت پیش کرسکتا ہوں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک عظیم رہبر تھے۔ آپؐ ایک عظیم قانون عطا کرنے والے تھے، آپؐ ایک عظم مدبّر تھے، آپؐ ایک عظیم فرماں روا تھے۔ جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو بلاشبہہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اس بات کو بالکل نہیں سراہتے۔ اسلام نہ صرف رسوم و رواج، روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ ہے، بلکہ اسلام ہرمسلمان کے لیے ضابطہ بھی ہے جو اس کی زندگی کے رویے، بلکہ اس کی سیاست و اقتصادیات وغیرہ پر محیط ہے‘‘۔(وحید احمد(مرتب) ، The Nation's Voice جلد ہفتم، قائداعظم اکادمی، کراچی،۲۰۰۳ء، ص ۱۵۳)
گویا ایک شخص ۲۱سال کی عمر سے لے کر ۷۲سال کی عمر تک مذہبی مجالس میں شرکت کرتا رہا، عام مسلمانوں کے ساتھ نمازیں ادا کرتا رہا اور مختلف خطابات میں آں حضوؐر کو خراجِ عقیدت پیش کرتا رہا، لیکن اس کے باوجود اس پر سیکولرہونے کا الزام ہے۔
یہ بات بھی کیسی عجیب لگتی ہے کہ ۱۹۱۲ء میں اسی سیکولر جناح نے بحیثیت ِ رکن امپریل قانون ساز کونسل میں اسلامی قانون وقف علی الاولاد کا مسودہ پیش کیا اور اسے قانونی حیثیت دلوائی۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ہندستان کی آئینی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ کونسل نے ایک پرائیویٹ ممبر (Private Member) کے بل کو قانونی شکل دی تھی۔(وحید احمد(مرتب) ، The Nation's Voice جلد ہفتم، قائداعظم اکادمی، کراچی،۲۰۰۳ء، ص ۱۵۳)
قائداعظم کو’سیکولر‘ بنانے کے لیے ان کی ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کا سہارا لیا جاتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ قائداعظم نے شاید اپنی تمام سیاسی زندگی میں صرف ۱۱؍اگست کو ہی تقریر کی تھی، نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد۔ آیئے اس تقریر کا جائزہ لیتے ہیں:
سب سے پہلے تو یہ وضاحت کر دی جائے کہ قائداعظم کی تقاریر کے مندرجہ ذیل مجموعے اب تک شائع ہوچکے ہیں: ٭محمدعمر کی مرتبہ: Rare Speeches ، ۱۹۱۰ء تا ۱۹۱۸ء(مطبوعہ صفحات:۲۵۱)، ٭جمیل الدین احمد مرحوم کی مرتبہ: Speeches and Writings of Mr. Jinnah (شیخ محمد اشرف، لاہور، ۲جلدیں)، ٭ڈاکٹر وحید احمد کی مرتب کردہ: The Nation's Voice (چھے جلدیں)، ٭ ڈاکٹر ایم رفیق افضل کی مرتبہ: Speeches in the Legislative Assembly (مطبوعہ ریسرچ سوسائٹی آف پاکستان، لاہور، صفحات:۳۸۸)، ٭ڈاکٹر ایم رفیق افضل ہی کی Selected Speeches and Statements of the Quaid-i-Azam ، ریسرچ سوسائٹی آف پاکستان، لاہور، مئی ۱۹۷۳ء، صفحات: ۴۷۵، قائداعظم کی تقاریر بحیثیت گورنر جنرل ۱۹۴۷ء تا ۱۹۴۸ء، ٭گفتارِ قائداعظم، ۱۹۱۱ء تا ۱۹۴۷ء، مرتبہ احمد سعید۔
تقاریر کے یہ مجموعے ثابت کرتے ہیں کہ قائداعظم نے ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کے علاوہ بھی تقاریر کی تھیں۔ قائداعظم کی پبلک زندگی کی آخری تقریب سٹیٹ بنک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب تھی جس میں آپ نے معاشی ماہرین پر زور دیا تھا کہ چوں کہ سرمایہ داری نظام اور سوشلسٹ نظام انسانی مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہے ہیں اس لیے وہ دُنیا کے سامنے اسلامی نظام کی خصوصیات لے کر آئیں۔
۱۱؍اگست کی تقریر کے بارے میں بے شمار غلط فہمیاں پیدا ہوچکی ہیں جن کا دُور کیا جانا نہایت ضروری ہے۔ ۲۰۰۵ء میں اے آر وائی ٹیلی ویژن پر ایک مؤرخ نما دانش ور نے ایک مضحکہ خیز دعویٰ یہ کیا ہے کہ ’حکومت نے قائداعظم کی اس تقریر پر پابندی لگا دی تھی‘۔ اور یہی غیرمنطقی بات ضمیر نیازی نے بھی لکھی۔
سوال یہ ہے کہ آیا یہ پابندی حکومت ِ پاکستان نے عائد کی تھی یا جواہر لال نہرو کی حکومت ِ ہند نے یا پھر برطانوی حکومت نے؟ ۱۱؍اگست کو حکومت ِ پاکستان تو ابھی معرضِ وجود میں بھی نہیں آئی تھی۔ ابھی تک حکومت انگریز کی تھی۔ بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ پاکستان بننے سے تین دن پہلے ہی مسلم لیگ کاروبارِ حکومت و ریاست پر کنٹرول حاصل کرلے؟ اگر ایسا ہونا ممکن نہیں تو پھر وہ کس طرح یہ پابندی عائد کرسکتی تھی۔ دوسرا یہ کہ پنڈت نہرو کی حکومت کے لیے یہ بہترین موقع تھا کہ وہ قائداعظم کے نظریات میں تبدیلی کے معاملے کو اُچھالتی لیکن مسئلہ یہاں بھی یہی ہے کہ پنڈت جی نے ۱۴؍اگست کو اپنے عہدے کا حلف اُٹھایا تھا۔ رہی برطانوی حکومت تو اس کا بھی مفاد اسی میں تھا کہ وہ اس تقریر پر پابندی لگانے کے بجاے اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی، مگر اس کے بھی کوئی مظاہر سامنے نہیں آتے۔
قائداعظم کی ۱۱؍اگست۱۹۴۷ء کی تقریر کو اس کے سیاق و سباق سے علیحدہ کرکے اس کے اصل مفہوم کو سمجھنا ایک لاحاصل امر ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ قائداعظم نے اپنی اس تقریر میں اقلیتوں کے حوالے سے جو کچھ کہا، وہ کوئی اَنہونی یا نئی بات نہیں تھی۔ قائداعظم کی تقاریر میں آپ کو جابجا اقلیتوں کے حوالے سے یہی کچھ نظر آتا ہے، مثلاً ۱۰نومبر ۱۹۴۶ء کو بنگال کے فرقہ وارانہ فسادات پر اظہارِ افسوس کرتے ہوئے آپ نے ہندو اور مسلمانوں دونوں سے اس قتل و غارت کو بند کرنے کی اپیل کی۔(احمد سعید (مرتب) گفتارِ قائداعظم، اسلام آباد، ۱۹۷۶ء،ص ۳۰۳)
۲۶مارچ ۱۹۴۶ء کو قائداعظم نے گوہاٹی میں ایک جلسۂ عام سے خطاب کرتےہوئے یقین دلایا کہ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کا پورا تحفظ کیا جائے گا اور انھیں تمام جائز مراعات حاصل ہوں گی۔ اس کے متعلق کسی قسم کے خوف یا بدگمانی کی ضرورت نہیں۔ وہ پاکستان کے ایسے ہی آزاد شہری ہوں گے جیسے کسی اور مہذب ملک کے ہوسکتے ہیں‘‘۔(بحوالہ پیسہ اخبار، ۱۰مارچ ۱۹۴۶ء، گفتارِقائداعظم، ص ۲۹۴)
یکم جولائی ۱۹۴۷ء کو پاکستان اچھوت فیڈریشن کے صدر اور لاہور میونسپل کارپوریشن کے ڈپٹی میئر سکھ لال نے قائداعظم سے دہلی میں ملاقات کی۔ ملاقات کے بعد ایک بیان میں انھوں نے اس ملاقات کو تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا کہ: ’’قائداعظم نے مہربانی سے پاکستان میں اقلیتوں کے بارے میں تمام شکوک و شبہات کو دُور کردیا ہے اور مسٹر جناح نے یہاں تک کہا ہے کہ ہم رنگ و نسل اور ذات پات کی تمیز کے بغیر بھائیوں کی طرح رہیں گے‘‘۔(وحید احمد (مرتب)،The Nation's Voice، جلدششم، قائداعظم اکادمی، کراچی ، ۲۰۰۲ء،ص ۲۵)
۱۳جولائی ۱۹۴۷ء کو قائداعظم نے نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس میں اقلیتوں کو یقین دلایا کہ’’ ان کے مذہب، ثقافت، جان اور جایداد کی حفاظت کی جائے گی اور وہ پاکستان کے مکمل شہری ہوں گے اور اس سلسلے میں کسی سے کوئی امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جائے گا۔(بحوالہ پیسہ اخبار، ۲۴جولائی ۱۹۴۷ء، گفتارِقائداعظم، ص ۳۱۳)
۱۳جولائی ۱۹۴۷ء کو قائداعظم کی پریس کانفرنس کے بعد آئین ساز اسمبلی کی ۱۱؍اگست کی تقریر ایک تسلسل ہے اور اس پس منظر میں کی گئی ہے کہ نہ صرف مشرقی پنجاب بلکہ دہلی، یوپی اور ہندستان کے دیگر صوبوں میں مسلم کش فسادات اپنے عروج پر تھے جس کا ردعمل مغربی پنجاب میں بھی ظاہر ہوا۔ اب ایک طرف تو انسانی جانیں ضائع ہورہی ہیں اور دوسری جانب ہندو اور سکھ صنعت کار اپنا سرمایہ سمیٹ کر ہندستان منتقل ہورہے ہیں اور یوں پاکستان کو دہری ضرب لگ رہی ہے۔ اس آگ و خون کے پس منظر میں قائداقلیتوں کو یقین دلا رہے ہیں نہ کہ وہ اپنے ’سیکولر‘ ہونے کا اعلان کر رہے ہیں۔ اپنے اس دعوے کے ثبوت میں ہم اس دور کے چند اخبارات کے تراشے پیش کرتے ہیں:
آل انڈیا مسلم لیگ کا ترجمان ڈان ابھی دہلی سے شائع ہورہا تھا۔ قائدکی یہ تقریر ۱۲؍اگست کے شمارے میں شائع ہوئی تھی۔ ڈان نے اس تقریر کی جو سرخیاں جمائیں وہ ملاحظہ فرمایئے: Jinnah Assures Minorities of Full Citizenship and asks for Co-operation
ایک سابق کانگریسی اور اشتراکی خیالات کے طرف دار لیڈر میاں افتخار الدین کے اخبار پاکستان ٹائمز نے اپنی ۱۳؍اگست کی اشاعت میں قائداعظم کی مذکورہ تقریر کا مکمل متن جس پر درج ذیل سرخیاں لگائی گئی تھیں، شائع کیا۔ اگر یہ تقریر قائد کے پرانے خیالات سے براءت اور سیکولرازم کی قبولیت کا اظہار ہوتی تو کم از کم میاں افتخار الدین کا اخبار اس طرف تھوڑا بہت اشارہ ضرور کرتا۔ اخبار پاکستان ٹائمز کی سرخیاں اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ یہ تقریر اقلیتوں کو یقین دہانیوں کا چارٹر ہے نہ کہ اپنے سیکولر ہونے کا اعلان۔ تین سرخیاں ملاحظہ ہوں:
- Jinnah calls to concentrate on Mass welfare.
- Hope for End of Hindu-Muslim distinction in Politics.
- Equal rights for all citizens in Pakistan State.
قائداعظم کے متعلق برطانوی سیاست دانوں اور اخبارات کا معاندانہ رویہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ لارڈ لنلتھگو (Linlithgow) کی سوانح، پنڈرل مون کی مرتب کردہ لارڈ ویول کی ڈائری اور مائونٹ بیٹن کی سوانح اور انٹرویو کا ایک ایک لفظ قائد کے خلاف زہر اُگلتا نظر آتا ہے۔ برطانوی پریس کے معاندانہ رویے کے جائزے کے لیے ڈاکٹر کے کے عزیز کی کتاب Britain, India and Pakistan کا مطالعہ کافی ہوگا۔ اب اگر قائداعظم اپنی اس تقریر کو سیکولرازم کی قبولیت کا ذریعہ بنا رہے ہیں تو کم از کم لندن کے اخبار ٹائمز کے پاس سنہری موقع تھا کہ وہ قائداعظم کے کردار کی منافقت کو ظاہر کرتا۔ ٹائمز کے ۱۳؍اگست کے شمارے میں ص۶ پر یہ تقریر اس سرخی کے ساتھ شائع ہوئی تھی: A Call for Tolerance۔یاد رہے کہ اخبار نے یہ تقریر کراچی میں اپنے خاص نمایندے کے حوالے سے شائع کی تھی۔
۱۹۴۹ء میں ایس اے آر بلگرامی نے کراچی سے ایک کتاب Pakistan Yearbook شائع کی تھی، جس میں قائداعظم کی مذکورہ بالا تقریر ص ۸ تا ۱۵ پر موجود ہے۔ اس تقریر پر یہ سرخی جمائی گئی ہے: Jinnah's Charter of Minorities Announced
اقلیتوں ہی کے حوالے سے ایک اور نہایت اہم واقعہ اس تقریر کے ٹھیک تین دن بعد پیش آتا ہے، جو ہمارے اس دعوے کو مزید تقویت بخشتا ہے کہ قائد ہرگز ہرگز اپنے گذشتہ عقائد و نظریات سے دست بردار نہیں ہوئے تھے۔ ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو مائونٹ بیٹن نے انتقالِ اقتدار کے وقت اپنی تقریر میں یہ اُمید ظاہر کی کہ: ’پاکستان میں اقلیتوں کے سلسلے میں اکبر بادشاہ کی تقلید کی جائے گی‘۔ اس کے جواب میں قائداعظم نے کہا کہ:
اکبر بادشاہ کی وہ رواداری اور نوازش جو اس نے اپنی غیرمسلم رعایا پر کی، کوئی حالیہ اختراع نہیں بلکہ تیرہ سو سال قبل ہمارے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے عیسائیوں اور یہودیوں پر فتح حاصل کرنے کے بعد نہ صرف لفظی بلکہ عملی طور پر عالی ظرفی اور فیاضی کا سلوک کیا تھا۔ آپؐ نے ان سے حددرجہ رواداری کا برتائو کیا اور ان کے مذہب اور عقائد کا احترام کیا۔ مسلمانوں کی تمام تاریخ جہاں جہاں انھوں نے حکمرانی کی، ایسے ہی تہذیب و شائستگی سکھانے والے عظیم اصولوں سے بھری ہوئی ہے جن پر ہمیں عمل کرنا چاہیے۔(وحید احمد (مرتب) ،The Nation's Voice،جلدششم، ص ۳۷۷)
قائداعظم کے سیکولر ہونے والے معاملے کا ایک اور دل چسپ پہلو یہ ہے کہ اگر وہ سیکولر تھے تو ان کی قائم ہونے والی ریاست بھی سیکولر ہونی چاہیے۔ اس بارے میں خود قائداعظم کا کیا موقف تھا؟ سنیے: ۱۳جولائی ۱۹۴۷ء کو دہلی میں آخری پریس کانفرنس کے دوران آپ نے کہا کہ پاکستان میں اقلیتوں کے مذہب، عقیدہ، زندگیوں، جایدادوں اور ثقافت کی مکمل حفاظت کی جائے گی اور وہ تمام معاملات میں پاکستان کے مکمل شہری تصور ہوں گے۔
پریس کانفرنس میں ایک اخباری نمایندے نے سوال کیا کہ:’کیا پاکستان ایک سیکولر ریاست ہوگی یا مذہبی (Theocratic)؟‘ قائداعظم نے اس پر کہا کہ: ’آپ جو سوال پوچھ رہے ہیں وہ بے معنی اور فضول(absurd) ہے۔ مَیں نہیں جانتا کہ تھیوکریٹک سٹیٹ کا کیا معنی ہے۔ ایک اخباری نمایندے نے کہا کہ: ’تھیوکریٹک سٹیٹ کا مطلب ہے کہ وہ ریاست جہاں مسلمانوں کو تو مکمل شہریت حاصل ہو، جب کہ غیرمسلموں کو یہ حیثیت حاصل نہ ہو‘۔ قائداعظم نے کہا کہ: ’اس کا مطلب ہے کہ اس سے پہلے میں نے جو کچھ کہا وہ بطخ کی پشت پر پانی ڈالنے کے مترادف ہوا۔ خدا کے لیے اپنے ذہنوں سے اس بکواس (nonsense) کو نکال دو‘۔ ایک اور نمایندے نے گرہ لگائی کہ: ’شاید سوال پوچھنے والے کا مطلب یہ ہے کہ مذہبی ریاست، جسے مولانا حضرات چلائیں گے‘۔ اس پر جب قائداعظم نے کہا کہ: ’ہندستان میں پنڈتوں کی حکومت کے متعلق کیا خیال ہے؟‘ تو سب نے ایک زوردار قہقہہ لگایا۔(وحید احمد (مرتب) ،The Nation's Voice،جلدششم، ص۲۸۳)
(like) water off a duck's
back" in English. C2 criticisms of or warnings to a particular person
that have no effect on that person: I've told him that he's heading for
trouble, but he doesn't listen - it's just water off a duck's
back.
Comments
Post a Comment