مفتی صاحب کو معذرت کے ساتھ ایک کوتا قلم کا محبت کے ساتھ جواب


قسط نمبر ۱ 
  
کچھ عرصے قبل مجھے( پروفیسر ڈاکٹر سہیل انصاری) ایک تقریر تحریری صورت میں بذریعہ واٹس ایپ موصول ہوئی۔  جوعلمی دنیا کی معتبر شخصیت انتہائ قابل احترام عالم با عمل مفتی اصغر کی جا نب سے تھا۔ مفتی صاحب سے میں شاگرد اور استاد کی نسبتیں رکھتا ہوں۔ دینی امور میں وہ ہمیشہ میرے لیے معتبر ذریعہ  رہنمائ رہیں ہیں۔ انگریزی زبان کے حوالے سے وہ میرے بارے میں بلا جواز حسن ظن رکھتے ہیں اور اسی حوالے سے مجھے خواہ مخواہ اپنا استاد ہونے کا (محدود مدت کے لیے)شرف بھی عطا کیا  اورمیں اس اعزاز کے لیے ان کا تہہ دل سے مشکور ہوں ۔تنگیِ اوقات اور اپنی نالائقی کی بنا پر ان کے سامنے دینی امور کے  کے حوالے سے زانوئے تلمذ طے نہ کر سکا مگر اس خواہش میں خلاف واقعہ وقت گزرنے کے ساتھ شدت آتی جا رہی ہے۔

تقریر کا بھیجا جانا تائید کے زمرے میں آتا ہے۔تقریر ایک بڑے عالمِ دین کی اور بھجنے والا خود بہت بڑا مفتی ان دونوں چیزوں کا ایک جگہ جمع ہو جانا بذاتِ خود درستگی موقف کی ایک دلیل ہے۔ 
 میں علماِکرام کی موجودگی کو باعث رحمت سمجھتا ہوں اور حسن نثار صاحب کے اس موقف کی کہ نوجوان نسل کی اسلام سے دوری کا سبب مُلا کی اسلام اور نوجوان نسل کے درمیان موجودگی ہے کی تردید اوریا جان کی اس بات سے کرتا ہوں کہُ ملا کی اسلام اور مسلمانوں کے درمیان وہ ہی حیثیت ہے جو ڈاکٹر کی دوا اور مریض کے درمیان کی ہے۔ لہٰذا میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ ڈاکٹر کی ہدایت کے بغیر دواکے استعمال میں جو تباہی ہے وہ ہی عالمِ دین کی رہنمائ کے بغیر قرآن و حدیث سے استفادہ میں 
ہے۔
 
میں خود کو علماِ کرام کی پاؤں کی خاک کے برابر بھی نہیں سمجھتا لہٰذا بقول مولانا روم

از ادب نہ بور بہ پیش شہ مقال
چند وضاحتوں کا اصول اپنی کوتاہ علمی کی بنا پر مطلوب نظر ہے اور یہی مدعا تحریر ہے ۔چنداشکالات اگر دور ہو جائیں تو مولانا کی تقریر پر شرح الصدر حاصل ہو جائے گا.

تجزیہ سے پیدا ہونے والے ایک ممکنہ تاثر کی نفی کو بھی اپنے اُپر لازم سمجھتے ہوئے یہ وضاحت کر دوں کہ جماعتِ اسلامی سے کوئ سیاسی وابستگی نہیں ہے اور نہ ہی میں مولانا مودودی صاحب کے وکیل بننے کی اپنے اندر کوئ علمی استعداد پاتا ہوں۔ مسلکی اعتبار سے دیوبندی ہوں مگر اُس روایتی تنگیِ نگاہ کے بغیر ہوں جس کی وجہ سے نگاہ میں ایسا ٹیڑہ پن پیدا ہو جاتا ہے کہ اپنے دائرے سے باہر کی ہر چیز ٹیڑھی نظر آنے لگتی ہے۔

وحشت میں ہر اک نقشہ الٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے

قومی مزاج کی بنا پر اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ تجزیہ کے اندر گستاخی کے پہلو کو کسی نہ 
کسی طرح سے اور کہیں نہ کہیں سے ڈھونڈ  کر نکال ہی لیا جائے گا
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت نا گوار گزری ہے
لہذا تجزیہ سے پہلے علماء کرام کے احسانات سے اظہار آشنائی اور اور قربانیوں کے اظہار ادراک کے
 لئے اوریا جان مقبول کی ایک تحریر کو ذریعہ بنانا چاہتا ہوں مسجد کی چٹائیوں سے اٹھنے والی تحریکوں کی تحسین کا حق اوریا جان کی ایمان افروز تحریر بھی کماحقہٗ ادا کرنے سے قاصر نظر آتی ہے
"مولوی اور معاشرہ"
(مسجد کی چٹائیوں سے اٹھنے والی تحریکوں پر اوریا مقبول جان کا ایمان افروز کالم)

شیرشاہ سوری کے بنائے ہوئے پیمائش۔ زمین کے خوبصورت نظام کی بنیاد پر جب انگریز نے برصغیر پاک و ہند میں زمینوں کے ریکارڈ مرتب کرنے شروع کیے تو اس کے دماغ میں ایک طبقے سے شدید نفرت رچی بسی تھی اور وہ تھا اس سرزمین کا مولوی۔ انگریز کی آمد سے پہلے یہ لفظ معاشرے میں اس قدر عزت و توقیر کا حامل تھا کہ بڑے بڑے علماء و فضلاء اپنے نام کے ساتھ مولوی کا اضافہ کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے تھے۔
انگریز کی اس طبقے سے نفرت کی بنیاد 1857ء کی جنگ آزادی میں پڑی جس کے سرخیل یہی مسجدوں کے مولوی تھے۔ دلّی کی جامع مسجد سے جہاد کے اعلان نے برصغیر کے مسلمانوں کو اس آخری معرکے کے لیے تیار کیا۔ لیکن یہ تو گزشتہ پچاس سالوں کی وہ جدوجہد تھی جو مسجدوں کی چٹائیوں پر بیٹھ کر دین پڑھانے والے ان مسلمان علماء نے کی تھی۔ ٹیپو سلطان کی شہادت ایسا واقعہ تھا جس نے انگریز کو برصغیر میں قدم جمانے کا موقع فراہم کیا۔ ٹیپو سلطان کی موت کی خبر اس قدر خوش کن تھی کہ آج بھی ایڈمبرا کے قلعہ میں موجود ٹیپو کی نوادرات کے ساتھ یہ تحریر درج ہے کہ اس کی موت پر پورے انگلستان میں جشن منایا گیا۔ اس کے بعد انگریز نے ساری توجہ ان مسلمان مدرسوں کو بند کرنے، ان کو مسمار کرنے اور وہاں پر ہونے والے تدریسی کام پر پابندی لگانے پر مبذول کر دی۔
اسی کے ایک سپوت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے 1803ء میں انگریزوں کے خلاف جہاد کا مشہور فتویٰ دیا 1857ء کی جنگ آزادی میں مولانا فضل حق خیرآبادی اور دیگر علماء کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے مولانا فضل حق خیرآبادی کی قیادت میں جہاد کا فتویٰ جاری کیا۔ 1857ء کی جنگ آزادی کی قیادت علماء کر رہے تھے۔
مولوی کے بارے میں انگریز افواج اور انتظامیہ متفق تھی کہ وہ ان کا شمالی ہند میں سب سے بڑا دشمن ہے۔ آرکائیوز کے اندر موجود دستاویز میں اس مولوی کا جس قدر خوف خط و کتابت میں دکھائی دیتا ہے وہ حیران کن ہے۔ ان کے مقابلے میں ایک دوسرا طبقہ تھا جس کی وفاداریوں نے انگریز کے دل میں اپنی جگہ بنا لی تھی۔ یہ تھا خطۂ پنجاب کا زمیندار چوہدری اور نواب جنہوں نے مسلمانوں کی اس جنگ آزادی میں مجاہدین کے خلاف لڑنے کے لیے افرادی قوت فراہم کی۔ یہی نہیں بلکہ ان بڑے بڑے زمینداروں نے اپنے علاقوں میں جس طرح مسلمانوں کا خون بہایا اور انگریز کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبایا وہ تاریخی سچائی ہے۔ پاکستان کی اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے اکثر ممبران کے آباء و اجداد مسلمانوں کے خلاف اس خونریزی کی قیادت کرتے تھے اور یہاں تک کہ ایک مسلمان جہادی کو مارنے کا معاوضہ صرف چند روپے لیتے تھے۔
پنجاب کی دھرتی کے یہ ’’عظیم سپوت‘‘ جن کی اولادیں آج ہماری سیاسی قیادت ہیں انگریز کے اس قدر وفادار تھے کہ جنگ عظیم اول میں جب فوج کی بھرتیاں شروع ہوئیں تو 1914ء میں 28 ہزار میں سے 14 ہزار پنجاب سے بھرتی ہوئے۔ 1915ء میں 93 ہزار میں سے 46 ہزار پنجاب سے اور 1916ء کے آخر تک پورے ہندوستان سے 2 لاکھ 23 ہزار نوجوان انگریز کے لیے لڑنے کے لیے فوج میں بھرتی ہوئے۔
ان میں سے ایک لاکھ دس ہزار پنجاب سے تھے۔ دوسری جانب 1857ء کی جنگ آزادی میں ہزاروں علماء کو پھانسیاں دی گئیں، توپ کے ساتھ باندھ کر اڑا دیا گیا، کالا پانی بھیجا گیا مگر ان کی تحریک زندہ و جاوید رہی۔ 1864ء میں انبالہ سازش کیس میں مولانا جعفر تھانیسری، مولانا یحییٰ کو پھانسی کی سزا سنائی جاتی ہے۔ شوق شہادت کا یہ عالم کہ دونوں سجدہ شکر ادا کرتے ہیں۔ انگریز ڈپٹی کمشنر پارسن اگلے دن آتا ہے اور کہتا ہے ’’ہم تم کو تمہاری مرغوب سزا شہادت نہیں دیں گے بلکہ تمہیں تمام زندگی کالا پانی میں کاٹنا ہو گی۔ اس کے بعد یہ مشعل مستقل روشن رہتی ہے۔ 1863ء پٹنہ سازش، 1870ء مالوہ سازش، 1871ء انبالہ سازش، 1870ء راج محل سازش اور ایسی بے شمار سازشوں کے خلاف بغاوتیں برصغیر کے اس مولوی کے سینے کا تمغہ ہیں جو بوریہ نشین تھا۔
انگریز جب ریونیو ریکارڈ مرتب کرنے لگا تو اس نے برصغیر اور خصوصاً پنجاب میں آبادی کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک باعزت کاشتکار اور دوسرے غیر کاشتکار، کاشتکاروں میں وہ اعلیٰ نسل نواب، چوہدری ، سردار، وڈیرے اور خان شامل تھے جنہوں نے انگریز سے وفاداری کے صلے میں زمینیں، جاگیریں اور جائیدادیں حاصل کی تھیں۔ جب کہ غیر کاشتکاروں میں محنت مزدوری سے رزق کمانے والے لوہار، ترکھان، جولاہے، موچی وغیرہ۔ انھیں عرف عام میں کمی یعنی کمترین کہہ کر پکارا جانے لگا۔
پنجاب میں کمی کمین ایک عام لفظ ہے جو ہر متکبر زمیندار کے منہ پر ہوتا ہے۔ ریوینیو (محکمہ مالیات) کے ریکارڈ میں ایک ’’فہرست کمیاں‘‘ مرتب کی گئی جس میں لوہار، ترکھان اور موچی، جولاہے کے ساتھ مسلمانوں کی قیادت کے دینی طبقے مولوی کو بھی شامل کر دیا گیا اور پھر گاؤں میں جو تضحیک کمی کمینوں کے حصے میں آئی مولوی کو بھی اسی تضحیک کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اس کے باوجود اس طبقے نے مسجد کی چٹائی سے دین کی مشعل تھامے رکھی۔
ہزاروں دیہاتوں میں یہ واحد پڑھا لکھا فرد ہوا کرتا تھا لیکن بڑے زمیندار جو جاہل اور ان پڑھ تھے ان کی تذلیل سہتا، جوتیوں میں بٹھایا جاتا، کٹائی پر بیگار میں لگایا جاتا مگر کمال ہے اس مرد باصفا کا کہ صبح فجر پر مسجد پہنچتا، چبوترے پر کھڑے ہو کر اذان دیتا، لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتا، بچوں کے کان میں اذان دیتا، نکاح پڑھاتا اور اس ظالم چوہدری کے مرنے پر اس کے لیے قرآن بھی پڑھتا اور دعا کے لیے ہاتھ بھی اٹھاتا۔ شہروں میں بھی مولوی کو مسجد کی ڈیوٹی تک محدود کر دیا گیا۔ معاشرے سے اس کا تعلق صرف تین مواقع پرہوتا ہے۔
پیدائش کے وقت کان میں اذان، شادی کے وقت نکاح خوانی، اور موت پر مرنے والے کا جنازہ اور دعائے مغفرت۔ ملک بھر کی چھوٹی چھوٹی لاکھوں مساجد میں یہ امام ایک مزدور سے بھی کم تنخواہ پر امت کا سب سے اہم فریضہ یعنی اللہ کی جانب بلانا، ادا کر رہےہیں، بچوں کو قرآن بھی پڑھا رہے ہیں اور پنجگانہ نماز کی امامت بھی۔ کبھی ایک سیکنڈ کے لیے بھی مساجد میں نماز لیٹ نہ ہوئی کہ مولوی اپنے مطالبات کے حق میں ہڑتال پر ہیں۔ اس معاشرے نے جو فرض عین انھیں سونپا انھوں نے معاشرے کے ہر شعبے سے زیادہ حسن و خوبی اور اخلاص کے ساتھ ادا کیا۔
اس سب کے بدلے میں انگریز کے اس تخلیق کردہ معاشرے نے مولوی کو کیا دیا۔ وہ قرآن جس کی تعلیم کو اللہ نے سب سے بہتر تعلیم قرار دیا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان معلموں اور طالب علموں کو افضل ترین قرار دیا۔ یہ طالب جو اس راستے پر نکلے شام کو ہر دروازے پر دستک دے کر کھانا اکٹھا کرتے ہیں اور پھر جو روکھی سوکھی مل جائے اسے نوشِ جاں کرتے ہیں۔ عالیشان کوٹھیوں میں رہنے والے اپنے بچوں کو انگریزی، فزکس، کیمسٹری کے لیے ہزاروں روپے ماہانہ دے کر بہترین استاد کا بندوبست کرتے ہیں، لیکن قرآن پڑھانے کے لیے انھیں ایسا مولوی چاہیے جو دو وقت روٹی لے کر خوش اور زیادہ سے زیادہ عید پر ایک جوڑا۔ جنھیں اپنے سگے ماں باپ کو موت کے بعد نہلانا نہیں آتا، اپنے باپ یا ماں کوجہنم کی آگ سے بچانے کے لیے مغفرت کی دعا کے دو حرف پڑھنے نہیں آتے وہ مولوی کا تمسخر اڑاتے رہے۔
اسے تضحیک کا نشانہ بناتے رہے۔ لیکن یہ مولوی اللہ کا بندہ اس معاشرے کی تمام تر ذلت و رسوائی کے باوجود پانچ وقت اللہ کی بڑائی اور سیدالانبیاء صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کا اعلان کرتا رہا۔ وہ اگر سرکار کی کسی مسجد میں ملازم ہوا تو اس کی عزت و توقیر بھی پاؤں تلے روندی گئی۔کسی اوقاف کے منیجر نے اس کو ہاتھ باندھ کر کھڑا کیا تو دوسری جانب کسی انگریز فوجی یونٹ کے کرنل نے بلا کر کہا، او مولوی تمہیں سمجھ نہیں آتی یہ تم کیا قرآن کے الٹے سیدھے معانی نکالتے رہتے ہو۔ انسان کے بچے بن جاؤ ورنہ کوارٹر گارڈ بھی بند کر دوں گا۔ تمسخر، تضحیک، ذلت، لطیفے بازی سب اس مولوی کا مقدر تھی اور ہے۔ اب تو اگر کوئی اس حلیے کا شخص کسی چیک پوسٹ پر آ جائے تو دہشتگردی کے شبہ میں تلاشی کے عذاب سے بھی گزرتا ہے۔
لیکن اس سب کے باوجود اس دور کی پر آشوبی میں دین کی اگر کوئی علامت ہے تو اس بوسیدہ سی مسجد کے چھوٹے سے کوارٹر میں رہنے والا مولوی۔ اسلام صرف مولوی کا نہیں ہم سب کا ہے۔ اللہ تعالٰی قیامت کے روز صرف مولوی سے نہیں پوچھے گا کہ تم نے دین کا علم حاصل کرنے اور پھیلانے میں اپنی ذمے داری ادا کی بلکہ ہر مسلمان سے یہ سوال ہو گا۔
اس سے بھی جو مسلمان کہلاتا ہے لیکن مسلمان بنتا نہیں اور اس سے بھی جو مسجد میں چندہ دے کر یہ سمجھ لیتا ہے کہ دین کا فرض ادا ہو گیا۔ یہ رویہ جو گزشتہ دو سو سال سے انگریز نے اس معاشرے میں پیدا کیا ہے جس نے مولوی کو تمسخر کا نشانہ بنایا ایسے معاشرے میں جب ایک خاتون۔۔۔ عالمِ دین اور پابندِ شرع شخص کو اوئے، ابے، جاہل اور ایسے ذلت آمیز الفاظ سے بلاتی ہے تو تعجب کیسا۔ ایسا وہ معاشرے کے کسی اور طبقے سے کر کے دکھائے۔ زندگی جہنم نہ بنا دیں اس کی، کسی پارٹی کے لیڈر کو اس طرح ذلیل و رسوا کرنے کی کوشش کرے۔ ہر کسی کا زور مولوی پر چلتا ہے.

طوالت کے اندیشہ کے پیشِ نظر میں نے تمام تقریر کا ایک ساتھ جواب دینے کے بجائے مرحلہ وار جواب دینا مناسب سمجھا۔ جواب تقریر کے پہلے حصے کے چند جملوں کا ہے نہ کہ پورے حصے کا مگر میں پہلے تقریر کا وہ حصہ (جس کے کچھ جملوں کا تجزیہ کیا گیا ہے)پورا کا پورا درج کر دیتا ہوں تا کہ سیاق وسباق کے ساتھ قارین خود پڑھ لیں اور یہ تاثر کائم کرنے کی گنجائش یکسرختم ہو جائے کہ لائنوں کو حسبِ منشا کاٹ کر یا پھر دوسری لائنوں سے جوڑ کر یا پھر ایک پیراگراف کی کچھ لائنوں کو دوسرے پیراگراف سے جوڑ کر مفید مطلب مفہوم کو یقینی بنایا ہے۔



میں یہ اہتمام ہر قسط میں کروں گا۔


"تقریر کا حصہ نیچے درج ہے"
ﻣﻮﺩﻭﺩﯼ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﮐﯽ ﭘﺎﻧﭻ ﮔﻤﺮﺍﮨﯿﺎﮞ : ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻗﺪﺱ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻣﻔﺘﯽ ﺳﻌﯿﺪ ﺍﺣﻤﺪ ﺻﺎﺣﺐ ﭘﺎﻟﻦ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﺍﻣﺖ ﺑﺮﮐﺎﺗﮭﻢ
ﻣﻮﺩﻭﺩﯼ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﮐﯽ ﭘﺎﻧﭻ ﮔﻤﺮﺍﮨﯿﺎﮞ
ﻣﻘﺮﺭ : ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻗﺪﺱ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻣﻔﺘﯽ ﺳﻌﯿﺪ ﺍﺣﻤﺪ ﺻﺎﺣﺐ ﭘﺎﻟﻦ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﺍﻣﺖ ﺑﺮﮐﺎﺗﮭﻢ، ﺷﯿﺦ ﺍﻟﺤﺪﯾﺚ ﻭ ﺻﺪﺭ ﺍﻟﻤﺪﺭﺳﯿﻦ ﺩﺍﺭﺍﻟﻌﻠﻮﻡ ﺩﯾﻮﺑﻨﺪ
ﻧﺎﻗﻞ : ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺍﺣﻤﺪ ﺳﻌﯿﺪ ﭘﺎﻟﻦ ﭘﻮﺭﯼ، ﺍﺳﺘﺎﺩ ﺟﺎﻣﻌﺔ ﺍﻟﺸﯿﺦ ﺣﺴﯿﻦ ﺍﺣﻤﺪ ﺍﻟﻤﺪﻧﯽ ﻣﺤﻠﮧ ﺧﺎﻧﻘﺎﮦ ﺩﯾﻮﺑﻨﺪ
ﺧﻄﺒﮧٔ ﻣﺴﻨﻮﻧﮧ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ :
‏( ﺍﻫْﺪِﻧَﺎ ﺍﻟﺼِّﺮَﺍﻁَ ﺍﻟْﻤُﺴْﺘَﻘِﻴﻢَ * ﺻِﺮَﺍﻁَ ﺍﻟَّﺬِﻳﻦَ ﺃَﻧْﻌَﻤْﺖَ ﻋَﻠَﻴْﻬِﻢْ ﻏَﻴْﺮِ ﺍﻟْﻤَﻐْﻀُﻮﺏِ ﻋَﻠَﻴْﻬِﻢْ ﻭَﻟَﺎ ﺍﻟﻀَّﺎﻟِّﻴﻦَ (
ﺑﺰﺭﮔﻮ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﺎﺋﯿﻮ ! ﺁﺝ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ، ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺟﻨﺎﺏ ﺳﯿﺪ ﺍﺑﻮﺍﻻﻋﻠﯽٰ ﻣﻮﺩﻭﺩﯼ ﺻﺎﺣﺐ، ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺟﻤﺎﻋﺖ " ﺟﻤﺎﻋﺖِ ﺍﺳﻼﻣﯽ " ﮐﯽ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﺳﻤﺠﮭﺎﺅﮞ، ﻟﻮﮒ ﻋﺎﻡ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻭﺍﻗﻒ ﻧﮩﯿﮟ، ﺍﻭﺭ ﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﮐﮯ ﺑﺲ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﺳﻤﺠﮭﺎﻧﺎ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ، ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺁﺝ ﮐﯽ ﺁﺧﺮﯼ ﻣﺠﻠﺲ ﻣﯿﮟ ‏( ﻧﯿﻮﯾﺎﺭﮎ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺑﮍﯼ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﻭﺍﻻ ﮐﺎ ﺩﺱ ﺩﻥ ﮐﺎ ﭘﺮﻭﮔﺮﺍﻡ ﺗﮭﺎ، ﺭﻭﺯﺍﻧﮧ ﻋﺸﺎﺀ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﯿﺎﻥ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ، ﺑﯿﺎﻥ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺳﻮﺍﻝ ﻭ ﺟﻮﺍﺏ ﮐﺎ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﭼﻠﺘﺎ ﺗﮭﺎ، ﻟﻮﮒ ﺑﺎﺭ ﺑﺎﺭ ﺟﻤﺎﻋﺖِ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ، ﺣﻀﺮﺕ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺘﮯ ﺗﮭﮯ، ﮐﮧ ﯾﮧ ﺗﻔﺼﯿﻠﯽ ﻣﻮﺿﻮﻉ ﮨﮯ، ﮐﺴﯽ ﻭﻗﺖ ﺳﻤﺠﮭﺎﺅﮞ ﮔﺎ، ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺁﺧﺮﯼ ﺩﻥ ﺍﺳﯽ ﻣﻮﺿﻮﻉ ﭘﺮ ﺗﻘﺮﯾﺮ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ‏) ﺍﺱ ﻣﻮﺿﻮﻉ ﭘﺮ ﻣﺨﺘﺼﺮ ﮐﻼﻡ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ، ﻟﯿﮑﻦ ﺟﻮ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﻭﻧﮕﺎ، ﻭﮦ ﺑﻨﯿﺎﺩﯼ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮨﻮﻧﮕﯽ، ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺁﭖ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺑﻐﻮﺭ ﺳﻨﯿﮟ، ﺟﺲ ﮐﯽ ﺳﻤﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﺁﺋﮯ ﻭﮦ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﮮ، ﻧﮧ ﺳﻤﺠﮫ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺳﮑﺘﺎ۔
ﻣﻮﺩﻭﺩﯼ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩﯼ ﮔﻤﺮﺍﮨﯿﺎﮞ ﭘﺎﻧﭻ ﮨﯿﮟ:


طالبِ علم کی حیثیت سے تقریر کو پڑھنا شروع ہی کیا تھا کہ جملے "ہر ایک کے بس میں اسے سمجھانابھی نہیں ہے"نے تسلسل کو توڑ دیا ۔ بے اختیار دل پکار اٹھا دماغ نے بھی تائید کی کہ کاش یہ کہہ دیا جاتا کہ پر ایک کے بس کی بات تو نہیں ہے مگر میں اپنی سی ایک کوشش کر لیتا ہوں ذہن نہ جانے کیوں صحابہِ کرام کی طرف چلا گیا جن کا علم و فضل کے اعلیٰ ترین مقام پر ہونے کے باوجود علمی گھمنڈ سے دور دور تک کوئی واستہ نہیں تھا۔
اللہ تعالیٰ تو حضرت سلیمانؑ جیسے جلیل القدر نبی کو ہد ہد جیسے چھوٹے پرندے کے ذریعے اُن کو اُن کی کم علمی کا احساس دلاتے ہیں۔
علم کا زعم لوگوں کو متاثر نہیں مرعوب کرتا ہے۔لوگ بات کے بجائے شخصیت سے متاثر ہوتے ہیں۔

یوں تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
 کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں

اور یہیں سے پیری مریدی کے ایسے سلسلوں کا آغاز ہوتا ہے جن میں پیر صاحب کی ذات کا ظہور تمام
 تر تجلیات کے ساتھ مریدین کی آنکھوں کو خیرہ تو کرتا ہے مگر اُن کی طبیعتوں کو روحانی طور پر سیر کرنے سے قاصر رہتا ہے دراصل اپنی ذات کے حصول کے لئے جڑنے والے آغاز ہی سے غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں ۔ایسے سلسلے تو پیر صاحب اپنی ذات کے حصول کے لیے اور وہ بھی حصولِ نقد کے برپا کرتے ہیں۔لہٰذا مریدین کی ناکامی کو اُن کی اپنی غلط فہمی میں تلاش کرنا چاہیے نہ کہ پیر صاحب کی ذات اقدس میں

بے یدِ بیضا ہے پیرانِ حرم کی آستیں

مریدین تو تقاضا عشق کی لازمی شرط ( عقل کو ایک کونے میں لپیٹ کے رکھنا ہی نہیں بلکہ اسے دفن بھی کرنا) کو پورا کرکے پیر صاحب کی ذات اقدس میں ظہور پذیر فیضان خداوندی کو دیکھنے سے مستفید ہو ہی جاتے ہیں مگر دوسرے افراد مریدین کے برعکس اس فیضان خداوندی کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے قاصر
رہتے ہیں کیونکہ عقل کو دفن کرنے میں ناکامی کی وجہ سے عشق نہیں ہوتا اور جب عشق نہیں ہوتا تو جنوں کے آثار نہیں ہوتے لہذا پیر صاحب دیوانہ بنانے سے قاصر رہتے ہیں بلکہ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ خود بعض اوقات دیوانے نظر آتے ہیں
روے سخن ہرگز مولانا مفتی سید احمد صاحب کی جانب نہیں ہے میں نے ایک عمومی بات کی ہے
دوسری لائن سے بھی ایک دھچکا لگا۔"جس کی سمجھ میں آئے۔۔۔۔مجبور نہیں کیا جاسکتا"۔

عربی زبان کے ایک بڑے شاعرغالباً قیس نے ایک دفعہ کہا جب میں بولتا ہوں تو لوگ خاموش ہو کر سنتے ہیں اور جب میں خاموش ہوجاتا ہوں تو کوئ نہیں بولتاکیونکہ بولنے کے لیے کچھ بچتا ہی نہیں ہے۔ تعلی شاعری میں تو ممنوع نہیں ہے 
میرے غبار کی یہ تعلی تو دیکھیے

اتنا بڑھا کہ عرش معلی سے مل گیا 

لیکن علمی دنیا میں اس طرح کے تفاخرِ علمی کا اظہارایک طرح سے الوہیت کے دعوی کے مترادف ہے۔لگتا ہے تقریر کا آغاز اس یقین کامل سے ہورہا ہے کہ ہونے والی تقریر تقریرِکامل ہوگی ۔
قرآن کریم ایسا کلام ہے جس کے غلطیوں سے مبرا ہونے میں کوئ کلام نہیں۔قرآن کریم کے حوالے سے جو سوال اٹھے گا وہ سوال اٹھانے والے کی اپنی کم فہمی کج روی اور ہٹ دھرمی کی دلیل ہوگا ۔ قران اگر کسی کی سمجھ میں نہ آئے(ضد اور عناد کی بنا پر)تو اس دنیا میں کسی کو مجبور نہیں کیا جاسکتا


اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَؕ-وَ لَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِیْهِ اخْتِلَافًا كَثِیْرًا ۸۲)


۔کیا مولانا صاحب کی تقریر کو بھی یہی درجہ دیا جائے جس کی طرف مولانا صاحب اشارہ فرما رہیں ہیں؟

مولانا مفتی سید احمد صاحب کی یہ بات "جس کی سمجھ میں نہ آئے---" جب ججتی جب تقریرمیں تمام ممکنہ اعتراضات اور سوالات کا جواب اس انداز میں مرحمت کر دیا جاتا کہ حجت تمام ہو جاتی دل و دماغ تقریر کو دلیل قطعیت کے درجے پر فائز کرنے پر مجبور ہوجاتے مگر لگتا ہے کہ پیشگی طور پر تقریر کو تقریر کامل سمجھ لیا گیا ہے اور نہ سمجھ میں آنے کو دل پر مہر سے تعبیر کر لیا گیا ہے

خَتَمَ اللّٰهُ عَلَىٰ قُلُوۡبِهِمۡ وَعَلٰى سَمۡعِهِمۡ‌ؕ وَعَلٰىٓ اَبۡصَارِهِمۡ

اللہ تعالی ہم سب کی علمی گھمنڈ سے حفاظت فرمائے

حديث: لَنْ يَدْخُلَ الجَنَّةَ مَنْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ كِبَرٍ.
 Andrew Murrey نے مختصر مگر جامعیت کے ساتھ خوبصورت انداز میں اشارہ کیا ہے

‘Pride must die in you, or nothing of heaven can live in you’

فَلَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ


ابھی تھوڑا ہی آگے بڑھا تھا کہ لفظ مودودی جماعت نے ٹھہرجانے پر مجبور کر دیا۔ کسی شخص یا کسی ادارے یا کسی جماعت کا ایسا نام رکھنا جس کے بارے میں یہ گمان غالب ہو کہ باعثِ دل آزاری ہوگا مناسب طرزِ عمل نہیں ہے۔مثال کہ طور پر بہت سے بہت سے افراد کا رائیونڈ جانے والوں کو رائیونڈی کہہ کر تذلیل کا نشانہ بنانا وغیرہ 
ربما تكسر قلباً يحبه الله

دلوں کو زخم نہ دو حرف نا ملائم سے
یہ تیر وہ ہے کہ جو لوٹ کر بھی آتا ہے

 مودودی صاحب کی جماعت تو مناسب ہے مگر یہ مودوری جماعت کیا چیزہے؟

 شیخ عبدالقادر جیلانی سے منصوب ایک واقعہ ہے کہ ایک عورت آپ کے پاس اپنا بیٹا لے کر آئی اور عرض کی حضور اسے نصیحت فرمائیں یہ شکر بہت کھاتا ہے آپ نے فرمایا کہ کل آنا۔وہ عورت دوسرے دن پھر حاضر خدمت ہوئی تو آپ نے کہا بیٹا شکر کے معاملے میں حد اعتدال سے تجاوز نہ کروکیونکہ اعتدال میں خیر و عافیت اور برکت ہے۔ عورت نے کہا کہ حضور میں اتنا لمبا سفر کر کے دوبارہ آئی ہوں۔یہ بات تو آپ کل بھی کہہ سکتے تھے۔ آ پ نے فرمایا کہ کل میں نے خود شکر کے معاملے میں احتیاط کا دامن چھوڑ دیا تھا لہٰذا نصیحت کا اثر نہیں ہوتا ۔ الفاظ کے پیچھے اگر عمل کی قوت نہ ہو تو یہ بے تاثیر ہو کراپنی وقعت کھو بیٹھتے ہیں
 الأفعال أبلغ من الأقوال

دوسروں کی اصلاح کرنے کے لیے اٹھنے والے اگر خود قابل اصلاح ہو ایک مریض دوسرے مریض کا کیا علاج کر پائے گا مریض ڈاکٹر بننے پر بضد ہی اس وجہ سے ہے کہ

أرى كل إنسان يرى عيب غيره ويعمى عن العيب الذي هو فيه

حضرت موسی علیہ السلام سے کسی نے پوچھا کہ بنی اسرائیل میں سب سے بڑا عالم کون ہے آپ نے جواب دیا میں جواب درست تھا مگر اللہ کی ناراضگی کا سبب بنا معلوم ہوا کہ بات درست بھی ہو تو بھی بربنائے الفاظ قابل گرفت ہوجاتی ہے
   مولانا کے حوالے سے تو جواب کی درستگی کے بارے میں بھی یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا
ہیں۔
 اللہ تعلیٰ ہم سب کو دوسروں کو حقیر سمجھنے سے محفوظ رکھے۔

أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَومٌ مِّن قَوْمٍ عَسَى أَن يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاء مِّن نِّسَاء عَسَى أَن يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ (11:49)

وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (11:49)

ایک طرف تو دین کے کام کو کرنے والوں کے حوالے سے ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻣﻔﺘﯽ ﺳﻌﯿﺪ ﺍﺣﻤﺪ ﺻﺎﺣﺐ کا یہ تضحیک آمیز رویہ ہے اور دوسری جانب مولانا ابوالاعلی مودودی کا طرز عمل ہے

دوسری دینی جماعتوں کے متعلق میرا نقطۂ نظر ہمیشہ سے یہ رہا ہے، اور میں اس کا اظہار بھی کرتا رہا ہوں کہ جو جس درجے میں بھی اللہ کے دین کی کوئی خدمت کر رہا ہے، بساغنیمت ہے۔
مخالفِ دین تحریکوں کے مقابلے میں دین کا کام کرنے والے سب حقیقت میں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، اور انھیں ایک دوسرے کو اپنا مددگار سمجھنا چاہیے۔ رقابت کا جذبہ اگر پیدا ہوسکتا ہے تو اسی وقت، جب کہ ہم خدا کے نام پر دکان داری کر رہے ہوں۔ اس صورت میں تو بے شک ہردکان دار یہی چاہے گا کہ میرے سوا اس بازار میں کوئی اور دکان نظر نہ آئے۔ لیکن، اگر ہم یہ دکان داری نہیں کر رہے ہیں، بلکہ اخلاص کے ساتھ خدا کا کام کر رہے ہیں ،تو ہمیں خوش ہونا چاہیے کہ ہمارے سوا کوئی اور بھی اسی خدا کا کام کر رہا ہے۔ اگر کوئی کلمہ پڑھوا رہا ہے تو وہ بھی بہرحال خدا ہی کی راہ میں ایک خدمت انجام دے رہا ہے، اور اگر کوئی وضو اور غسل کے مسائل بتارہا ہے تو وہ بھی اس راہ کی ایک خدمت ہی کر رہا ہے۔ آخر اس کو مجھ سے اور مجھے اس سے رقابت کیوں ہو اور ہم ایک دوسرے کی راہ میں روڑے کیوں اٹکائیں؟
 کلماتِ خبیثہ کی اشاعت کرنے والوں کے مقابلے میں تو کلمۂ طیبہ پڑھوانے والا مجھے عزیز تر ہونا چاہیے، اور فسق و فجور پھیلانے والوں کے مقابلے میں احکامِ شرعیہ کی تعلیم دینے والا بھی مجھے محبوب ہی ہونا چاہیے۔ میں نے جماعت ِ اسلامی کے کارکنوں میں بھی ہمیشہ یہی جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کے خلاف کسی روش کو میں نے کبھی پسند نہیں کیا ہے۔ اگر آپ نے کہیں جماعت میں اس سے مختلف کوئی جذبہ و عمل پایا ہو تو مجھے تعینِ مقام و اشخاص کے ساتھ اس کی خبر دیجیے، تاکہ میں اس کی اصلاح کرسکوں۔([سیّدابوالاعلیٰ مودودی] ترجمان القرآن، جلد
۵۰، عدد۶،      محرم ۱۳۷۷ھ/ ستمبر۱۹۵۸ء،ص۶۱)

جو اعلی ظرف ہوتے ہیں ہمیشہ جھک کے ملتے ہیں
صراحی سرنگوں ہو کر بھرا کرتی ہے پیمانہ

Comments